زندگی کے حادثات پر نگاہ رکھیے__!!

محمد صابرحسین ندوی

[email protected]
7987972043

زندگی خود ایک سبق ہے، کتابیں انہیں اسباق کی تحریری شکلیں ہیں، طباعت کی مشین زیادہ قدیم نہیں؛ لیکن انسانوں کے حکم و امثال کی روایت بہت قدیم ہے، کیونکہ وہ زندگی کو پڑھتے تھے، حادثات اور واقعات کو پرکھتے تھے، شب و روز پڑنے والے مختلف لمحات کو جیتے تھے، ان کا احساس اور احتساب کرتے تھے، شیخ سعدی کو اس سلسلہ میں سب سے زیادہ فوقیت حاصل ہے؛ کہ انہوں نے زندگی سے زندگی کی خوشگواری کا سامان نکالا، نکات و نقاط بیان کئے اور اکرام و اعزاز سے لیکر تخریب و تذلیل تک کی تشریح کردی، بہت معمولی اور سادہ زبان میں وہ انسانوں کو وہ سبق دے گئے جن سے عظیم کتابیں اور ضخیم لائبریریاں قاصر ہیں، حضرت مولانا سیدی علی میاں ندوی رحمہ اللہ بھی اس میدان میں خاصا فوقیت رکھتے ہیں، آپ کے خطبات کا مجموعہ ان حکیمانہ انداز بیان سے بھرپور ہیں۔
دراصل انسانی تعلیمات کا مدار صرف اسکول اور کالجز کو سمجھ لینا بھول ہے، استاذ اور شاگرد بھی اگرچہ علم کی اساس ہیں؛ لیکن علم کا اصل محور قوت فکر اور قوت اخذ ہے، جس انسان کے اندر قوت فکر نہ ہو اور انسانی زندگی کو اسباق کے پیرائے میں سمجھنے کی کوشش نہ کرے، وہ علم کے عظیم سرچشمہ سے محروم ہے، صحیح معنوں میں زندگی اسی سے بنتی ہے، سنورتی ہے اور سنگھار کرتی ہے، سیکھنے کا تسلسل قائم رہتا ہے، ہر عمر اور ہر گھڑی میں تعلیم پاتا ہے، یہاں پر میر ثانی اور درد دل کی پکار پر لبیک کہنے والے شاعر جناب کلیم عاجز صاحب مرحوم کی یاد آتی ہے، جن کا ماننا تھا کہ اصل ہے انسان کا حادثات زندگی پر غور کرنا؛ یہ چیز ایک عام انسان کو مدبر اور مفکر بناتی ہے، انہوں نے اپنے ان احساسات کا اظہار بڑی خوش اسلوبی میں کیا ہے، آپ رقم طراز ہیں:
” میری شاعری کی دنیا میں الفاظ کے علاوہ کوئی چیز مستعار نہیں۔ میں بیس برس پہلے تک مطالعہ کیا کرتا تھا۔ اب مطالعہ بھی نہیں کرتا۔ زندگی تجربات، حادثات کا سلسلہ ہوتی ہے۔ میں زندگی پر گہری نگاہ رکھتا ہوں۔ یہ بات نہیں ہے کہ پچیس سال پہلے ایک حادثے نے دل کا رخ موڑ دیا، اب دل اسی راہ پر ناک کی سیدھ پر چلا جارہا ہے۔ ایسی بات نہیں ہے۔ اس حادثہ نے مجھے چلنا سکھایا، ایک سلیقہ رفتار دیا۔ مستقل طور پر قدم اٹھانے کا ایک ڈھنگ دیا۔ رفتار کا سلیقہ، چلنے کا یہ ڈھنگ میرا اپنا ہے، جس میں میرا کوئی شریک نہیں ہے، نہ میں کسی کو شریک سمجھتا ہوں۔ میر کو بھی چلنے کا ایک ڈھنگ ملا۔ ایک انداز رفتار ملا۔ اس رفتار سے وہ اسی، نوے سال کی زندگی میں نہ جانے کتنے نئے راستوں پر چلے۔ کتنی شاہراہیں، کتنی پگڈنڈیاں ان کے قدموں کے نیچے آئیں۔
مگر وہ ہر شاہراہ پر، ہر راستے پر، ہر پگڈنڈی پر اپنی مخصوص رفتار سے چلتے رہے۔ اور ہر راہ ان کی رفتار کی گل تراشی سے رشک گلزار بنتی گئی۔ مجھے بھی چلنے کا ایک ٹوٹا پھوٹا ڈھنگ وقت نے بخشا۔ یہ چال میری اپنی ہے۔ میں روزانہ کتنی شاہراہوں پر چلتا ہوں۔ زندگی کی رواں دواں ندی تیزی سے گزر رہی ہے۔ اور کتنے نشیب و فراز سے اسے گزرنا اور ابھرنا پڑتا ہے۔ کتنی چٹانوں سے اسے ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں۔ کتنے موڑ سے اسے مڑنا پڑتا ہے۔ مگر اس کی رفتار کی ایک خاص شان ہے جو نہیں بدلتی_ میری زندگی نوع بنوع، تازہ بتازہ تجربات اور محسوسات سے روزانہ گزرتی ہے_ انہیں اپنی آغوش میں سمیٹتی ہوئی اور اپنے سانچے میں ڈھالتی ہوئی آگے بڑھتی ہے:
گل کاریوں سے باز نہ آئے جنوں کی ہم
جس راہ پر چلے اسی رفتار سے چلے
________
مدت ہوئی اک حادثہ دل کو پر اب بھی
پہونچے ہے وہیں بات جہاں سے بھی چلے ہے
(وہ جو شاعری کا سبب ہوا___: ۱۶۶)

20/10/2019

Comments are closed.