حسن اخلاق، خدمت خلق اور پڑوسیوں کے حقوق کی ادائیگی بھی کسی کے اسلام قبول کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے!

غفران ساجد قاسمی
چیف ایڈیٹر بصیرت آن لائن
عموماً یہ سمجھاجاتا ہے کہ باضابطہ دعوت و تبلیغ اور تقریر و تحریر ہی اسلام کی اشاعت اور اسلام قبول کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے؛ لیکن ایسا نہیں ہے؛ بلکہ اسلام کے دنیا میں پھیلنے کے بہت سے اسباب و ذرائع میں سے حسن اخلاق، خدمت خلق اور پڑوسیوں کے حقوق کی ادائیگی بھی اسلام کی اشاعت کا اہم اور مؤثر ذریعہ ہے، اسلام کی پوری تاریخ ان سنہرے واقعات سے بھری پڑی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح پوری دنیا میں صحابہ کرام، تابعین عظام کے اعلی اخلاق و کردار سے متاثر ہو کر پورا کا پورا کنبہ، قبیلہ اور علاقہ اسلام کی آغوش میں آگیا، جو لوگ یہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ اسلام تلوار کے ذریعے پھیلا وہ درحقیقت اسلام کی روشن تاریخ کو جان بوجھ کر مسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور دنیا کو اسلام سے دور کرنے کی ناپاک کوشش کرتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جتنا دنیا کو اسلام سے دور کیا گیا ہے حقیقت پسند اور منصف لوگ اتنا زیادہ اسلام سے قریب ہوئے اور انہوں نے اسلام کی حقانیت کو قبول کرکے حلقہ بگوش اسلام ہوگئے.
آج اس وقت میرا یقین اس بات پر پختہ ہوگیا جب مجھے یہ پتہ چلا کہ آج بھی مسلمان اگر صحیح اسلامی تعلیمات کی روشنی میں برادران وطن کے ساتھ اچھا سلوک روا رکھیں تو یہ عین ممکن ہے کہ درختوں اور پتھروں کو پوجنے والی یہ قوم مسلمانوں سے قریب ہو اور ان پر اعتماد کرے اور وہ دن دور نہیں جب یہ خاندان کے خاندان حلقہ بگوش اسلام ہوجائے
جی ہاں یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ کسی بھی انسان کو متاثر کرنے کے لئے اس کا دل جیتنے کے لئے آپ کا حسن اخلاق، آپ کا اعلی کردار اور آپ کی بے لوث خدمت کافی ہے…
آج میں آپ حضرات کے لیے ایک ایسے ہی سچے اور حقیقی واقعہ کی تصویر کشی کرنے جارہا ہوں جس سے یہی پتہ چلتا ہے کہ ان کی زندگی میں آنے والا انقلاب صرف ایک مسلمان دوست کا حسن اخلاق اور بحیثیت پڑوسی اس کی بےلوث خدمت تھی، جی ہاں! آپ حضرات ایک ایسے نام سے ضرور واقف ہوں گے جو دعوت دین کے میدان میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے، جو پہلے ایک کٹر ہندو مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے؛ لیکن صرف ایک مسلمان دوست کے حسن اخلاق سے متاثر ہو کر وہ اپنی خاندانی دولت، عزت اور تمام رشتوں ناطوں کو توڑ کر اسلام کے سائے میں آگئے، اس عظیم شخصیت کا نام جناب محمد عمر گوتم ہے، جی ہاں! یہ وہی عمرگوتم ہیں جن کی پیدائش فتحپور سیکری کے ایک بڑے ٹھاکر گھرانے میں ہوئی تھی، یہ زمیندار گھرانہ تھا، نینی تال کے ایک کالج میں بی ایس سی ایگریکلچر کے طالب علم تھے، اور بہت ہی ہنسی خوشی اپنی طالب علمانہ زندگی گذار رہے تھے، کسی چیز کی کوئی کمی نہیں تھی، شاہانہ اور ٹھاٹ باٹ کی زندگی گذارنے کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ سب ان کے پاس بدرجہء اتم موجود تھی؛ لیکن آخر وہ کون سی وجہ ہوئی یا وہ کون سا ایسا واقعہ پیش آیا جس نے انہیں اسلام کی جانب متوجہ کیا، اور اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اسلام قبول کرنے پر آمادہ کیا؟
