بابری مسجد : ستر سالہ جدوجہد کا خاتمہ، فیصلے کا انتظار

مولانا حکیم محمود احمد خاں دریابادی
یاد کیجئے ۲۲ ـ ۲۳ دسمبر 1949 کو دیر رات چار سو برس پرانی بابری مسجد کے منبر پر مورتیاں رکھنے کی واردات ہوئی تھی، اس کے بعد سے جو قانونی جنگ شروع ہوئی وہ تقریبا سترسال بعد 16 اکتوبر 2019 میں اختتام کو پہونچی، ابھی نتیجہ نہیں آیاہے، کہتے ہیں کہ ایک ماہ اور لگے گا ـ
بدھ کے دن اِدھر عدالت عالیہ میں آخری شنوائی چل رہی تھی اُدھر دن بھرفروخت شدہ میڈیا الگ سے اپنی عدالتیں لگائے ہوئےتھا، جن میں کہیں راجیو دھون کے نقشہ پھاڑنے پر ہنگامہ خیز سماعت ہورہی تھی، بس چلتا تو اُنھیں شاید پھانسی پر لٹکا کر مانتے، کہیں سنی وقف بورڈ کے سرینڈر کا ذکر خوشی وشرشاری کی کیفیت میں انتہائی بلند آہنگی کے ساتھ ہورہا تھا ـ
دراصل ہم لوگوں کی یہ اجتماعی بیماری ہے کہ اگر کوئی ہم سے یہ کہے کہ کوّا تمھارا کان لے گیا تو ہم اپنا کان ٹٹولنے کے بجائے سر اُٹھا کر کوا تلاش کرنے لگتے ہیں،………. اسی لئے حقیقت جانے بغیر وقف بورڈ کے سرینڈر پر ہمارے شوشل میڈیائی متفکرین نے اشکوں کے سیلاب بہادئیے ـ حالانکہ بالکل سامنے کی بات ہے کہ وقف بورڈ کے وکلاء عدالت میں مسجد کے حصول کے لئےاپنی پوری طاقت کے ساتھ بحث کر رہے ہیں ، اگر وقف بورڈ کو سرینڈر کرنا ہوتا تو سب سے پہلے اپنے وکلا کو عدالت سے ہٹاتا، یا اپنے وکیلوں کے ذریعے براہ راست سپریم کورٹ میں سپردگی کی درخواست کرتا ـ مصالحتی کمیٹی کو یہ اختیار کس نے دیا کہ وہ کسی فریق سے سرینڈر لیٹر لے کر بند لفافے میں عدالت کے سپرد کرے وہ بھی شنوائی کے بالکل آخری مرحلے میں، جبکہ خود اسُ فریق کے وکلا عدالت میں موجود ہیں اور اپنی مسجد کا قبضہ مانگ رہے ہیں ـ غالبا اسی لئے عدالت عالیہ نے اُس مہر بند لفافے پر کوئی توجہ نہیں دی ـ
اچھا ایک منٹ کے لئے مان لیجئے کہ سنی سینٹرل وقف بورڈ مسجد کی زمیں مخالفین کو دینے کے لئے تیار ہوگیا ہے، ساتھ ہی یہ بات بھی آئی ہے کہ وقف بورڈ نے سپردگی کے لئے پانچ یا سات ( دراصل یہ سب ہوائی باتیں ہیں، بند لفافے میں کیا ہے یہ کسی نے نہیں دیکھا) شرطیں رکھی ہیں، یہ شرطیں کیا ہیں، مخالفین ان کو قبول کریں گے یا نہیں یہ الگ سوال ہے ـ فرض کرلیجئے بلاکسی حیل حجت کے مخالفین نے قبول بھی کرلیا تو یہ بھی سمجھنا پڑے گا کہ وقف بورڈ اس مقدمے کیا تنہا مدعی ہے ؟ دوسرے کئی مدعی اور ہیں ان سب کی رضا کے بغیر سرینڈر کیسے ہو سکتا ہے ـ
