کشمیر پر مضحکہ خیز سیاست___!!!

محمد صابرحسین ندوی

[email protected]
7987972043

کشمیر سے دفعہ ۳۷۰ء ہٹائے جانے کے بعد وہ دلسوز اور جاں سوز مظالم بدیہہ حقیقت بن کر سامنے آرہے ہیں؛ کہ ہزارہا ملمع سازیوں کے باوجود اور حکومت کے اعلی سیاست دانوں کی یقین دہانی بھرے بیانات کے باوجود؛ نیز سارے مواصلاتی نظام ٹھپ کرنے اور ہر سوشل ایکٹیویسٹوں پر پابندیاں لگانے کے بعد بھی ہر حد اور سرحد کو پھلانگ کر دنیا کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہیں، قومی رپورٹرس اور ذرائع ابلاغ کو چھوڑئیے، انہوں نے تو حکومت کا پٹہ گلے میں ڈال لیا ہے، انہیں خون بھی صرف سرخ رنگ دکھتا ہے؛ لیکن عالمی نیوز ایجنسیاں ایسی نہیں ہیں، بی بی سی اور الجزیرہ نے بہت سی ویڈیوز جاری کی ہیں؛ جن سے روح کانپ جاتی ہے، اور تاریخ انسانیت کا عظیم سانحہ سامنے آتا ہے، یہی وجہ ہے کہ لوگ عالمی سطح پر ان کا درد محسوس کر رہے ہیں، اپنے کسی نہ کسی پلیٹ فارم پر درد کا احساس بھی دلوا رہے ہیں؛ ملک کی بھی حق پسند جامعتیں نوٹس لے رہی ہیں، البتہ آباء و اجداد کے کفن پر اپنا تقدس جمانے والوں کو چھوڑئیے! حالانکہ انہیں کی جماعت کے دوسرے دھڑے کو معاملہ میں سنگینی نظر آتی ہے، وہ حکومت کو ٹوکتے ہیں، اور کشمیر کے سلسلہ میں ناروا سلوک کرنے کا الزام رکھتے ہیں، اور وہ یہ دیکھ رہے ہیں؛ کہ کس طرح ایک صوبے کو جیل خانہ بنا دیا گیا یے، پوری نسل کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ستر سے اسی لاکھ لوگوں پر نو لاکھ فوجی بٹھادئے گئے ہیں، جہاں عام آبادی نظر آئے یا نہ آئے خاکی رنگ ضرور نظر آجائے گا، بچوں کے کھلونے دکھے یا نہ دکھیں؛ لیکن ہتھیار کی نکیلیں اور جارحیت نظر آجائے گی۔
اوہ!!! یہ جبہ دستار اور یہ مصلحت کے ملا____!! کبھی ان کا وجود باعث رحمت تھا، اپنی کم مائیگی اور موٹے جھوٹے لباس میں دنیا کی سامراجیت کو اکھاڑ پھینکنے کی طاقت رکھتے تھے، ان کی سیاسی بصیرت اور سیرت و کردار کی خوشبو کے سامنے مشک بھی ماند تھا؛ لیکن آج کے یہ ملا___ !! جن کے بارے میں لگتا ہے کہ علامہ اقبال نے درست فرمایا تھا: "یہ دو رکعت کے امام کیا جانیں قوموں کی قیادت کیا ہے”، ان کی سیادت کیا ہے، آج اس کا مطلب آئینہ سے زیادہ صاف نظر آتا ہے، بوسیدگی اور قدامت کے لباس میں جکڑے ہوئے، مذہبی کتاب پر اکتفا کر کے بیٹھ جانے والے اور منطقی مباحث میں فتح حاصل کر نے والے جدید ٹیکنالوجی اور بدلتی دنیا کی عظیم کروٹ کی قیادت کیسے کرسکتے ہیں؟ جنہیں سانحہ سمجھ نہ آتا ہو، جو سیاسی چال کو ہنر سمجھتے ہوں، جو دو بالشت پیٹ کی سیاست کرتے ہوں، اپنے آباء و اجداد کی پھٹی پرانی چادر کی بولیوں پر گزارا کرتے ہوں، عہدوں اور مناصب کیلئے جی جان لگا دیتے ہوں، وہ کیسے امت کی رہنمائی کرسکتے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ اپنے کارناموں کو یاد کرنے کے بجائے اسلاف کی بچی آگ پر اپنی روٹی سینکے والے کیسے دنیا کو نئی راہ دکھائیں گے؟ _____ نہ جانے سینہ میں کس پتھر کا دل لگا ہوا ہے؟ ایسے لوگ کونسا چشمہ لگاتے ہیں؟ کونسی نگاہ خدا نے انہیں عطا کی ہے؟ کس منہ سے خدا کا نام لیتے ہیں اور پھر طاغوت کی حمد و ثنا کرتے ہیں؟
جو نگاہیں ظلم کو ظلم بھی نہیں دیکھ پاتیں، جنہیں لٹی پٹی انسانیت نہیں دکھائی دیتی، زبانیں تو پہلے ہی گنگ تھیں؛ لیکن کھلی تو فرعونیت کو شہ دینے کیلئے، ان کی تائید کرنے اور اپنی سیاست چمکانے کیلئے، وہ مصلحت اب کیوں یاد آتی ہے؟ اب کیوں رواداری کی باتیں ہوتی ہیں؟ پھر کوئی بتائے کہ ہم نے ستر سالوں تک کیا کیا؟ زخم پر زخم لگتے گئے اور زخم سلنے کے بجائے معمولی مرہم لگا کر آرام پہونچاتے رہے، اب جب آپریشن کی نوبت آگئی ہے تو چیخ رہے ہیں، بغلیں بجا رہے ہیں، منطقی دلیلیں دے رہے ہیں، نرم لہجے میں کشمیر کا خون چھپا رہے ہیں، مظلوموں کی آہ کچل رہے ہیں، ذرا خود کو کبھی چوبس گھنٹوں کیلئے بغیر بند کر لیجئے، سارے کمیونیکیشن سے الگ ہوجائیے، اور پھر دیکھیے! کیا درد ہوتا ہے؟ بیسویں صدی میں رہ کر ڈارک ایجز کی طرح گزر بسر کرنا کیا ہوتا ہے؟ اور اپنوں کے درمیان رہ کر بھی اپنوں تک نہ پہونچ پانا کیسا ہوتا ہے؟ کہتے ہیں درد کا احساس تب ہی ہوتا ہے جب خود کے زخم بھی ہرے ہوں؛ لیکن صرف لفظ درد کو پڑھ پڑھ کر درد کا احساس کیا جائے تو یہ لاحاصل ہے۔

14/10/2019

Comments are closed.