رندوں کو تسلی ہے کہ اس بزم میں تم ہو !

محمد صابرحسین ندوی
[email protected]
7987972043
انسانوں کے جمگھٹے میں انسان تلاش کرنا دراصل نمک کے کان میں مٹھاس تلاش کرنا ہے، جستجو پیہم کیجئے! تو شاید کہیں کوئی ٹکڑا نصیب ہوجائے، انسان بھی اب انسانیت سے خالی، محبت سے عاری اور اپنائیت سے بے نیاز ہے، درد دل اس کے پاس نہیں، اطاعت کا جذبہ کافور ہے، جگر سوزی مر رہی ہے، اور جگر کاوی کا فقدان ہے۔ ان سب سے زیادہ تشویشناک یہ ہے کہ شیطانی صفات کا عروج پایا جاتا ہے، اس میں ملکوتی اور بہیمی خصائص کے اتحاد کے باوجود اس کے اندر شیطان کی علویت، گھمنڈ، تکبر اور برتری کا عجب سانحہ موجود ہے جو تقویت کی طرف گامزن ہے، انسان خواہ ایک معاشرتی زندگی بسر کرتا ہے، معاہدات رکھتا ہے، صلات کا محتاج ہے، صلہ رحمی اس کی سرشت ہے، رشتے اور رشتہ داریاں اس کی جان ہیں، اپنا اور اپنائیت کا وہ پیکر ہے، مگر اکیسویں صدی کی تیز وتند آندھی نے سب ختم کردیا، ایک بے راہ روی اور بداخلاقی و بد ذوقی کا ایسا طومار لگا پڑا ہے؛ کہ ہر اچھائی اس کے نیچے دم توڑتی نظر آتی ہے، اور یہ صدا دیتی ہے:
لٹ گیا آتے آتے قریب چمن
کاروان گل و لالہ و نسترن
غور کیجیے! روشنیاں بجھ رہی ہیں، آفتاب ڈوب رہے ہیں، ستاروں کی جگمگاہٹ دور ہورہی ہیں، مشعلیں ماند ہورہی ہیں اور اندھیرا گہراتا جارہا ہے، بادل گھنے ہوتے جاتے ہیں، اور تاریکی پر تاریکی کا منظر اس قدر ہولناک ہوتا جاتا ہے؛ کہ ہاتھ کو ہاتھ نہیں سوجھتا، دل و دماغ صدمے میں ہیں، حیرانگی کی انتہا نہیں، چنانچہ دوستی بے وفائی بن چکی ہے، محبت دغا یا جسم کی ہوس اور تسکین کا سامان ہوگئی ہے، عریانیت اس کی ترقی اور لباس قدامت بن چکا ہے، سارے اقدار بدل چکے ہیں، کبھی کبھی غور کیجئے! تو ایسا لگتا ہے کہ زندگی یکسر کروٹ لے چکی ہے، اتھل پتھل ہوچکی ہے، زمین و آسمان کی قلابیں ملادی گئی ہیں، اب کچھ بھی پچھلا نہیں؛ بلکہ جس طرح سانپ ایک مدت پر اپنی کیچلی چھوڑ دیتا ہے اور نئے کیچلی کے ساتھ رونما ہوتا ہے، اسی طرح انسان بھی اپنی کیچلی چھوڑ کر کسی اور ہی کھال میں ظاہر ہو چکا ہے، کتابیں کچھ کہتی ہیں انسان کی پیشانی کچھ اور ہی بیاں کرتی ہیں، اخلاقی باتوں سے صفحات سیاہ ہیں لیکم عمل سے زندگی سیای ترین بن چکی ہے، اکابرین کی باتیں ہوا ہوتی جارہی ہیں اور مادیت کا بھوت سر پر سوار ہوتا جارہا ہے، اب جو ہے تو بس خود غرضی اور نفس پرستی کا جن اور اسی کا بھوت!۔
انسانوں کے اس سمندر میں اب تلاطم برداشت نہیں کیا جاتا ہے، یہ ایک جمود پسند اور تعطل پسند سمندر ہے جس نے اپنی فطرت بھی بدل ڈالی ہے؛ لیکن اتنا بھی مایوس نہ ہوں___! ویسے بھی مایوسی مذہبی اور فطری ہر دو اعتبار سے معیوب ہے، چنانچہ اپنے اردگرد نظر اٹھائیے اور دیکھئے! ان سب کے درمیان کچھ ایسے لوگ ضرور ہیں جنہوں نے ان اقدار کو تھامے رکھا ہے، وہ اسلاف کی یادگار، نمونہ روزگار اور دریتیم ہیں، انسانیت ان کی پیشانی سے ٹپکتی ہے، زیرک، سمجھدار اور فطرت کے قریب ہیں، ان سے ملئے تو دل بہل جائے، روح کو سکون میسر ہو اور قلب پر طمانیت طاری ہو جائے، لگے کہ آپ انسان سے مل رہے ہیں، محبت کے پروانوں سے مل رہے، دل اور دل والوں سے مل رہے ہیں، جنہیں دیکھ کر آپ کہہ اٹھیں:
اچھا ہوا کہ تم سے ملاقات ہوگئی
کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ اجالے نہیں رہے
ان شخصیات کو بہ آسانی بھیڑ میں بھی ڈھونڈا جا سکتا ہے، وہ الگ تھلگ تنہا اور فردا نظر آجائیں گے، دور سے بھی وہ انسانیت کے امین اور محبت کا چراغ بن کر آپ کو اور تمام قرب وجوار کو روشن کر رہے ہوں گے، ان کی ہی بنا پر پوری محفل آباد ہوگی، مجلس سجی ہوگی، قحبہ کا لطف ہوگا، ساقی کا ہیمانہ چلے گا، خمار و مستیاں ہوں گی، عہد و وفا ہوں گے، نشان راہ ہوں گے، غبار راہ ہوں گے، دل لگی کا مزہ ہوگا، عشق کے ہچکولے ہوں گے، اور یاری کی مستیاں ہوں گی، ایسا محسوس ہوگا کہ انہیں کے دل نے نظام کائنات میں رنگ چھوڑا ہے، نیرنگی جہاں کے وہ محافظ ہیں، مرکز ہیں، اور وہ ہی ہے جو انسان__ انسان بن کر انسانیت کی لاج رکھے ہوا ہے، دل لگی کیجیے! ان کے پاس بیٹھیے! ان کی صحبت کو غنیمت جانیے! ایسوں کو تلاش کیجیے اور دل کو قرار دیجیے اور اسے سمجھائیے؛ کہ اب اب بھی انسانوں میں ایسے ہیں جو انسانیت اور دیانت کے رکھ والے ہیں_
جس بزم میں صہبا ہو، نہ ساغر ہو، نہ خم ہو
رندوں کو تسلی ہے کہ اس بزم میں تم ہو
7987972043
19/10/2019
Comments are closed.