فضلائے مدارس کو انگریزی سکھانے میں مرکزالمعارف کا کردار

 

نازش ہما قاسمی

ہندوستان بالخصوص برصغیر کے مسلمان یہ سمجھتے تھے کہ مولویوں میں انگریزی داں صرف جوہر برادران تھے جنہوں نے اپنی تحریر و تقریر سے انگریزی ایمپائر کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور اس کے بعد کے مولوی نرے عالم و فاضل اور صرف عربی و اردو زبان پر مہارت رکھنے والے ہوتے ہیں جو اپنی ٹرین کے ریزرویشن کا فارم تک نہیں بھر سکتے ہیں، لیکن قربان جاؤں محسن ملت فخرالعلماء حضرت مولانا بدرالدین اجمل صاحب قاسمی پر جنہوں نے اپنی فکری پرواز، تخلیقی صلاحیتوں اور اخلاص عمل سے ایسا نمایاں کارنامہ انجام دیا جس نے مسلمانان ہند ہی نہیں؛ بلکہ عالمی سطح پر عالم دین کے تئیں ذہن و دماغ میں بیٹھے ہوئے اس منفی سوچ کو مثبت سوچ میں بدل دیا اور اپنے امتیازی کارنامے سے فضلائے مدارس کو انگریزی اور علوم عصریہ کی تعلیم دینے کے لیے ایسے ادارے کی بنیاد ڈالی جس نے عالم دین کے خلاف منفی سوچ کو یکسر بدل کر رکھ دیا اور ایسا لسانی انقلاب پیدا کیا کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ ہوگئیں اور سننے والوں کو اپنی کانوں پر یقین نہیں آیا؛ لیکن جنہوں نے بھی دیکھا اور سنا اور اس کی کارکردگی سے روشناس ہوا تو متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا، اس ادارے کا نام مرکزالمعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر ہے۔ بانی مرکز المعارف فخرالعلماء حضرت مولانا بدرالدین اجمل صاحب قاسمی نے مرکز المعارف کے اغراض و مقاصد اور وجہ قیام پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہمارے اکابر کا خواب تھا کہ ہمارے فضلاء بھی انگریزی سیکھیں، انگریزی میں بات کریں، انگریزی میں لکھیں اور انگریزی میں تقریر کریں اور دین کی تبلیغ و اشاعت کا اہم فریضہ انجام دے سکیں، یہ جو کہا جاتا ہے کہ اکابر انگریزی زبان کے خلاف تھے، یہ سراسر جھوٹ اور اکابر پر بہتان ہے، اکابر انگریزی زبان کے نہیں؛ بلکہ انگریزی تہذیب کے خلاف تھے، مولانا اجمل صاحب مزید کہتے ہیں کہ جب میں نے اکابر کے اس دیرینہ خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کھڑا ہوا تو سب سے پہلے میرے پیرومرشد فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے میرے اس اقدام کو سراہا اور خوب دعائیں دیں اور قدم قدم پر رہنمائی کی، آج ان ہی اکابر امت کی دعائیں ہیں کہ مرکزالمعارف کے فضلا انگریزی زبان سیکھ کر دین کی خدمت کا اہم فریضہ انجام دے رہے ہیں، مرکز المعارف کے فضلاء نے اپنے اکابر کے دیرینہ خواب کی تکمیل کرتے ہوئے اس زبان پر وہ مہارت حاصل کی کہ وہ بھی اب گھنٹوں تقریر کرکے قوم پر ہورہے ظلم کو آشکار کررہےہیں، طویل تقریر کے ذریعے اسلام پر ہورہے اعتراضات کا جواب دے رہے ہیں۔ دیار غیر میں اسلام کی نشرواشاعت میں منہمک ہیں۔ ۔۔مولوی کو انگریزی نہیں آتی۔۔۔یہ تو ریلوے کا فارم بھی نہیں بھرسکتے۔۔۔۔یہ تو انگلش میں سائن بورڈ بھی پڑھ کر کہیں آ۔جانہیں سکتے۔۔۔یہ تو انتہائی پچھڑے اور دقیانوسی سوچ کے مالک ہوتے ہیں۔۔۔ انگریزی اخبار وہ تو صرف دسترخوان کےلیے استعمال کرتے ہیں۔ ان کی صلاحیتوں کا محور صرف چہار دیواری ہے۔ وہ چہار دانگ عالم میں اسلام کا ڈنکا کیوں کر بجا سکتے ہیں۔ صرف عربی اور اردو پر عبور حاصل کرکے یوروپ جیسے ممالک میں وہ کیوں کر اشاعت دین کا فریضہ انجام دے سکتے ہیں اور سب سے بڑی بات تو یہ کہ انگریزی زبان ان کے نزدیک حرام ہے۔ وہ اسے حاصل کرہی نہیں سکتے۔۔۔ان تمام سوچوں اور فکروں کو مرکزالمعارف کے فارغین نے غلط قرار دیا۔ اور بتادیا کہ ہمارے اکابر انگریزی زبان وادب کےنہیں ،بلکہ انگریزی تہذیب وتمدن کے مخالف تھے۔ جو آج بھی ہیں اور رہتی دنیا تک رہیں گے۔ ۴؍۵؍۶؍ اکتوبر کو دہلی میں مرکز المعارف کا سہ روزہ سلور جبلی پروگرام تھا۔ جہاں مرکز کے مستفیدین اور جید علمائے کرام پہنچے ہوئے تھے۔ عجیب منظر تھا۔ ۔۔ذہن ودماغ سے ابھی تک وہ منظر بھلا نہیں پارہا ہوں۔۔۔کہ کس طرح مدرسے کے فارغین انگریزی زبان میں انتہائی سلاست وروانی سے حالات حاضرہ پر تقریریں کررہے تھے، اپنے مافی الضمیر کو ادا کررہے تھے۔ صرف دو سالہ کورس کی وجہ سے یہ سب ممکن ہوسکا تھا۔ اگر شروع سے ہی انگریزی زبان داخل نصاب ہوتی تو اس کا نتیجہ کیا ہوتا؟ آج مرکز کے فضلاء میں پچاس کے قریب پی ایچ ڈی ہولڈرس ہوچکے ہیں۔ مولوی کے ساتھ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرچکے ہیں۔ امریکہ، لندن، افریقہ میں جاکر اسلام کی نشرواشاعت میں منہمک ہیں اور امید ہے کہ جب اس کا پچاس سالہ جشن منایاجائے گا تب تک مرکز کے فضلاء پوری دنیا کو اپنے علم سے بہرہ ور کررہے ہوں گے ۔ انگریزی زبان وادب مولویوں کو سکھانے کا خواب مولانا بدرالدین اجمل کے پیرومرشد اور ہم سب کے مربی فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی ؒ نے دیکھا تھا جسے شرمندہ تعبیر مولانا بدرالدین اجمل نے کیا اور اس خوش اسلوبی سے کیا کہ آج رشک آتا ہے کہ کاش میں بھی مرکز سے پڑھا ہوتا؛ تاکہ اردو کی بنسبت انگریزی زبان وادب پر عبور حاصل کرکے معاصر چیلنجوں سے مقابلہ کرنا آسان رہتا۔

