گستاخ کملیش کا قتل مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بند سازش تو نہیں؟

 

 

احساس نایاب(شیموگہ، کرناٹک)

ایڈیٹر گوشہ خواتین و اطفال بصیرت آن لائن

 

سچ کہتے ہیں دنیا میں اگر کوئی رشتہ سچا اور مخلص ہے تو وہ صرف اور صرف ماں کا ہے، جو اپنی اولاد کے لئے دنیا کی ساری دھن دولت کو ٹھوکر مار دیتی ہے، اپنے بچوں کی خاطر ہر غم سہتی ہے لیکن اپنے بچے کے اوپر ہلکی سی آنچ بھی آنے نہیں دیتی بلکہ اولاد کی خاطر ہرنی جیسی نازک کمزور ماں پل بھر میں شیرنی کا روپ اختیار کرلیتی ہے …….

 

آج یہی روپ ہم نے ملعون کملیش کی ماں کے اندر دیکھا دل تو کررہا ہے اس گستاخ معلون پہ خوب لعنتیں بھیجیں لیکن نظروں کے آگے اُس بیچاری ماں کا چہرہ آجاتا ہے جو اپنے بیٹے کی موت کے غم میں بن پانی کی مچھلی کی مانند تلملا رہی ہے اور میڈیا کے سامنے یوگی آدیتیاناتھ کو اپنے بیٹے کی موت کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے انصاف کی مانگ کررہی ہے. کاش ہماری تمام ہندو ماں بہنوں کو اب تو یوگی، مودی اور امیت شاہ کی چال بازیاں سمجھ آجائیں، کاش اب تو انہیں نجیب کی ماں کے درد کا احساس ہو …………

کملیش کے قتل پہ مقتول کی ماں کا کہنا ہے کہ ” میرے بیٹے کو اکھلیش اور اعظم کے دور میں کچھ بھی نہیں ہوا، تب کوئی انگلی نہیں لگا پائے، اس یوگی کی سرکار میں میرے بیٹے کو مروا دیا، ہندو ہونے کے باوجود میرے بیٹے کو مروادیا، میں یوگی کے ہی سر پر تھوپوں گی ” ……… یہاں کملیش کی ماں کے ساتھ ساتھ دیگر افراد کا بھی یہی کہنا ہے کہ جب سے یوگی آیا ہے کنس بن کر ماؤں سے اُن کی اولادیں چھین رہا ہے ………….

 

ویسے تو پولس کے مطابق لکھنؤ کا رہنے والا ہندو مہاسبھا کا ریاستی صدر و موجودہ ہندو سماج پارٹی کا قومی صدر کملیش تیواری کا قتل آپسی رنجش بتایا جارہا ہے لیکن جائے واردات اور قتل کے دوران پیش آئے معاملات کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ یہ کسی گہری سازش کا حصہ ہے.

 

کیونکہ ” بروز جمعہ ملاقات سے پہلے کملیش کی قاتلوں سے فون پہ بات ہونا، پھر ان دونوں کا صبح مٹھائی کا ڈبہ ساتھ لئے کملیش کے گھر پہنچنا جہاں اُس نے اپنا دفتر بنایا ہوا ہے اور اتفاق سے گنر کا ڈیوٹی پہ نہ آنا اور دفتر کے باہر تعینات سپاہی کا اُسی وقت سوئے رہنا جس کی وجہ سے ملنے آئے دونوں شخص کی پوری طرح سے جانچ نہ کرنا ………

ویسے یہ سب کچھ اتفاق تھا یا منصوبہ بندی، لاپرواہی تھی یا ملی بھگت اور سوچی سمجھی سازش یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن کملیش اور دونوں قاتلوں کے درمیان ہوئی خوشگوار گفتگو ……. یہاں پہ ہم لفظ خوشگوار اس لئے استعمال کررہے ہیں کیونکہ گفتگو کے دوران انہوں نے ساتھ چائے پی، دہی بڑے کھائے پھر کملیش نے اپنے نوکر سوراشٹر جیت کو پان لانے کے لئے باہر بھیجا ……… اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ قتل سے پہلے وہاں کا ماحول کتنا خوشگوار تھا اور رنجش جیسی کوئی بات نظر نہیں آرہی تھی……..