یہ سوالات اور اس طرح کے بہت سارے سوالات میرے ذہن میں کافی دنوں سے تھے، جس کے جواب کا مجھے انتظار تھا، ہمیشہ سوچتا تھا کہ جب گوتم سر سے ملاقات ہوگی تو اس موضوع پر ضرور بات کروں گا؛ لیکن اتفاق ایسا ہوتا تھا کہ ملاقات تو اکثروبیشتر ہوجایا کرتی تھی؛ لیکن بہت مختصر، عجیب اتفاق کہ رفیق محترم مولانا رضوان احمد قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کے موقع سے جب گوتم سر ممبئی تشریف لائے تو مرحوم کے اہل خانہ سے تعزیت کے لیے گوونڈی آنا ہوا اور پھر گوونڈی سے کرافورڈ مارکیٹ واپسی پر خوش قسمتی سے مجھے ان کے ساتھ جانے کا موقع مل گیا اور اس دوران بہت ساری باتیں ہوئیں، ان میں سے ایک بات قبول اسلام سے متعلق ہوئی اور میرا سوال یہی تھا کہ سر آخر وہ کیا حالات پیش آئے جس سے متاثر ہو کر آپ نے اسلام قبول کیا تو جب سرنے جواب دیا تو واقعتاً وہ جواب حیرت انگیز بھی تھا اور قابل عبرت بھی…
جب میں نے جناب عمر گوتم صاحب سے یہ سوال کیا کہ سر آخر وہ کیا واقعات پیش آئے جس نے آپ کو ایسا متاثر کیا کہ آپ نے اسلام کا دامن تھام لیا اور ہمیشہ ہمیش کے لیے اسلام کے ہو کر رہ گئے؟
سر نے جو جواب دیا وہ ہر مسلمان کے لیے ایک سبق ہے اور اگر ہر مسلمان اسلام کی ان اخلاقی تعلیمات پر عمل کرنا شروع کردے تو صرف اپنے عمل سے وہ اسلام کا بہترین سپاہی اور خاموش داعی بن سکتا ہے اور ان داعیان اسلام سے کہیں زیادہ مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں جو لمبی لمبی تقریریں اور اسلام کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے ٹھوس دلائل پیش کرتے رہتے ہیں، بہرحال سر نے جو اپنا قبول اسلام کا واقعہ بتایا وہ کچھ اس طرح ہے کہ جب یہ نینی تال کے ایگریکلچر کالج میں زیر تعلیم تھے تو انہی دنوں اسکوٹر چلاتے ہوئے ایک ایکسیڈنٹ ہوگیا جس میں پاؤں میں چوٹ لگ گئی، یہ چوٹ ایسی لگی کہ زخم بن گیا اور چلنا پھرنا دشوار ہوگیا، کالج ہاسٹل سے ہسپتال دورتھا، روز ڈریسنگ کے لیے جانا پڑتا تھا جو کہ بہت دشوار گزار مرحلہ تھا، لاٹھی لے کر چلنا پڑتا تھا، میرے ایک کلاس میٹ تھے ناصرخان، یہ بجنور کے رہنے والے تھے، جب انہوں نے مجھے پریشان دیکھا تو انہوں نے مجھے اپنی سائیکل پر بٹھایا اور ہسپتال لے گئے، اس کے بعد یہ روز کا سلسلہ چل پڑا، روز وہ مجھے اپنی سائیکل پر بٹھاتے اور ہسپتال لے جاتے اور پھر میری ڈریسنگ کراکر مجھے اپنے کمرے چھوڑ جاتے، یہ سلسلہ تقریبا 6 مہینے تک چلتا رہا، میں ان کے اس عمل سے بہت متاثر بھی تھا اور متعجب بھی؛ کیوں کہ میں جس خاندان سے تعلق رکھتا تھا وہاں ہمیں مسلمانوں کی شبیہ بگاڑ کر بتائی گئی تھی کہ یہ بہت غلط لوگ ہوتے ہیں، ان کا دھرم ہم ہندوؤں سے دشمنی سکھاتا ہے وغیرہ وغیرہ، اس طرح سے ہمارے دلوں میں بچپن سے ہی مسلمانوں کے تئیں نفرت بٹھادی جاتی تھی؛ لیکن یہاں معاملہ بالکل برعکس تھا، اچھا ایک بات کی وضاحت کرتا چلوں، گوتم سرنے بیچ میں اپنی بات روک کر کہا کہ اس پورے وقفے کے دوران کبھی بھی ناصر خان صاحب نے مجھے اسلام کی دعوت نہیں دی اور نہ ہی اپنے کسی عمل سے مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں اسلام قبول کرلوں؛ لیکن انہوں نے اپنے حسن اخلاق اور خدمت کے ذریعے مجھے اپنا گرویدہ بنالیا تھا اور اب میں خود ان کے دروازے پر کھڑا ان سے ان کے اس عمل کی حقیقت جاننا چاہ رہا تھا؛ تاکہ یہ جان سکوں کہ جس مسلمان سے ہمیں نفرت کرنا سکھایا جاتا ہے آخر اسی مسلمان نے میری اتنی بے لوث خدمت اتنے دنوں تک کیوں انجام دی، میں اس سوال کا جواب جاننے کے لیے بے چین تھا، پریشان تھا کہ آخر وہ کیا وجہ تھی جس کی وجہ سے انہوں نے میری یہ خدمت کی جب کہ میری کلاس میں صرف چار یا پانچ مسلمان تھے اور بڑی تعداد ہندو طلبہ کی تھی؛ لیکن ان میں سے کسی نے میرا ساتھ نہیں دیا اگر ساتھ دیا تو وہ صرف ایک مسلمان تھا، بہرحال میں نے آخر ناصر خان صاحب سے پوچھ ہی لیا کہ ناصر بھائی میں تو ہندو ہوں اور آپ مسلمان، پھر بھی آپ نے اتنے لمبے عرصے تک میری تیمارداری کی، میرا اتنا خیال رکھا آخر کیوں؟ تو انہوں نے جو جواب دیا وہ میرے لیے ناقابل یقین بھی تھا اور حیرت انگیز بھی؛ کیوں کہ اس طرح کی باتیں اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب میں پائی ہی نہیں جاتیں ، انہوں نے کہا کہ میں تو ایک ساتھی اور ایک پڑوسی ہونے کے ناطے اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنا فرض نبھارہا تھا اور بس،… میں نے حیران ہو کر پوچھا کہ کیا پڑوسی کے بھی حقوق ہوتے ہیں؟ پھر اس پر انہوں نے تفصیل سے بتایا کہ اسلام میں ہر ایک کے حقوق ہیں، اللہ کے یہ حقوق ہیں، بندوں کے یہ حقوق ہیں، ماں باپ بھائی بہن کے یہ حقوق ہیں، بیوی، اولاد اور رشتہ داروں کے یہ حقوق ہیں اور پھر انہوں نے پڑوسی کے حقوق پر بھی روشنی ڈالی، یہ باتیں سن رہا تھا تو مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ ناصر بھائی کی ہربات میرے دل میں اثر کرتی جارہی ہے؛ کیوں کہ ہندو دھرم میں تو ماں باپ کے بھی حقوق کی وضاحت نہیں ہے چہ جائے کہ پڑوسی کے حقوق بیان کئے جائیں.
بہرحال یہ ایسا واقعہ تھا جس نے مجھے مجبور کردیا کہ اب بلا کسی تاخیر کے اسلام قبول کرلوں، لہذا میں نے ناصر خان صاحب سے کہا کہ میں اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں تو انہوں نے کہا کہ نہیں ابھی نہیں… پہلے آپ مزید اسلام کا مطالعہ کریں، خوب گہرائی سے پڑھیں اور پھر جب دل مطمئن ہوجائے تب کوئی فیصلہ لیں، خیر اس کے بعد میرا معمول بن گیا کہ میں ناصر بھائی کے پاس بیٹھتا وہ مجھے اسلامی تعلیمات سے واقف کراتے، پھر اس کے بعد انہوں نے مجھے کتابیں لاکر دینی شروع کیں، جن کا میں نے دلچسپی سے مطالعہ کرنا شروع کردیا اور کچھ ہی دنوں بعد باضابطہ اسلام قبول کرلیا اور پھر پابندی سے مسجد جانا شروع کردیا.
جناب عمر گوتم صاحب کے قبول اسلام کی یہ اہم وجہ تھی جس کی وجہ سے وہ اسلام کے قریب آئے اور ہمیشہ کے لیے اسلام کے ہو کر رہ گئے، ان کی داستان یہیں ختم نہیں ہوتی ہے؛ بلکہ اس کے بعد مصیبتوں اور آزمائشوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا ہے؛ لیکن آپ نے ان آزمائشوں اور مصیبتوں کے دور میں جس ثابت قدمی اور اولوالعزمی کا مظاہرہ کیا کہ بڑی سے بڑی دھمکی اور بڑی سے بڑی لالچ بھی آپ کو راہ راست سے بھٹکانے میں کامیاب نہیں ہوسکی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ آپ کو اللہ نے وہ مقام بلند عطا کیا کہ آپ رفیق العلماء کے عظیم خطاب سے نوازے گئے.
ایک مرتبہ حضرت الاستاذ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی نے اپنے خطاب میں بڑے درد بھرے انداز میں کہا تھا کہ جو قوم درختوں اور پتھروں کے سامنے اپنی جبین نیاز خم کرسکتی ہے تو اگر مسلمان لوگ اخلاق و کردار کا اعلی مظاہرہ کریں تو یہ قوم آپ کے آگے سرنگوں ہونے پر مجبور نہ ہوجائے، سچ ہے کہ اسلام تیر و تلوار سے نہیں پھیلا ہے بلکہ اسلام مسلمانوں کے اخلاق اور اعلی کردار سے پھیلا ہے.:
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دباؤ گے
آج بھی اگر مسلمان قوم حسن اخلاق، خدمت خلق اور اپنے برادران وطن کا خیال رکھنے لگے تو ان شاءاللہ وہ دن دور نہیں جب یہ منافرت کے بادل چھٹیں گے اور برادران وطن اسلام سے قریب ہوں گے اور اسلام کا بول بالا پوری دنیا میں ہوگا ان شاءاللہ…!
*( بصیرت فیچرس)*
Comments are closed.