کیا سپریم کورٹ کا فیصلہ برادران وطن کو بھی منظور ہوگا؟

 

نازش ہما قاسمی

بابری مسجد کا کیس لڑرہی مسلم تنظیموں نے ہمیشہ واضح کیا ہے کہ سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ ہوگا ہمیں منظور ہوگا؛ لیکن وہیں دوسری طرف فریق مخالف ’مندر وہیں بنائیں گے‘ کی رٹ لگائے ہوئے ہے خواہ سپریم کورٹ کا فیصلہ حمایت میں آئے یا مخالفت میں۔ مندر بنے گی تو اسی جگہ۔ سپریم کورٹ میں چالیس دنوں تک چلنے والی طویل بحث مکمل ہوچکی ہے۔ اب تک اگر دیکھا جائے تو دلائل کی بنیاد پر مسلم فریق کے وکیل نے وہاں مسجد ہونے کے بے شمار دلائل دئے ہیں؛ لیکن فریق مخالف مستقل آستھا وعقیدے کی رٹ لگا رہا ہے۔ کہ ہماری آستھا ایودھیا سے منسلک ہے؛ اس لیے ہمیں مندر بنانے کی اجازت دی جائے۔ عدالت میں کیس زیرسماعت ہونے کے باوجود بھی ان کی تنظمیں اور افراد مندر کے لیے مکمل تیاری کرچکے ہیں، پتھر تراشے جاچکے ہیں، مجوزہ نقشہ تیار ہے بس جس دن فیصلہ آئے گا خواہ حمایت میں ہو یا مخالفت میں مکمل تیاری کے ساتھ اسے براجمان کردیاجائے گا۔ خیر اس معاملے میں سپریم کورٹ پر پوری دنیا کی نگاہیں لگی ہوئی ہیں۔ لوگ منتظر ہیں کہ آیا انصاف کا بول بالا ہوتا ہے یا انصاف کی دیوی کو بھی آستھا کی بھینٹ چڑھادیاجائے گا۔ اگر دلائل وشواہد کی بنیاد پر فیصلے ہوئے تو عدلیہ کا وقار بڑھے گا۔ اور سپریم کورٹ کی پوری دنیا میں بہترین شبیہ ابھر کر سامنے آئے گی۔ اگر آستھا وعقیدت کی بنیاد پر فیصلہ دیاجاتا ہے تو پھر ہندوستان کے جمہوری ملک ہونے پر کسی کو یقین نہیں رہ جائے گا ؛ لیکن ہمیں یقین ہے سپریم کورٹ پر کہ وہ انصاف کا بول بالا قائم رکھنے کی ہی کوشش کرے گا اور ایسا راستہ نکالے گا جس سے ملک میں امن وامان کی فضا برقرار رہے ۔

سپریم کورٹ میں بحث کے آخری دن بھی ایک ہنگامہ نظر آیا۔ جسے گودی میڈیا نے خوب اچھالا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مسلم فریق (سنی وقف بورڈ) نے مقدمہ واپس لیتے ہوئے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہے؛ لیکن میڈیاکو یہ معلوم ہوناچاہئے کہ سنی وقف بورڈ مقدمہ واپس لینے کا مجاز نہیں ہے؛ کیوں کہ اس نے تحریری طور پر اپنا کیس مسلم پرسنل لاء بورڈ کو دے رکھاہے، چنانچہ پرسنل لاء بورڈ،وقف بورڈ کی طرف سے کیس لڑرہاہے اور وکلاء پوری طرح بورڈ کے ساتھ ہیں،بورڈ جن سات فریقوں کی طرف سے پیروی کررہا ہے ان میں سنی وقف بورڈ کا حوالہ کردہ کیس بھی ہے، اس لیے وقف بورڈ اگر حلف نامہ بھی داخل کرے تو مقدمہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، کیوں کہ اب وہ فریق نہیں رہا۔ اور ان شاء اللہ بورڈ اور جمعیۃ کو کامیابی وکامرانی نصیب ہوگی۔

کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے نومبر میں فیصلہ آنے کی امید ہے؛ لیکن اس سے قبل میڈیا میں ایک شور ہے ا ور ہنگامہ برپا ہے۔ نفرت عروج پر ہے۔ اگر اس نفرت کا بازار یوں ہی گرم رہا تو ہندوستان پھر نفرت کی بھینٹ چڑھ کر خاک وخون میں تڑپے گا اور اس کے ذمہ دار میڈیا ہائوس والے ہوں گے۔ ہم تویہی امید کرتے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ اللہ ملک کے باشندوں کے ساتھ خیر ہی کرے گا؛ لیکن نفرت کے بازار کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ آخ تھو، چھی نیوز جیسے چینلوں نے ابھی سے راہیں ہموار کرنا شروع کردی ہے ۔ ’جنم بھومی ہماری، رام ہمارے ، مسجد والے کہاں سے پدھارے‘ جیسے نفرت انگیز سلوگن کےساتھ ڈبیٹ ہورہی ہے اور نفرت کا کاروبار پھیلایاجارہا ہے۔ جبکہ نیشنل براڈکاسٹنگ سٹینڈرڈ اتھاریٹی نے تمام میڈیا ہائوس کو اس تعلق سے ۹؍نکاتی ہدایت نامہ بھیجا ہے جس میں یہ درج ہے کہ ممکنہ فیصلہ کے بارے میں سنسنی و اشتعال انگیزی نہ پھیلائی جائے، سو فیصد درست خبر ہی نشر وشائع کیجائے، فیصلے کے بارے میں قیاس آرائیاں نہ کی جائیں، جشن واحتجاج کے مناظر نہ دکھائے جائیں، مسجد کی شہادت کا فوٹو نہ نشر کیاجائے، کسی فرقے کے حق میں یا کسی فرقے کے خلاف جانب داری یا تعصب نہ ظاہر کی جائے، اشتعال انگیز مباحث جس سے عوام میں کشیدگی پیدا ہو اس سے پرہیز کیاجائے۔ لیکن شاید یہ ہدایت نامہ بھی ایک خاص گروہ کےلیے ہے دوسرا اس سے آزاد ہے کیوں کہ نفرت کا بازار شروع کردیا گیا ہے۔ عوام کو چاہئے کہ ملک کی سالمیت کے لیے عدالتی فیصلے کا احترام کرتے ہوئے امن وامان کی فضا قائم رکھیں۔ مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ اگر ان کے حق میں فیصلہ آیا تو خدا کا شکر ادا کریں اور اگر خلاف آیا تو مشتعل نہ ہو، جمہوری ملک میں آپ انصاف کےلیے جتنا کرسکتے تھے جو بن پڑا آپ نے اور آپ کی تنظیموں نے وہ کیا آپ کو اللہ کے سامنے جواب دینے میں آسانی ہوگی کہ ملک اور آئین کے فریم میں رہتے ہوئے ہم نے کوشش توکی تھی، مسجد کا سودا نہیں کیا، مسجد کی جگہ کو مندر کے لیے دینے کی وکالت کرنے والوں کی باتیں تسلیم نہیں کی اور اخیر وقت تک عدالت پر بھروسے قائم رکھا ۔ اللہ ملک کی حفاظت فرمائے اور ملک میں امن و امان کی فضا پیدا فرمائے ۔ (آمین)

(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.