 

بلکہ ماحول اس جانب اشارہ کر رہا ہے کہ یقیناً ان دونوں قاتلوں کی کملیش سے قریبی اور پرانی دوستی رہی ہوگی ورنہ کیوں کملیش جیسا شخص ان دونوں کی اتنی خاطر تواضع کرتا

جبکہ آج کے زمانے میں سگے رشتے داروں کو جلدی سے پانی نہیں پوچھا جاتا ایسے میں وہاں پہ انجان اجنبیوں کو چائے، دہی بڑے اور پان کی مہمان نوازی ہضم نہیں ہورہی ……….. کیونکہ آج کے دور میں اس طرح کی مہمان نوازی اُن لوگوں کی کی جاتی ہے جو یا تو رسوخ دار ہوں، بڑے بڑے عہدوں پر فائض ہوں یا سیاستدانوں سے اُن کے اچھے خاصے تعلقات ہوں یا اپنی پارٹی سے جڑے ارکان ہوں جن سے مستقبل میں فائدہ پہنچنے کے امکانات ہوں …….. وہیں پہ اتیتھی دیوؤبھوا مانا جاتا ہے یعنی مہمان بھگوان سمان …………….. لیکن یہ اور بات ہے کہ یہاں پہ مہمان بھگوان کی بجائے یمراج بن کر تشریف لائے تھے وہ بھی مٹھائی کے ڈبہ میں اسلحہ لئے ………. اور جب نوکر پان لانے کے لئے باہر گیا اسی دوران موقعہ پاکر اُن دونوں نے مٹھائی کے ڈبہ میں چھپاکر لائے گن اور چاقو سے حملہ کردیا جس میں ایک نے تابڑتوڑ گولیاں چلائیں اور دوسرے نے گردن پہ چاقو سے لگاتار 15 وار کئے اور موقعہ واردات سے فرار ہوگئے ……. یہاں پہ جس طریقے سے انہوں نے حملہ کیا ہے اُس سے اُن کی منشا صاف ظاہر ہوتی ہے کہ کسی صورت میں انہیں کملیش کا زندہ بچنا منظور نہیں تھا، شاید اُس کی وجہ کملیش کا انہیں پہچان لینا اور کسی رسوخ دار کی بغاوت ہوسکتا ہے …….

 

ایسے میں حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ دفتر کے باہر تعینات سکیورٹی گارڈ اور نوکر آخر کیسے قاتلوں کو پہچاننے میں ناکام ہوگئے یا وہ جان بوجھ کر نیند اور ناپہچاننے کا ڈرامہ کررہے ہیں ………….

 

خیر اتفاق تھا یا منصوبہ بندی؟ یہ تو آنے والا وقت اور پولس جانچ سے پتہ چل ہی جائے گا اور پردہ کے پیچھے چھپے تمام چہرے ایک کے بعد ایک بےنقاب ہونگے کیونکہ جس شخص کو بارہا مارنے کی دھمکی دی جارہی تھی ایسے میں اُس سے ملنے آئے بدمعاشوں کی پوری جانچ نہ کرنا کئی سوالات کھڑے کرتی ہے …….

 

اُس پہ ایک طرف کیمرے کے آگے کملیش کی ماں کا زبانی بیان جس میں یوگی سرکار کو سیدھے سیدھے ذمہ دار ٹھہرایا جانا ……..

 

دوسری طرف بیوی کی جانب سے تحریری شکل میں جاری کیا گیا بیان اس بات کو واضح کرتا ہے کہ کہیں نہ کہیں کملیش کی بیوی کو بہلا پھسلا کر، زور زبردستی سے یا پیسوں کی لالچ دلواکر یہ تحریر لکھوائی گئی ہے ……..

 

ویسے بھی جہاں بھاجپا سرکار ہے وہاں یہ سب کچھ ممکن ہے کیونکہ جس کے منتری پولس کسٹڈی میں کسی کو مرواسکتے ہیں، پھر اُس لاش کے انگوٹھے کا چھاپ لے سکتے ہیں وہ اپنے مفاد کی خاطر کچھ بھی کرسکتے ہیں …………..

 

اور ان تمام حالات کے مدنظر یہ قتل یقیناً گہری سازش کا حصہ ہے کیونکہ سارا ہندوستان جانتا ہے کہ کملیش نے کچھ سال قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرتے ہوئے نازیبا الفاظ کہے تھے جس کی وجہ سے مسلمانوں میں اس مردود کے لئے غصہ و ناراضگی تھی جس کے چلتے مسلمانوں نے جذبات میں بہہ کر اس کے لئے سزا کی مانگ کی تھی، آج اس کا پورا فائدہ ان فرقہ پرستوں نے اٹھایا ہے ……………..

