عالم عربی میں ہندوستانی محققین کی پذیرائی_!!

محمد صابرحسین ندوی
[email protected]
7987972043
بات دراصل یہ ہے کہ اہل ہندوستان اور قرب و جوار کے ممالک مرکز اسلامی سے دور ہیں، اور کہتے ہیں کہ دور کے ڈھول سہانے نظر آتے ہیں، چنانچہ ہمیشہ اہل عرب کے سامنے سر نگور ہونے اور ان کے چشم و ابرو کی اتباع کرنے کو ہی اولیت سمجھتے ہیں، حالانکہ کہ سبھی جانتے ہیں: اگرچہ اسلام عالم عرب میں نازل ہوا لیکن قرن اولی کے بعد اس کی سب سے زیادہ آبیاری بالخصوص علمی پرداخت عجمیوں نے کی ہے، صحاح ستہ میں سے اکثر اور ائمہ اربعہ میں اکثر کا تعلق عجم سے ہے، خاص طور پر امام ابو حنیفہ جن کی فقہ کے سامنے سبھی بونے ہیں ان کا تعلق عجم سے ہی ہے، ان عجمیوں میں غیر منقسم اہل ہندوستان کا بھی خاصا کردار ہے، عالم عرب چونکہ اپنی نخوت و غیرت کیلئے مشہور ہے، ان کے سامنے کسی اور کی کوئی حیثیت نہیں؛ اس کے باوجود انہوں طوعا یا کرھا نے ہمیشہ عجمی علماء کی پذیرائی کی ہے، اور ان ہے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے کا موقع بھی پایا ہے، کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے بہت سوں کی تحقیقات و تصنیفات ایسی پیش کی ہیں؛ کہ عرب حیران و ششدر رہ گئے، اور آج تک ان کے نصاب اور رواج کا حصہ ہیں، ذیل میں اسی تعلق سے ایک اہم اقتباس نقل کرتے ہیں، جو استاد گرامی حضرت مولانا سید واضح رشید حسنی ندوی رحمہ اللہ کی کتاب سے ماخوذ ہے، ضرورت ہے کہ اسے پڑھا جائے اور اپنے اندر موجود احساس کہتری کو پسپا کیا جائے، آپ رقمطراز ہیں:
” ہندوستانی علماء نے علوم اسلامیہ میں ایسی ایسی عظیم تصنیفات پیش کی ہیں، جو صدیوں عالم اسلامی اور عالم عربی میں داخل نصاب رہیں، اورہندوستانی مسلمانوں نے بیش کتب خانہ تیار کر دیا، جن علماء عظام نے کتب حدیث کی شروحات لکھی ہیں اور علم حدیث، فقہ اور اصول فقہ میں ان کی تصنیفات کو زبردست مقبولیت حاصل ہوئی ان کی فہرست طویل ہے، اسی کے ساتھ ایسے ایسے نابغہ روزگار ادباء اور محققین بھی ہوئے ہیں، جنہوں نے عربی ادب (نثر ونظم) کی کتابوں کی شرح اور ایسی تحقیقی خدمات انجام دی ہیں؛ کہ عربی ادب کے اسکالروں اور شائقین کو غیر ہندوستانی علماء اور محققین اور متقدمین کی تحقیقات اور شروحات سے بے نیاز کردیا، براکلمان نے اپنی شہرہ آفاق کتاب "تاریخ الادب العربی” میں ایسے متعدد محققین کا تذکرہ کیا ہے، اخیر عہد میں عربی زبان و ادب کے عظیم محقق شیخ عبد العزیز میمنی راجکوٹی (م:۱۹۷۸ء) نے اپنی علمی، تاریخی اور ادبی تحقیقات و تعلیقات اور قیمتی حواشی کی بنا پر عرب ادباء سے خراج تحسین حاصل کیا ہے، عرب ادباء نے ان کی معرکہ آراء کتاب "سمط اللآلی شرح الآمالی” اور "ابوالعالیہ و ماالیہ” کو بحث و تحقیق اور نقد وتمحیص کے میدان میں ٹکسالی نمونہ قرار دیا ہے، پہلی کتاب میں میمنی صاحب نے ابوعبید بکری کے آراء اور قالی پر نقد کی علمی و تاریخی بحث کی ہے، اور دوسری کتاب میں ڈاکٹر طہ حسین کی کتاب "ذکری ابی یعلی” کا مدلل جواب دیا ہے۔
اسی طرح ان کی کتاب "الفائت من شعر ابی العلاء والمتنبی” عالم عربی میں مقبول ہوئی، شیخ سعید انصاری صاحب نے لوئیس شیخو یسوعی کی کتاب "شعراء النصرانیۃ” پر سخت نقد کیا، علامہ شبلی نے جرجی زیدان کی کتاب "تاریخ التمدن الاسلامی” کے بعض مضمون پر سخت مواخذہ کیا، جس کا عالم عربی میں اعتراف کیا گیا، علامہ سید سلیمان ندوی رحمت اللہ علیہ نے اپنی معرکہ آراء کتاب "ارض القرآن” میں عربوں کے علم جغرافیہ میں قیمتی معلومات کا اضافہ کیا، جو تاریخ ادب عربی میں اہمیت کی حامل ہیں، ہندوستا علماء کی بعض تصنیفات کو عربوں میں بڑی پذیرائی ملی، ان کی طباعت و اشاعت کا انتظام ہوا، اور نصاب تعلیم میں شامل کی گئیں، جن دیگر کتابوں کو عالم عربی میں بڑی مقبولیت اور پذیرائی ملی ان میں شاہ ولی اللہ دہلوی کی کتاب "حجۃ الله البالغہ”، علامہ صدیق حسن خاں قنوجی کی تالیفات اور علمائے فرنگی محل شیخ عبدالباری فرنگی محلی اور ابوالحسنات علامہ عبدالحی فرنگی محلی کی تصنیفات ہیں، جو تحقیق و تعلیق کے بعد بڑے پیمانے پر عالم عربی میں طبع ہو کر مقبول ہوئیں”۔ (نظم تعلیم و تربیت:۱۰۰_۱۰۱)
16/10/2019
Comments are closed.