اس وقت جبکہ عدالتی جنگ ختم ہوچکی ہے آئیے ہم ہچھلے ستر سالوں کا ایک سرسری جائزہ لیتے ہیں، ……… یوں تو مورتیاں رکھے جانے کے بعد ہی سے مسلمانوں کی جانب سے قانونی کارروائی شروع ہوچکی تھی، جس کے نتیجے میں مسجد کا علاقہ کورٹ رسیور کی تحویل میں چلاگیا اور وہاں تالہ لگا کر سب کے داخلے پر پابندی عائد کردی گئی تھی، ……… مگر جب 1986 میں مقامی عدالت کے حکم پر بابری مسجد کا تالہ کھلواکر پوجا کی اجازت دیدی گئی جس کی وجہ سے پورے ہندوستان کے مسلمانوں میں غم وغصہ پھیل گیا، تب مسلمان اپنے جمہوری حق کے تحت احتجاج کرنے سڑکوں پر اترے، مسلمانوں کو ان کے اس جمہوری حق سے روکا گیا، ملک کے مختلف علاقوں مسلم احتجاجیوں پر لاٹھی چارج سے لے کر فائرگ تک کی گئی، جس میں سینکڑوں مسلمان ہلاک اور زخمی ہوئے ـ دوسری طرف فرقہ پرستوں کو پوری چھوٹ دی گئی، انھوں نے بابری مسجد کی جگہ مندر بنانے کے لئے پورے ملک سے اینٹیں جمع کرنا شروع کیا، گاوں گاوں میں شیلاپوجن کے نام سے اُن اینٹوں کی پرستش ہوئی، جلوس نکلے، ان میں بھی اشتعال انگیزی ہوئی، کہیں کہیں تشدد ہوا جس میں مسلمانوں کا ہی جانی مالی نقصان ہوتارہا ـ اسی دوران حکومت کی اجازت سے وہاں مندر کا سنگ بنیاد ( شیلا نیاس) رکھا گیا ـ
آجکل روہانسی شکل بنائے ہمیشہ ہاتھ جوڑے نظر آنے والے اڈوانی اُس زمانے میں پورے فارم میں تھے، انھوں نے مندر کی تعمیر کے نام پر پورے ملک میں یاترا نکالی، وہ رتھ یاترا جہاں جہاں گزری اپنے پیچھے آگ و خون کا سمندر چھوڑتی گئی، نہ جانے کتنے بے گناہ اُس خونی یاترا کاشکار ہوئے ـ
بالاخر 1992 کا 6 دسمبر آگیا، اُس سیاہ اتوار کو اجودھیا میں اعلی ترین افسران کے ساتھ پورا پولیس فورس موجود تھا، ہائی کورٹ کے جج، انتظامیہ کے اعلی نوکر شاہ اور عالمی میڈیا کے سامنے ریاستی ومرکزی حکومتوں کی مکمل حفاظتی یقین دھانیوں کے باوجود………. وہ خانہ خدا جو پچھلی ساڑھے چار صدیوں سے سر اُٹھائے ہندوستانی باشندوں کی آپسی یکجہتی، رواداری اور انصاف پسندی کی گواہی دے رھا تھا……… اس عظیم ترین یادگار کوفسطائیوں نے پوری طرح مسمار کردیا اور پوری بے حیائی کے ساتھ اسی وقت وہاں ایک عارضی بت خانہ بنادیا جو آج تک قائم ہے ـ مسجد کی اس ظالمانہ شہادت کے بعد ظالموں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، مٹھائیاں بانٹی گئیں، خوشی کا عالم یہ تھا کہ ساری شرم وحیا کنارے رکھ کر ٹی وی کیمروں کے سامنے ایک مشہور سادھوی ایک بڑے لیڈر کے کندھے پرچڑھ گئی اور فتح کے نعرے لگانے لگی، اُس لیڈر کی تو نہ ہوچھئے اس کے لئے تو آج دھری خوشی کا دن تھا ـ
فرقہ پرستوں کی اس سب سے بڑی دھشت گردی کو ساری دنیا نے دیکھا، ہندوستان کی پولیس، مظلوموں پر گولیاں برسانے والی پی اےسی اور ہماری بہادر فوج اُن فرقہ پرستوں کا ایک بال بھی نہیں اکھاڑ سکی ـ