 

ابھی جب بہت جلد بابری مسجد معاملے کا فیصلہ آنے کا اندیشہ ہے جس کو لے کر سپریم کورٹ کا صاف صاف کہنا ہے کہ فیصلہ ثبوت دستاویزات کی بنا پر سنایا جائے گا نہ کہ جذبات پر ………. ایسے میں جب آر ایس ایس کے پاس رام کی جائے پیدائش کو لے کر کوئی پختہ شواہد دستاویزات کا نہ ہونا اور حال ہی میں ……. کورٹ میں جج کے کہنے پہ راجیو دھون کا کاغذات پھاڑ دینا اور کئی سیکولر ہندؤں کا بھاجپائیوں کی غلط پالسیوں پہ آواز اٹھانا سوال پوچھے جانا……..

ان سب سے کہیں نہ کہیں آر ایس ایس اور بی جے پی کو اس بات کا ڈر خوف ہے کہ فیصلہ مسلمانوں یعنی بابری مسجد کے حق میں آئے گا …………

 

شاید اسی کے چلتے آر ایس ایس ملک کا ماحول بگاڑنا چاہتی ہے، مسلمانوں کے خلاف سیکولر ہندؤں کو بھڑکانے کی کوشش کی جارہی ہے …….. اور یہ سب کچھ جان بوجھ کر منصوبہ بندی کے تحت رچی گئی سازش ہے تاکہ کملیش کے قتل کا سارا الزام مسلمانوں کے سر منڈھ کر ملک کے ہندو و دیگر اقلیتی طبقہ سے جڑے لوگوں کو اکسایا جائے تاکہ وہ مسلمانوں پہ بھڑک پڑیں، جگہ جگہ فسادات ہوں، فرقہ وارانہ تشدد میں مسلمانوں کا قتل عام ہو اور نفرت کی آگ میں انسانیت خاک ہوجائے اور ایک بار پھر سے اترپردیش میں گجرات کی داستان دہرائی جائے جس پہ بھاجپا اپنی سیاسی روٹیاں سیک سکے ……….

 

شاید اسی لئے امیت شاہ نے ایک انٹرویو کے دوران دو ٹوک انداز میں کہہ دیا کہ این آر سی میں مسلمانون کے علاوہ تمام مذاہب کو شہریت دی جائے گی اور حال ہی میں ایک اور انٹرویو کے دوران امیت شاہ گروہی تشدد کے خلاف قانون بنانے سے صاف صاف لفظوں میں انکار کردیا کیونکہ یہاں پہ گروہی تشدد میں شہید ہونے والوں میں 95 فیصد مسلمان ہوتے ہیں اور بی جے پی، آر ایس ایس کا مقصد بھی یہی ہے کسی نہ کسی طریقے سے ہندوستان سے مسلمانوں کا خاتمہ کر ہندوستان کو ہندوراشٹر بنایا جائے .

چاہے وہ ماب لینچگ کے ذریعہ ہو یا این آر سی کے ذریعے ہو ………… بھلے یہ ہزار طریقے استعمال کریں لیکن ان کا مقصد صرف اور صرف ایک ہی ہے ………….. جس کا جیتا جاگتا ثبوت کملیش کے قتل میں بلاوجہ مسلمانوں کو جوڑنا ہے ……..

ویسے بھی کسی اور کے قتل سے انہیں اتنا فائدہ نہیں پہنچتا جتنا کملیش کے قتل سے یہ اٹھانے کی کوشش کریں گے ………….

 

لیکن ان شاءاللہ وہ اپنے ان گندے مقاصد میں ہرگز کامیاب نہیں ہوں گے …….

پھر بھی مسلمانوں کو ہر لمحہ محتاط رہنا ہوگا ساتھ ہی اپنے اندر سےہر طرح کے کے ڈر خوف کو نکال کر اپنے دینی بھائیوں کی طاقت بننا ہوگا کیونکہ آج ہمارا اتحاد ہی ہمیں مضبوط بناسکتا ہے، اختلافات میں تقسیم ہوکر ہم دشمنوں کی سازشوں کو ناکام نہیں کرپائینگے بلکہ متحد ہونے سے ہی ہمارا وجود ہے ………..

 

آخر میں پولس کو بھی چاہئیے کہ وہ اس قتل کی سنجیدگی سے جانچ کریں یا اس معاملے کو سی بی آئی کو سونپ دیں کیونکہ نوکر کے مطابق آدھے گھنٹے تک لگاتار 100 نمبر پہ ڈائل کرنے کہ باوجود پولس موقعہ پر پہنچنے میں ناکام رہی. اگر وقت رہتے پہنچ جاتی تو شاید مقتول بچ بھی جاتا …… خیر امید ہے کہ پولس اس کیس میں کوئی لاپرواہی نہیں برتے گی, نہ ہی کسی گیم کا حصہ بنے گی نہ ہی سبودھ کمار کی بیوی کی طرح کملیش کی ماں کو انصاف دلانے میں ناکام ہوگی ……………..

Comments are closed.