اس طبقہ نے امت کو ہمیشہ نقصان پہنچایا

مولانا محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
آں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رفقاء (صحابہ کرام) جب ہجرت فرما کر مدینہ منورہ پہنچے تو وہاں مسلمانوں کو دو اسلام مخالف طاقتوں کا سامنا کرنا پڑا، ایک تو یہودی تھےجو اسلام کے کٹر مخالف تھے اور وہ کسی طرح بھی نہیں چاہتے تھے کہ مذھب اسلام پھلے پھولے اور اس کی اشاعت و تبلیغ ہو ۔ یہود کی اسلام دشمنی تو آج بھی جگ ظاہر ہے قرآن مجید نے چودہ سو سال پہلے ہی اس کی طرف اشارہ کر دیا تھا کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ان کو سب سے سخت پاو گے۔ یہودیوں کی مسلمانوں سے مخالفت اعلانیہ تھی ۔ دوسرے منافقین تھے جو آستین کے سانپ اور بغلی دشمن تھے ،عبد اللہ بن ابی بن سلول ان کا سردار تھا ۔ جس کو قبلئہ انصار اوس اور خزرج میں بڑا مقام اور رتبہ حاصل تھا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے اہل مدینہ اس کو اپنا بادشاہ بنانا چاہتے تھے اور اس کی تاج پوشی کی پوری تیاری کر چکے تھے ۔ لیکن ہجرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس کا یہ خواب پورا نہ ہوسکا اور پوری زندگی یہ حسرت اور ارمان لئے بیٹھا رہا ۔ عبد اللہ بن ابی کے سینہ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف آتش غضب سلگتی رہی اور جب جب موقع ملتا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف فتنہ و فساد کھڑا کرتا رہا ۔ اس منافق کے مکرو فریب کا یہ عالم تھا کہ یہ اپنے اظہار اسلام کے بعد ہر جمعہ کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لئے تشریف لاتے تو پہلے خود کھڑا ہو جاتا اور کہتا :لوگو ! یہ تمہارے درمیان اللہ کے رسول ہیں ۔ ان کے ذریعہ اللہ تعالی نے تمہیں عزت و احترام بخشا ہے لہٰذا ان کی مدد کرو ،انہیں قوت پہنچاو اور ان کی بات سنو اور مانو۔ اس کے بعد بیٹھ جاتا اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر خطبہ دیتے ۔ جنگ احد میں منافقت اور غداری کے بعد جب پہلے جمعہ کو پھر ڈھٹائی اور بے حیائ کے ساتھ تقریر کے لئے کھڑا ہوا تو صحابہ نے ہر طرف سے اس کو دبوچہ اور کپڑے پکڑ کر اس کو کھینچا اور کہا کہ اللہ کے دشمن بیٹھ جا ۔ تو نے جو حرکتیں کی ہیں اس کے بعد تو اس لائق نہیں رہ گیا ہے ۔ اس پر وہ لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا اور یہ بڑبڑتا ہوا باہر نکل گیا کہ میں ان صاحب (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کی تائید کے لئے اٹھا تو معلوم ہوتا ہے کہ میں نے کوئ مجرمانہ بات کہہ دی ۔ اتفاق سے دروازے پر ایک انصاری سے ملاقات ہوگئ ۔ انہوں نے کہا ،تیری بربادی ہو واپس چل ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیرے لیے دعائے مغفرت کر دیں گے ۔ اس نے کہا کہ خدا کی قسم میں نہیں چاہتا کہ وہ میرے لئے دعاء مغفرت کریں ( سیرت ابن ہشام ۲/ ۱۰۵)
علاوہ ازیں اس سردار منافق نے بنو نظیر سے بھی رابطہ کر رکھا تھا اور ان سے ملکر مسلمانوں کے خلاف در پردہ سازشیں کیا کرتا تھا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ بنی المصطلق سے فارغ ہو کر ابھی چشمئہ مرسیع پر قیام فرما ہی تھے کے کچھ لوگ پانی لینے گئے۔ ان ہی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک مزدور بھی تھا جس کا نام جہجاء غفاری تھا ۔ چشمہ پر ایک اور شخص سنان بن وبر جہنی سے اس کی دھکم دھکا ہوگئ اور دونوں لڑ پڑے پھر جھنی نے پکارا : یا معشر الانصار !( انصار کے لوگو ! مدد کو پہنچو) اور جہجاء نے آواز دی یا معشر المہاجرین !( مہاجرین مدد کو آو !)
