نیشنلزم یا قومیت اور مودی جی کی ملک مخالف پالیسیاں

نقاش نائطی 966504960485+

زمانہ قدیم میں، اپنی حکومتوں کی وسعتوں کے لئے تلوار و نیزوں سے جنگیں لڑی جاتی تھیں۔ ظہور اسلام کے بعد، ترویج دین و بقاء دین کے لئے مملکتوں کے درمیان ،گھڑ سواروں کے مابین قلعہ شکن منجنیق کی جنگیں لڑی جانے لگیں۔ کم و بیش ہزار سالہ عالم پر اسلامی اقدار دوران و بعد، ہلالی و صلیبی جنگوں نے بندوق و توپوں سے حرب کی دنیا میں اپنا سکہ جمایا تو، زوال خلافت عثمانیہ بعد، فرنگیوں یہودیوں نے، اپنے مکر و فن سے اپنی حسین نساء کو قبل از وقت دشمنوں کے کیمپوں تک پہنچا کر، انہیں زیر کرنے کا حربی طرز متعارف کرایاتھا ۔اب تو ان سابقہ دو ایک صدیوں میں، حربی صنعت و ترقی پزیری نے،تلوار و نیزے کی جنگ کو، طیران سازی، میزائل و راکٹ و ایٹمی سازی نے ایک ایسی جہت سے متعارف کرایا ہے کہ زمانہ قدیم کی سالوں کی جنگ کو دنوں اور گنٹھوں تک محدود کردیا ہے۔ ایسے میں ایشین ممالک ہی میں، ہندستان، پاکستان، چائنا کے علاوہ کوریا کے ایٹمی طاقت بن جانے کے بعد، اب کے ہونے والی ایٹمی جنگ کے بارے میں سوچ کر ہی، ہیروشما اور ناگاساکی کے لاکھوں زندگیوں کے لحظوں میں گل ہونے کا سوچ کر، بدن میں جھر جھری سے پیدا ہونے لگتی ہے۔ اور اب ملکوں کے درمیان حد بندیوں نے، وسعت مملکت کے لئے حرب کی جگہ، معاشیاتی تفکراتی جنگ نے لے لی ہے۔ ایسے میں دشمن کو زیر کرنے صرف مہلک ہتھیاروں سے ڈرا دھماکر، انہیں ذہنی طور ایک حد تک مفلوج کرتے ہوئے، ان کے اندرون خانہ اپنے مخبر و دست راست پیدا کر، اپنی سازشوں سے انہیں اندرونی طور کمزور و مفلوج کرنے کا یہ حربی طرز مقبول ہورہا ہے۔ اب تو حربی دنیا کے پیچھے ظالم و جابر آمر ڈکٹیٹر فوجی حکمران کی جگہ ہم معاشیات کے ماہرین پونجی پتی نظام کو پاتے ہیں۔ اپنے مبرد عیش کدوں میں بیٹھے یہ تجار عالم، نہ صرف اپنی تجربہ گاہوں میں، نت نئے اقسام کےامراض وضع کرتے اور صحت عامہ کے قیام کے بہانے، اسے عالم میں پھیلاتے ہوئے ، اپنی ادویات کی صنعت کو ترقیات کی اونچائی تک لے جانے میں کامیاب رہے ہیں۔ بلکہ دنیا جہاں میں اپنے نامزد مہروں کی وساطت سے،دو پڑوسی ملکوں میں اختلاف بڑھاتے ہوئے، اسے حرب تک لے جاتے،دونوں طرف اپنے مہروں کے ذریعے سے ہر ممکنہ مدد کے بہانے، اپنی حربی صنعت سے مالامال ہونے کا فن،فی زمانہ عروج پر ہے۔

