جمہوریت یا فرقہ واریت؟ کل ووٹ دے کر آپ کسے مضبوط کریں گے فیصلہ آپ کو کرنا ہے!

 

شکیل رشید (ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز/ سرپرست ایڈیٹر بصیرت آن لائن)

جمہوریت یافرقہ واریت؟؟

آئندہ کے پانچ برسوں میں ریاست مہاراشٹر میں جو کچھ بھی ’ہونا‘ ہے اس کے انتخاب کی گھڑی آپہنچی ہے ۔ فیصلہ آپ کو کرنا ہے اور کل کرنا ہے ۔ اپنی انگلی پر سیاہی کا نشان لگوا کر اور ای وی ایم کا بٹن دبا کر ۔ ووٹ دینا آپ کا حق ہے، اس حق کا استعمال کرکے آپ اپنے حال اور مستقبل کی بہتری کا فیصلہ کرتے ہیں ۔ آپ اس نمائندے کو ایوان میں بھیجتے ہیں جو آپ کے خیال میں پوری ریاست ، پورے سماج بلکہ پورے ملک کے لئے بہتر ہوتا ہے ۔ اور پھرآئندہ کے پانچ برسوں تک آپ اپنے بھیجے ہوئے نمائندے کی کارکردگیوں اور سرگرمیوں سے متاثر ہوتے ہیں ۔ اگر آپ نے بغیر سوچے سمجھے کسی کو بھی ووٹ دے دیا ہے ، یا ووٹ دینے کی بجائے گھر بیٹھے رہ گئے ہیں، یا اپنے ووٹ کو کسی ایسے امیدوار پر ضائع کردیا ہے جو میدان میں اتراہی ووٹ ضائع کرانے کے لئے تھا تو آئندہ کے پانچ برسوں تک آپ کو نتائج بھگتنا ہوتے ہیں ۔ اور اس بار بھی اگر آپ نے ایسا ہی کیا تو نتائج بھگتنا ہونگے لہٰذا کل سُستی نہ دکھائیں ، اٹھیں ، وقت پر پولنگ بوتھ پہنچیں اور کسی ایسے امیدوار کو اپنا ووٹ دیں جو نہ ووٹ کاٹنے کے لئے کھڑا ہوا ہو ، نہ لوگوں کے ووٹوں کو برباد کرنے کے لئے اور نہ ہی دنیا کے اس سب سے بڑے جمہوری ملک میں جمہوریت اور سیکولرزم کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کے لئے ،بلکہ جو اس لئے میدان میں ہو کہ ملک ’ فرقہ واریت‘ کی جس راہ پر چل پڑا ہے ،اس راہ پر چلنے سے اسے روک دے ۔۔۔

کل کی ووٹنگ سب کے لئے بڑی ہی اہم ہے ۔ اقلیتوں ، پچھڑوں اور جمہوریت پسندوں اور مسلمانوں کے لئے تو بہت ہی اہم ہے کہ ریاست میں ووٹ کے نتائج پر ملک بھر میں اِن دنوں ’دھرم‘ کے نام پر جو کھیل کھیلا جارہا ہے اس میں اضافے یا کمی کا ، دارومدار ہے۔ اگر مہاراشٹر ریاست میں (بشمول ہریانہ اوریوپی وغیرہ کے ضمنی انتخابات) بی جے پی کو جھٹکا لگتا ہے ، اس کی سیٹیں گھٹتی اور اس کی طاقت میں تھوڑی سی بھی کمی آتی ہے تو اس کے اثرات قومی سطح پر مرتب ہوسکتے ہیں اور بی جے پی کی مرکزی قیادت کو اپنی ’پالیسیوں‘ میں ۔۔۔ جو مسلم اور اقلیت دشمن کہی جاسکتی ہیں۔۔۔ نرمی اور تبدیلی لانے پر مجبور ہونا پڑسکتا ہے ۔

