جب کوئی میر کو بھی نہ سمجھ سکا___!!!

محمد صابرحسین ندوی
[email protected]
7987972043
انسان کی تحریر، تقریر، آرٹ اور فن کا تعلق اس کے دل کے خون اور درد جگر سے ہوتا ہے، الفاظ یا تصویر ایک ناقص ذریعہ ہے، ورنہ دل کے ارمان، نگاہوں کا شوق اور سینہ کی گرمی بیان کرنے کیلئے تمام ڈکشنریاں ناکام ہیں، قارئین تحریر کو صرف لفظوں میں تلاش کرتے ہیں، معانی ڈھونڈتے ہیں؛ لیکن ہائے افسوس محرر کے دل سے رستا ہوا لہو نہیں دیکھنا چاہتے، پھول پر گرتی ہوئی شبنم اور چٹکتی کلی اور کھلتے گلاب کی رعنائیاں نظر آتی ہیں، مگر اس کے پس پشت اس درد کو کوئی نہیں دیکھتا، شکستگی میں چور کسی قلم سے جب کوئی تصویر بنائی جاتی ہے، اس کے اندر رنگ و روغن اور نوک پلک کی باریکیاں چیک کی جاتی ہیں، تو وہ سب کچھ ہوتا ہے؛ لیکن اس احساس سے خالی ہوتا ہے، جو کسی کاتب کے سینہ نے پیدا کی ہے، لیکن اگر کوئی قاری بھی اسی تپش سے دوچار ہو اور اسی نخل تمنا کے اجڑ جانے، گلستاں کے برباد ہوجانے اور دل و جگر کے کٹ جانے کا شکار ہو، تو یقینا ہر گتھی سلجھ سکتی ہے، آپ پڑھئے!!! لیکن دل کو دل سے، زبان کو صرف زبان سمجھ کر نہ سنئے! بلکہ صدائے غم، داستان الم اور روداد چمن جان کر سنئیے! نیز قلم کو محض روشنائی بکھیرنے والا اور لفاظی کرنے والا نہ سمجھیں، ایک محرر اکثر غم زمانہ، غم روزگار اور غم یاراں سے دوچار ہوتا ہے، وہ فصل بہار سے کوسوں دور جہاں نہ مے ہو اور نہ میخانہ اور نہ کوئی ساقی، وہ خالی جام ہی رند صراحی بنا پھرتا ہے، وہ تشنہ لب ہے، وہ جلتا شمع ہے، وہ وہ شیشہ و پیمانہ ہے، جو زینت محفل بن کر کچھ ٹوٹ گئے اور کچھ ساقی اپنے ساتھ لے گئے۔
مشہور ہے کہ میر کے کلام کو کوئی سمجھ نہ سکا، ان کے سینے غم اور آنکھوں کا اشک کوئی محسوس بھی نہ کرسکا، وہ اپنے کلام میں سادگی کے باجود یکتائی رکھتے ہیں، لفظ کی سہل پسندی ان کا خاص مزاج تھا؛ لیکن عجب حال ہے، کہ انہیں نافمہوں کی شکایت تھی، میر نے خود اپنا درد بیان کیا اور زیادہ نہیں؛ بلکہ کم ہی کیا اس کے باوجود کوئی اسے سمجھنے کی تاب نہ لا سکا، انہوں نے ” ذکر میر” بھی اپنے کلام کے فہم کیلئے ناکافی سمجھا، چنانچہ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ چند باذوق حضرات جنہیں شعر و شاعری اور سخن فہمی کا گمان تھا، جب آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کا کلام سننے کا اشتیاق ظاہر کیا، تو میر نے بہت اصرار کے بعد جواب دیاکہ "میاں! تم ہمارا کلام نہیں سمجھ سکتے” تو ان بے چاروں نے عرض کیا حضرت! عرفی، خاقانی، نظامی، قاآنی کا کلام سمجھتے ہیں، آپ کا کلام کیوں نہیں سمجج سکتے؟ میر نے کہا: "ان شاعروں کی فرہنگیں اور شرحیں ہیں، میرے کلام کی شرحیں اور فرہنگیں جامع مسجد کی سیڑھیاں ہیں، جہاں نادر شاہ کی تلوار چمکتی رہی، اور جب شہر بھر سے سرخیاں بڑھ کر جامع مسجد کی سیڑھیوں تک آگئیں تب نیام میں گئی، ان سیڑھیوں کو مستقل مسکن بناو، تو میرا کلام سمجھوگے”۔ اب دیکھئے نا___اا میر صاحب سے لیکر اب تک جامع مسجد ہے، لیکن وہ خون کا بہتا دھارا اور زیاں ہوتا انسان اور انسانیت کو سمجھن والا کون ہے؟ اب کون ہے جو کلام میر کے اجزاء میں نادر شاہ کی تلوار اور اس کے قہر کو پائے اور غزل کو صرف غزل سمجھ کر نہیں؛ بلکہ جامع مسجد کی سیڑھیوں پر جمے خون کو تصور میں لے آئے ____ یہ قصہ صرف میر کا نہیں بلکہ ہر کسی کا ہے، بس زبان و تحریر صرف الفاظ نہیں وہ داستان دل ہے، دل تک پہونچئے داستان تک پہونچ جائیں گے۔
15/10/2019
Comments are closed.