اکابرین کا جو خوف تھا کہ علماء انگریزی زبان وادب سیکھ کر انگریزی تہذیب سے متاثر ہوجائیں گے اس خوف کو بھی مرکز کے فضلاء نے دور کردیا تقریباً پانچ سے چھ سو فضلاء اس سیمینار میں شریک تھے اور سبھی اسلامی لباس وحلیے میں موجود تھے۔ انتہائی پرنور چہرے کے سا تھ ، قوم کے تئیں متفکراور اشاعت دین کا جذبہ لیے ہوئے حالات کا مقابلہ کرنے کےلیے تیار تھے۔ اور ان شاء اللہ جس طرح سے مرکزالمعارف کے فضلاء کی تربیت کی گئی ہے آئندہ بھی یہاں کے فضلاء اپنی شناخت کو قائم رکھیں گے۔ اس چیز کا برملا اظہار کرتے ہوئے مرکز کے بانی ڈائریکٹر جناب عمر گوتم صاحب نے کہا تھا کہ ’’ہماری شخصیت ہی ہماری شناخت ہے اور ہماری شناخت ہی ہماری شخصیت ہے ‘‘ اور ہم اس پر کاربند رہیں گے۔ یہ مرکز المعارف کے مقبول ہونے اور اس تحریک کے کامیاب ہونے کی دلیل ہے کہ مدارس اسلامیہ میں مرکز کے بعد اکثر وبیشتر مدارس میں انگریزی زبان وادب کا شعبہ قائم ہے۔ مرکز المعارف سے ملحقہ اور اس کی فکر سے متاثر اداروں کی تعداد تقریباً ۱۴؍تک پہنچ چکی ہے۔ اس تعداد پر ادارہ کے روح رواں ملول خاطر تھے ان کا خواب تھا کہ جب جشن سیمیں منایا جارہا ہے تو ادارے کی تعداد تقریباً پچیس ہونی چاہئے تھی ، انہوں نے اپنے ماتحتوں کو زور دیا کہ ہمیں اس سمت میں سوچنے کی ضرورت ہے اور مرکز کو وسعت دینا وقت کا تقاضہ ہے۔ جس طرح سے مولانا بدرالدین اجمل قاسمی ادارے کو لے کر فکر مندہیں اور مسلسل اس کوشش میں ہیں کہ قوم کے وہ نونہال جو انگریزی زبان وادب کو سیکھ کر اشاعت دین کا فریضہ انجام دیناچاہتے ہیں وہ ہم سے جڑیں ان شاء اللہ ہر ممکن رہنمائی ومدد کی جائے گی۔ اس سے آگے بڑھ کر انہوں نے اس جشن سیمیں کے موقع پر اپنے ایک خواب کا تذکرہ بھی کیا کہ میں چاہتا ہوں کہ علماء برادری میں وکلاء بھی پیدا ہوں؛ تاکہ عدالتوں میں قوم کی بہتر نمائندگی کرسکیں، اس کےلیے انہوں نے علماء برادری سے اپیل بھی کہ کہ وہ لوگ جو میرے اس مشن میں ساتھ دینا چاہتے ہیں میں ہمیشہ تن من دھن سے اس کے ساتھ رہوں گا۔ امید ہے کہ مولانا کا یہ خواب بھی پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔

Comments are closed.