آزادی ھند بعد ساٹھ پینسٹھ سالوں میں زیرک کانگریسی سیاستدانوں کی جہد تسلسل نے، جہاں ھند کو 2030 تک عالم کی سربراھی دوڑ میں لاکھڑا کیا تھا، یہود و نصاری کے سازشی اذہان نے،اپنے کھوئے جانےوالے اقدار کی بقاء کے لئے، دس پندرہ سالوں سے، جس انسانیت کے قاتل گجرات کو امریکہ داخلے پر پابندی عائد کی تھی، برہمن یہود بھائی بھائی کے نعرہ کے سائے میں،قاتل گجرات کو گلے لگاکر، اسے زمام اقتدار ھند پر متمکن کر، ھند میں صدیوں سے چلے آرہے امن و سلامتی و بھائی چارگی والے سیکیولر اقدار کو، پس پشت رکھتے ہوئے، زمانے سے چلے آرہے ہندستانی اشتراکی نظام کو پوری طرح سے پونجی پتی نظام میں بدلتے ہوئے، ترقی پزیر چمنستان ہندستان کو تنزل پزیری کی اتھاہ کہرائیوں والے دہانے پر لاکھڑا کردیا ہے۔
ذراسنجیدگی سے دیکھا جائے تو یہ سمجھنا آسان سا ہوجاتا کہ ھند پر اصل حکمران کون ہے؟ بظاہر عوامی ووٹوں سے جیت کر آئے، مقبول سیاسی رہنما 56’سینے والے مودی مہاراج حاکم ھند ہیں ؟ یا ان کی پشت پر سوار، سو سال قبل وجود میں آئی، ہندو احیاء پرستی کے علمبردار، کروڑوں کیڈر بیس سنگھیوں پر مشتمل، نازی آرایس ایس کے سرچالک موہن بھاگوت مہاراج اس ملک کے اصل حکمران ہیں؟ یا امریکہ کے اپنے مبرد عیش کدوں میں بیٹھے عالم کے یہود و نصاری پونجی پتی، عالم کی سب سے بڑی جمہوریت پر، اپنا 56′ سینے والا مہرہ بٹھائے، دور بیٹھے،اپنے لاسلکی ریموٹ کنٹرول سے، اپنے کٹھ پتلی ناچ سے، ھند میں پونجی پتی نظام لاگو کرتے ہوئے، دیش کی سرکاری سنتھاؤں کارخانوں بینکوں کو تباہ کرتے ہوئے،2030 تک کے عالمی سربراھی کے دعویدار بننے والے ملک چمنستان ہندستان کو، ترقی پذیر پٹری سے اکھاڑ کر، تنزلی کی اتاہ گہرائیوں میں ڈھکیلنے ہی کے لئے،ماقبل آزادی ھند کے فرنگیوں کے تلوے چاٹنے والے، اس وقت کے ہندو مہا سبھائی اور آج کے سنگھیوں کو ہندستان کی تاراجی کے منصب کے لئے کیا چنا نہیں گیا ہے؟

اب اگر سنگھی مودی جی کے دور اقتدار ھند کےان چھ سالہ کار کردگی پر ایک طائرانہ نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ 2014 سب کا ساتھ سب کا وکاس اور اچھے دن آنے والے ہیں،جیسے جن سبھاؤں میں عوامی گونچ کے بل پر، بند پر قبضہ جمانے والے، صرف امبانی ایڈانی جیسے چند سنگھی برہمن پونجی پتیوں کے علاوہ، دیش کے ہر ورگ کے ناگرگوں کی قسمت میں ناامیدی اور غربت و افلاس ہی ہاتھ لگی ہے۔دیش کے کروڑوں کسان، مزدور پیشہ عوام، چھوٹے اور مدھیاوتی تاجر و صنعت کار، تعلیم یافتہ یوا پیڑھی ہو کہ 2014 سے پہلے تک برسر روزگار لیکن نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جیسے ناعاقبت اندیشانہ سنگھی فیصلوں سے متاثر ہوکر، بند ہوتے، کارخانوں اورتجارتی مراکز کےکروڑوں بے روزگار ہوئے جوان و ادھیڑ عمر شہری،بجٹیڈ آمدنی میں بڑی مشکل سے گھرگرہستی چلانے والی کروڑوں بہو بیٹیاں،آخر کون اس مودی سنگھی راج میں بدحال و مفلس ہونے سے باقی بچا رہ گیا ہے؟