اور یہ معمولی سا جھگڑا دو شخص کا نہ رہا بلکہ دو جماعتوں انصار و مہاجرین کا اختلاف بن گیا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خبر پاتے ہی وہاں تشریف لے گئے اور فرمایا : میں تمہارے اندر موجود ہوں اور جاہلیت کی پکار پکاری جا رہی ہے ؟ اسے چھوڑ دو یہ بدبو دار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کی فہمائش کی اور بظاہر ایسا محسوس ہوا کہ معاملہ رفع دفع ہو گیا ۔ لیکن عبد اللہ بن ابی بن سلول کے سینہ میں غضب انتقام جوش مار رہا تھا اور نفرت کی انگھییٹی بھڑک اور سلگ رہی تھی وہ ایسے ہی موقع کی تلاش اور تاک میں تھا اس نے اس معمولی واقعہ کو مہاجرین اور انصار کے درمیان گروپ بندی کا ذریعہ بنانے کی کوشش کی اور قبیلئہ انصار کو طرح طرح سے عار دلانا شروع کر دیا ۔
سردار منافق عبد اللہ بن ابی ہمیشہ ایسے موقع کی تلاش میں رہتا تھا کہ کوئ ایسا واقعہ پیش آئے جس سے وہ انصار اور مہاجرین کے درمیان گروپ بندی کرسکے ، دونوں قبیلے کو باہم دست و گریباں کردے اور اسلام کے شیرازے کو بکھیر اور منتشر کر دے، اس کے لئے کوئ موقع چوکنے نہیں دیتا ، واقعہ افک (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہار گم ہونے اور ان کو متہم کرنے والا واقعہ) میں بھی عبد اللہ بن ابی سب سے پیش پیش تھا،اسلامی معاشرے میں انتشار پیدا کرنا اور اسلام کی آواز کو کمزور کرنے کی مسلسل تدبیر کرنا اس کی زندگی کا نصب العین تھا ۔ اس نے غزوہ احد میں بھی شر ،بد عہدی مسلمانوں میں تفریق اور ان کی صفوں میں بے چینی و انتشار اور کھلبلی پیدا کرنے کی بھر پور کوششیں کی تھیں، جنگ خدق کے موقع پر مسلمان مجاہدین کو مرعوب و دہشت زدہ کرنے کے لئے طرح طرح کے جتن کئے تھے جس کا ذکر سورہ احزاب کی ۳۰تا ۳۳ تک کی آیتوں میں موجود ہے ۔
غزوہ بنی المصطلق سے فراغت کے بعد چشمئہ مرسیع پر جو واقعہ پیش آیا اس موقع پر بھی ابن ابی نے مہاجرین و انصار کے درمیان گروپ بندی کا ذریعہ بنانے کی کوشش کی اور انصار کو عار دلائ کہ یہ نوبت اس لئے آئ کہ تم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور مکہ سے آنے والے ان کے ساتھیوں کی مدد کی ،مہاجرین کے ساتھ ہماری مثال عربی زبان کے اس محاورہ کی ہے کہ اپنے کتے کو کھلا پلا کر موٹا کرو ،تاکہ وہ تمہیں کو کھا جائے ۔ *سمن کلبک یاکلک*
پھر یہ بھی کہا کہ اب مدینہ پہنچ کر جو عزت دار لوگ ہیں وہ ذلیل لوگوں کو نکال باہر کریں ۔
عبد اللہ بن ابی نے یہ بات چند انصار کے درمیان کہی،ایک کم سن اور کم عمر انصاری صحابی حضرت زید بن خالد جھنی رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے سر کے کانوں سے یہ بات سنی اور جذبئہ ایمان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح صورت حال عرض کر دی،حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر جوش حق کا غلبہ تھا اور باطل کو وہ ایک آنکھ پسند نہیں کرتے اور نہ باطل و ناحق کو برداشت کر پاتے تھے ،انہوں نے آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ اس منافق شخص کا سر قلم کرنے کی اجازت مرحمت فرمائیں، *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* نے منع فرمایا، اور ارشاد فرمایا کہ اگر ایسا کیا گیا تو لوگ خیال کریں گے کہ اب محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے ساتھیوں کو بھی قتل کرا رہے ہیں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے براہ راست عبد اللہ بن ابی سے اس واقعہ کی تحقیق کی ،اس نے انکار کیا کہ میں نے ایسی بات نہیں کہی، انصار میں سے بعض بڑے اور سربرآوردہ حضرات نے بھی اپنی ناواقفیت کی وجہ سے عبد اللہ بن ابی کی تصدیق کی اور کہا کہ زید بن خالد بچے ہیں، ان کی بات کا کیا اعتبار ہے؟ مگر وحی الٰہی سے حضرت زید کی تصدیق ہوئ ،بہر حال اس ناخوشگوار واقعہ کا چرچا پورے قافلہ میں رہا اور یہی موضوع سخن بن گیا ،بعض بھولے بھالے مسلمانوں کا ذھن بھی ایک حد تک متاثر ہوا ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نازک اور حساس موقع پر ایک خاص تدبیر اور حکمت عملی کو اپنایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موضوع پر کچھ زیادہ گفتگو نہیں فرمائی اور قافلہ کو کوچ کرنے کا حکم فرمایا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول یہ تھا کہ صبح میں سفر شروع کرتے تو شام میں کہیں پڑاو کرتے اور شام میں سفر کا آغاز فرماتے تو صبح کے قریب کہیں منزل فرماتے یعنی آرام کے لئے خود رکتے اور صحابہ کرام کو روکتے ،لیکن خلاف معمول آپ صلی اللہ علیہ وسلم پورے دن اور پھر اس رات مسلسل چلتے رہے اور اگلے دن دوپہر کے وقت ایک جگہ خیمہ زن ہوئے ،چلچلاتی دھوپ ،گرم ریت ،بھوک و پیاس اور مسلسل سفر نے لوگوں کو تھکا کر رکھ دیا جلد ہی محو خواب ہو گئے اور جو وقتی ناخوشگواری پیدا ہوگئ تھی ،اس کا اثر بھی جاتا رہا اور اصل یہی مصلحت اور حکمت تھی جس کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سفر کو غیر معمولی طول دیا تاکہ لوگ اس تلخی کو بھول جائیں ۔
پھر ایک وقت وہ آیا کہ بچہ بچہ اس کے نفاق سے واقف ہوگیا ۔ حضرات انصار کے سامنے بھی ابن ابی کی حقیقت اور پوزیشن واضح ہوگئ ۔ اور خود اس کے صاحبزادے جن کا نام بھی عبد اللہ تھا اور جو سچے اور مخلص مسلمان تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ معلوم ہوا ہے کہ آپ میرے والد کو قتل کرانے والے ہیں اور واقعتا وہ اپنے نفاق کی وجہ سے اسی لائق ہیں، مجھے اپنے والد سے بڑی محبت ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ شاید میں ان کے قاتل کو نہ دیکھ سکوں! اگر واقعی ایسا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے حکم فرمائیں کہ میں خود اپنے والد کا سر قلم کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ،اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بلا کر صورت حال بتائ کہ اگر میں نے اس وقت قتل کا حکم دیا ہوتا تو بہت سے لوگ بدگمان ہو سکتے تھے ۔ اور آج صورت حال یہ ہے کہ خود یہ لوگ اس کے نفاق اور در پردہ عداوت سے پوری طرح واقف ہو چکے ہیں، اور خود ان کا لڑکا اس کے قتل کے لئے تیار ہے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس دور اندیشی اور معاملہ فہمی سے بہت متاثر ہوئے اور بے ساختہ کہنے لگے کہ اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے میں برکت رکھی ہے ۔ بارک اللہ فی رائ رسولہ۔
(مستفاد الرحیق المختوم / تعمیر حیات ۱۰ جون ۲۰۱۸ء)
مذکورہ واقعہ ایک مثال ہے حسن تدبیر اور جذبات پر عقل و فراست کو غالب رکھنے کی ! اس واقعہ سے یہ پیغام ملتا ہے کہ ملی اور تنظیمی کام کرنے والوں کو بہت زیادہ صبر و ضبط اور تحمل و برداشت سے کام لینا چاہئے، اور اشتعال اور عجلت پسندی کے مقابلے میں صبر و حلم سے کام لینا چاہئے ، جذبات سے مغلوب کر عجلت میں کسی کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں لینا چاہیے ۔
مسلمانوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرز عمل اور اسوہ سے یہ سبق لینا چاہئے کہ جب وہ مشکل اور ناگفتہ بہ حالات سے گزر رہے ہوں تو اس وقت سماجی اور ملی فضا نیز ماحول کو معتدل رکھنے کی کوشش کریں ۔ جذبات میں آکر عقل و خرد کا سودا نہ کرلیں ۔ بلکہ جذبات و اشتعال پر فہم و فراست اور شعور و آگہی کو ،تمناؤں اور خواہشوں پر حقیقت پسندی کو ،بے صبری و عجلت پسندی اور غیظ و غضب پر صبر اور خوش تدبیری کو ترجیح دیں ۔ ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھائیں،فریق مخالف اور اسلام دشمن طاقتوں کی کی خواہش اور ان کے منشاء کو سمجھیں ،اپنے رہبر اور رہنما پر اعتماد اور بھروسہ کریں ،ان کی رہنمائیوں اور حکموں کو اپنے لئے گائڈ لائن سمجھیں اور خدا کے لئے ان سے بدگمان نہ ہوں ۔ اور اس حقیقت کو بھی ذھن میں رکھیں کہ اس طرح کے مسائل اور نازک حالات آتے رہیں گے ۔ اس سے گھبرانے اور شکتہ خاطر ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ حالات تو امتحان و آزمائش کے لیے آتے ہیں ۔
Comments are closed.