اگر ہم مہاراشٹر ، ہریانہ اور یوپی سمیت دیگر ریاستوں کے ضمنی انتخابات کے لئے بی جے پی قیادت کی انتخابی مہم پر نظر ڈالیں ، بالخصوص مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کے ’فرمودات‘ کا تجزیۂ کریں تو آسانی سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اسمبلی انتخابات میں ریاستوں کے مسائل کو موضوع گفتگو نہ بناکر سارا زور کشمیر ’آرٹیکل ۳۷۰‘ این آرسی اور گھس پیٹھیئے (یعنی مسلمان) پر صرف کیا ہے ۔ ان کا اور وزیراعظم نریندر مودی کا سارا زور اپوزیشن کو ’ کرپٹ‘ ثابت کرنے اور ’ بدعنوانوں‘ کو زنداں کے حوالے کرنے پر، رہا ہے ۔ وزیراعظم مودی نے 26/11 یعنی ممبئی حملوں کو بھی یہ کہہ کر موضوع بنادیا ہے کہ جلد ہی وہ نام سامنے لائے جائیں گے جو اس حملے کے پس پشت رہے ہیں۔ اور انہوں نے جس طرح سے یہ بات کہی اس سے عام طور پر یہ سمجھا جارہا ہے کہ ان کا اشارہ سابقہ سرکاروں کی جانب اور حزبِ اختلاف کے قائدین کی جانب تھا۔۔۔ ویسے بھی ان دنوں این سی پی کے ایک بڑے قائد پر فل پٹیل انفورسمینٹ ڈائریکٹوریٹ ( ای ڈی) کے نشانے پر ہیں ، ان کا نام اقبال مرچی کے ساتھ جڑ رہا ہے ۔ اور اقبال مرچی کےبارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ مافیا ڈان ، 26/11 ممبئی حملوں کے ایک مفرور داؤد ابراہیم کا قریبی ساتھی تھا۔ اگر تجزیہ کیا جائے تو جو منظر نامہ سامنے آتا ہے وہ ہولناک ہے ۔ مودی اور شاہ کی جوڑی نے صاف لفظوں میں یہ کہہ دیا ہے کہ سارے ملک میں این آرسی کرائی جائے گی اور ’گھس پیٹھئے‘ باہر کھدیڑ دیئے جائیں گے ۔ یہ ’گھس پیٹھئے‘ کون ہیں ، اس سوال کا جواب بھی امیت شاہ نے یہ کہہ کردے دیا ہیکہ یہاں باہر سے آئے مسلمانوں کو شہریت نہیں دی جاسکتی ہاں ہندو ، سکھ ، عیسائی وغیرہ شہریت پاسکتے ہیں ۔۔۔ ایک جمہوری اور سیکولر ملک میں ’ دھرم‘ کے نام پر کھیلا جانے والا یہ ایک بے حد خطرناک کھیل ہے ۔ اس سے عام لوگوں تک دوطرح کا پیغام جاتا ہے ، اول یہ کہ مسلمانوں کے لئے اس ملک میں کوئی جگہ نہیں ہے، اور دوسرا یہ کہ آئین لاکھ ’دھرم‘ اور ’مذہب‘ کی بنیاد پر لوگوں کو’ حقوق‘ فراہم کرے یہ حکومت ہر طرح کے ’ حقوق‘ ختم کرکے دم لے گی ۔ کشمیر سے اس کی شروعات ہوئی ہے ۔ آرٹیکل ۳۷۰ کا خاتمہ کشمیریوں کی ’ شناخت‘ سے ایک طرح کا کھیل ہی تو ہے ۔ یہ کھیل نارتھ ایسٹ میں کیوں نہیں کھیلا جارہا ہے ، اس سوال کا جواب اگر کوئی یہ دے کہ کشمیر میں یہ کھیل کھیل کر بی جے پی کو جو سیاسی فائدہ حاصل ہوسکتا ہے وہ نارتھ ایسٹ میں اس کھیل کے کھیلنے سے حاصل نہیں ہوسکتا تو جواب غلط نہیں ہوگا ۔ اس پس منظر میں اگر مسلم اقلیت میں خوف کی نفسیات پیدا ہو، اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجائے کہ این آرسی کے نام پر اس کے ساتھ نا انصافی کی جاسکتی ہے ،تو غلط نہیں ہوگا ۔ یہ احساس پید ا ہورہا ہے ۔ اور مرکز کی مودی سرکار کو جیسے جیسے ملک کی ریاستوں میں ملنے والی کامیابیوں سے ’طاقت‘ اور ’ قوت‘ حاصل ہورہی ہے ویسے ویسے ’ نا انصافی‘ کا اندیشہ بھی مضبوط ہوتا جارہا ہے ۔ اس لئے اس الیکشن میں آپ کے ووٹ اہمیت رکھتے ہیں ۔ آپ کا ووٹ جس کے حق میں گرے گا وہ مضبوط ہوگا ، چاہے وہ ’ جمہوریت‘ کے حق میں گرے یا ’ فرقہ واریت‘ کے حق میں ۔ فیصلہ آپ کو کرنا ہے ۔۔۔ بات صرف اتنی ہی نہیں ہے ،مرکز کی حکومت نے جس طرح سے ملک بھر میں سیاسی پارٹیوں اور سیاسی لیڈروں کو ’ ای ڈی ‘ انکم ٹیکس اور سی بی آئی وغیرہ کے ذریعے نشانے پر لینا شروع کیا ہے اس سے مزید ایک ’ اندیشہ‘ جڑ پکڑ رہا ہے ۔ کیا بی جے پی یہ چاہتی ہے کہ اپوزیشن کا خاتمہ ہوجائے اور ملک میں ایک ہی سیاسی پارٹی رہ جائے ؟ شاید ۔ اگر ایسا ہوا تو کہاں جمہوریت بچے گی! ایک پارٹی بس راج کرتی چلی جائے گی ، وہ چاہے اچھا کرے چاہے برا ، کوئی شاید ہی اس سے سوال کرسکے گا ۔۔۔ اس ’اندیشے‘ کے خاتمے کے لئے یہ ضروری ہے کہ دوسری سیاسی پارٹیاں اور سیاست داں ’بچے‘ رہیں ، اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ ابھی جو اپوزیشن ہے اس کے لیڈران بھی اسمبلی میں پہنچ سکیں اور اگر بی جے پی اور شیوسینا کی سرکار بنتی ہے تو اس کی کارروائیوں اور سرگرمیوں پر نظر رکھ سکیں ۔