آزاد دیش کی سب سے بڑی حکومتی مواصلاتی کمپنی بی ایس این ایل جو 2014 سنگھی دور حکومت سے پہلے تک ترقی پزیری کے نئے نئے مدارج طہ کر رہی تھی دیش کے سنگھی پرائم منسٹر کے، برہمن پونجی پتی امبانی کی جیو مواصلاتی کمپنی کا برانڈ ایمبیسیڈر بن کر، جیو کمپنی کی کھلی تشہیر کرنے کے بعد، بی ایس این ایل کمپنی کو صدا ملنے والے سرکاری ٹھیکے، مودی جی کے اشارے پر جیو کمپنی کو دئیے جانے نے، جہاں جیو مواصلاتی کمپنی کو ہندستان کی نمبر ون مواصلاتی کمپنی بنا دیا ہے، وہیں پر دیش کی سب سے بڑی سرکاری بی ایس این ایل مواصلاتی کمپنی، مودی جی کے فن عیاری سے، خسارے کا شکار بنتے ہوئے، اپنے لاکھوں کرمچاریوں کو بے روزگار کرتے،بند ہونے کے کگار پر ہے۔دیش کی سب سے بڑی جنگی لڑاکا جہاز بنانے والے سرکاری کمپنی بھیل کو، تقریبا فرانس حکومت سے طہ پائے رافیل بمبار جہاز ہندستان بھیل میں بنائے جانے کے سرکاری ٹھیکے کو، مودی جی کی ایماء پر، انل امبانی کی نو زائیدہ غیر معروف و غیر تجربہ کار کمپنی کو دئے جانے کے بعد، اب بی ایس این ایل کی طرح، بھیل کمپنی کے بھی تاراج ہونے کے دن قریب ہیں۔دیش کی کئی نامی گرامی اوٹوموبائل کمپنیاں،کپڑا سازی کی کمپنیاں اور دیگر مصنوعات، نوٹ بندی جی ایس ٹی کے اثرات بد سے بند ہوتے ہوئے، لاکھوں کروڑوں دیش واسیوں سے ان کا رہا سہا روزگار چھین چکے ہیں۔ آزادی ھند کے بعد سے مسلسل ترقی پزیر ذاتی بنکوں کو، اسی کے دہے کے آس پاس، اس وقت کی دیش کی کانگریسی پرائم منسٹر محترمہ اندراگاندھی صاحبہ نے، دیش کے مفاد میں نیشنلائز کر حکومتی قبضہ میں لیا تھا اور یہ تمام بنک 2014 تک ترقی پذیر ہی تھے۔ اب اچانک سنگھی مودی کے چھ سالہ دور حکومت میں،حکومتی ایماء پر انکے چہیتے سنگھی برہمن پونجی پتی گھرانوں کو لاکھوں کروڑ کے قرضے دینے اور مودی جی کی ہی ایماء پر ان برہمن پونجی پتیوں کے قرضے معاف کئے جانے کی وجہ سے، نہ صرف دیش کے تقریبا تمام بنک دیوالیہ ہونے کی کگار پر ہیں بلکہ آزادی ھند کے بعد ان پینسٹھ سالہ کانگریسی دورحکومت میں،دیش کے ریزرو بنک کے پاس جمع پونجی میں سے، لاکھوں کروڑ،پہلی مرتبہ مودی حکومت کے تصرف میں لائے جانے کی وجہ سے، دیش کے مختلف بنکوں میں جمع کروڑوں دیش واسیوں کے اربوں روپئے ڈوبنے کی کگار پر ہیں۔آخر یہ سنگھی مودی جی کی حکومت دانستہ دیش کی سنستھاؤں کو، سرکاری بڑے کارخانوں کمپنیوں کو،اور دیش کے بنکوں کو برباد کرنے کی اپنی پالیسیز پرڈٹی اور جمی ہوئی ہے تو یہ دیش کو برباد کرنے والی سنگھی پالیسیز قوم پرستی کے کون سے خانے میں فٹ بیٹھتی ہے؟