بابری مسجد کی شہادت کے بعد مسلمان پھر احتجاج کے لئے نکلے، پھر نہتے مسلمانوں پر فائرنگ ہوئی، فساد کے نام پر تقریبا پورے ملک میں مسلمانوں پر کریک ڈاؤن کیا گیا، ہمیں ممبئی کا وہ خونی فساد آج بھی یاد ہے جس میں ہزاروں مسلمان شہید ہوئے، مسلمانوں کی پوری پوری مارکیٹیں جلادی گئیں، اس ہولناک فساد کے بعد سے آج تک ممبئی دوبارہ عروس البلاد نہیں بن سکا ہے ـ
سوچئے ستر سالہ جدوجہد کے پیچھے کتنی قربانیاں ہیں، کتنے بچے یتیم ہوئے، کتنی بہن بیٹیاں بیوہ ہوئیں، یقینا کائنات کی سب بڑی عدالت ان شہیدوں کے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیگی، یتیموں اور بیواوں کے ہر آنسو کا بدلہ ظالموں کو چکانا پڑے گا ـ جو لوگ زخمی ہوئے، جن کا مالی نقصان ہوا مالک حقیقی اُن سب کو اپنی شایان شان بدلہ عطافرمائے گا ـ
اس موقع پر ان تمام فرزندان توحید کو یاد کرنا چاہیئے جن کا نام ہم نہیں جانتے مگر اللہ خوب جانتا ہے جنھوں نے بابری مسجد کے لئے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر جلوس نکالے، دھرنے دئیے، جلسے، سمینار، کانفرنسیں کی، قانونی اور جمہوری کارروائی کرنے والوں کا حوصلہ بڑھایا، وہ تمام لوگ بھی جنھوں نے دامے درمے قدمے سخنے تعاون کیا ـ
:
مسلم پرسنل لابورڈ، جمیعۃ علماء سمیت وہ تمام مسلم تنظیمیں، ہاشم انصاری جیسے وہ تمام حضرات جنھوں نے محدود وسائل اور دھمکیوں کی پرواہ کئے بغیر مختلف عدالتوں میں طاغوت کا مقابلہ کیا، اللہ تعالی ان سب کی کوششوں، محنتوں اور قربانیوں کو قبول فرمائے اور دونوں جہان میں شایان شان بدلہ عطافرمائے ـ
حق ادا نہ ہوگا اگر مقدمات کے سلسلے میں ہمارے وکلاء حضرات کا شکریہ نہ ادا کیا جائے، مسلم وکلا کے ساتھ ہمارے غیر مسلم وکلاء جن میں بعض تو ایسے تھے جن کی فیس چھ ہندسوں سے کم نہیں ہوتی تھی اُنھوں نے انتہائی معمولی حق المحنت اور کچھ نے بغیر کسی معاوضہ محض حق وانصاف کی سربلندی کے لئے ہمارا ساتھ دیا، خصوصا جناب راجیو دھون جھنوں نے مسلسل چالیس دن تک اپنے دوسرے تمام مقدمات کو ملتوی رکھے اور دن بھر بابری مسجد کے اس مقدمے کے لئے سپریم کورٹ میں حاضرہوتے رہے ـ اللہ ان سب کو دارین کی فلاح و صلاح سے نوازے ـ
اب عدالتی کارروائی مکمل ہوچکی ہے، جج حضرات پچھلے چالیس دن کی بحث اور پچھلے ستر سالوں کی تاریخ پر غور کرکے ایک ماہ کے اندر فیصلہ دیں گے، ………. اس دوران ہم تمام مسلمانوں کو چاہیئے کہ اللہ سے لو لگا کر حق کے فیصلے، امن و امان اور سلامتی کی دعا کرتے ہیں، صدقہ و خیرات سے بلائیں ٹلتی ہیں اس کا بھی اہتمام کریں، نہ خود افواہیں پھیلائیں نہ دوسروں کی افواہوں کا شکار ہوں، حوصلہ رکھیں، یہی قانون قدرت ہے، طاقت ہمیشہ کسی ایک پاس نہیں رہتی، تلک ایام نداولھا بین الناس، رات کتنی ہی اندھیری ہو اس کی بھی سحر ضرور ہوتی ہے ـ
رکی رکی سی شبِ مرگ ختم پر آئی
وہ پَو پھٹی وہ نئی زندگی نظر آئی
Comments are closed.