ریاست کے اپنے مسائل الگ ہیں ۔ کسانوں کی خودکشیاں رکی نہیں ہیں ،ممبئی جیسا عظیم الشان شہر تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے ، ریاست بھر میں بے روزگاری میں زبردست اضافہ ہوا ہے ۔ مہنگائی آسمان کو چھورہی ہے ، تعلیمی نظام ابتر ہے ، معیشت ڈانواڈول ہے ، بینکوں کے گھوٹالوں اور گھپلوں کی وجہ سے لوگوں کی زندگی بھر کی جمع پونجی کے ڈوبنے کا خطرہ ہے ، لوگ مارے فکر کے مررہے ہیں ۔ ریاست کو بہتر بنانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے ، غریب اور بے گھروں کو بسانے کا اور شہروں کے ڈیولپمینٹ کا پلان مفقود ہے ۔۔۔ یہ وہ مسائل ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔۔۔ لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ کیسے سیاست دانوں ، سرکاری افسران اور ٹھیکیداروں کا گٹھ جوڑ گلے گلے تک بدعنوانی میں غرق ہے ۔ سرکاری اسکیموں کے نام پر جو رقمیں جاری کی جاتی ہیں وہ مستحقین تک پہنچنے سے پہلے ہی ہڑپ کرلی جاتی ہیں اور اس میں بی جے پی اور شیوسینا کے لیڈران ملوث نہ ہوںصرف اپوزیشن ہی ملوث ہو ، یہ ممکن نہیں ہے۔ ان مسائل کے حل کے لئے ایک اچھی حکومت کی ضرورت ہے جو دھرم اور ذات پات اور نفرت کی بنیاد پر سیاسی کھیل نہ کھیلے ۔ اسمبلی میں اچھے نمائندوں کی ضرورت ہے ۔ افسوس کہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ووٹوں کو بانٹنے کے لئے طرح طرح کی سیاسی پارٹیاں اور سیاست داں امیدوار بنکر سامنے آئے ہیں ۔ کئی سیاسی پارٹیاں بظاہر تو ’اقلیت اور مسلم دوست‘ بن کر میدان میں اتری ہیں لیکن سب ہی جانتے ہیں کہ یہ سیاسی پارٹیاں بس سیکولر ،دلت اور مسلم ووٹوں کی تقسیم کے لئے ہی سرگرم ہیں ۔’ووٹ کٹواامیدوار‘ بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں ۔۔۔ ان سب کو نظر انداز کرنا ہوگا اور اچھے سلجھے ہوئے ، سیکولر مزاج کے ایسے امیدوار کو ووٹ دینا ہوگا جو ’ فرقہ واریت‘ کے عفریت کو آگے بڑھنے سے روک سکے ۔۔۔ کیا آپ سب تیار ہیں ؟؟

(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.