قوم پرستی یقینا ایک اچھا جذبہ ہے لیکن قوم پرستی کا دھوکہ دے کر قوم پرستی کے برخلاف عمل دیکھنے کے باوجود دیش واسیوں کو اس سمت آگاہ نہ کرنا دراصل قوم پرستی نہیں قوم دشمنی ہے۔

اس چمنستان ہندستان کی آثاث ہزاروں سالہ گنگا جمنی ہندو مسلم بھائی بھائی والی سیکیولر تہذیب ہی میں اس ملک کی ترقی پنہاں ہے۔ یہاں تک کہ باہر سے ھند پر حملہ آور ہوکر آنے والے مسلم حکمرانوں نے بھی، اس دیش کے مختلف المذہبی روایات کو اتنا پسند کیا تھا کہ وہ اس ملک پر حکمران بننے کےباوجود، اس ملک کے ہزاروں سالہ سیکیولر پرمپرا کا ہر لحاظ سے خیال رکھتے ہوئے، اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب ہی میں اپنے آپ کو جذب کرتے ہوئے، یہیں کے ہوکر یہی کی مٹی میں، رچ بس گئے تھے۔

کیا ایسے میں دیش کے پڑھے لکھے لاکھوں کروڑوں دیش واسیوں کی یہ ذمہ داری نہیں بنتی؟ کہ دیش بھگتی کی آڑ میں دیش کو برباد کرتے ان سنگھی حکمرانوں کے خلاف سڑکوں پر اترا جائے؟ دیش کے باپو مہاتما گاندھی کے آہنسا کے اصولوں کے تحت، فرنگیوں کے خلاف ستیہ گرہ احتجاج کرتے عمل کو ،اس وقت فرنگیوں کے تلوے چاٹنے والے، اس وقت کے مہاسبھائی اور آج کے سنگھی حکمرانوں کے خلاف بھی،وہی مہاتما گاندھی والا عدم تعاون، نون کوآپریٹیو عمل، کیوں نہ دہرایا جائے؟ دیش کو برباد کرنے والے ان سنگھی حکمرانوں سے، جلد از جلد دیش کو مکت کرانا، نہ صرف دیش کے لئے وقت کی اہم ضرورت ہے، بلکہ برباد ہوتے دیش کو بچانے لائق دیش بھگتی والا عمل بھی ہے۔ ویسے بھی نہ صرف 2014 بلکہ 2019 عام انتخاب ای وی ایم چھیڑ چھاڑ ہی کے سبب، عوامی توقعات کے برخلاف ان سنگھیوں کی اتنی شاندار ملی جیت، اہل علم و اہل تدبر والوں کی نگاہ میں، شک کے دائرے میں ہی رہی ہے ۔جب تک ان سنگھیوں کو زمام اقتدار سے بے دخل نہیں کیا جاتا،2014 اور 2019 دونوں عام انتخاب میں ان سنگھیوں کی اتنی بڑی اکثریتی جیت، یقینا ای وی دھاندلی ہی کے سبب ہوئی ہے یہ ثابت کرنا آسان نہیں ہوگا۔ اس لئے اپنی ماتر بھومی بھارت ماں کے ابھیمان سماں و اسکی ترقی پزیری کے لئے،بھارت ماں کو تنزل پذیر کی طرف لے جاتے ان سنگھیوں سے، دیش کو مکت کرانا ،آج سب سے بڑا پریارٹی والا کام ہے۔ وما علینا الا البلاغ

Comments are closed.