Baseerat Online News Portal

بابری مسجد؛ انصاف کے انتظار میں

شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
بابری مسجد کا مقدمہ اِس وقت آخری مرحلہ میں ہے، اور اندازہ ہے کہ نومبر کے دوسرے عشرے میں اس مقدمہ کا فیصلہ آجائے گا، یہ مقدمہ ہندوستان کی تاریخ کا شاید طویل ترین مقدمہ ہے، بابری مسجد مقدمہ کا آغاز دسمبر۱۹۴۹ء میں ہوا،جب ۲۲؍۲۳؍ دسمبر۱۹۴۹ء کی درمیان شب میں ہنومان گڑھی کے مہنت اَبھے رام نے اپنے چیلوں کے ساتھ بابری مسجد میں گھس کر مورتیاں رکھ دیں ،سیٹی مجسٹریٹ کرشن کمار نے مسجد اور اس کے متصل قبرستان کو حکومت کے قبضہ میں لے لیا، اور مسجد میں تالا لگوا دیا، یہاں تک کہ ۶؍دسمبر ۱۹۹۲ء کو دوپہر کی روشنی میں ظلم وجبر کے ساتھ مسجد شہید کر دی گئی، غرض کہ دسمبر ۱۹۴۹ء سے یہ مظلوم مسجد انصاف کے انتظار میں ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اس مسجد کو بابر نے تعمیر کرایا؛ مگر یہ غلط ہے، اس کو بابر کے نام پر اس کے ایک افسر میر باقی نے ۱۵۲۸ء میں تعمیر کرایا تھا، اکبر کو چوں کہ وحدتِ ادیان کا جنون سا تھا؛ اس لئے اس نے اس سے متصل چبوترہ پر رام کی مورتی بنوادی، ۱۹۴۶ء سے پہلے بابری مسجد کے محل وقوع کے سلسلے میں کوئی جھگڑا نہیں تھا؛ بلکہ صرف اس بات کا جھگڑا تھا کہ ہندو اس چبوترہ پر مندر بنانا چاہتے تھے اور مسلمان اس سے روکتے تھے، مارچ ۱۹۸۵ء میں پہلی مرتبہ جب یہ مسئلہ عدالت میں گیا، اس وقت مہنت رگھو یرداس نے عدالت میں درخواست دی کہ رام جی کو سردی، گرمی اور برسات سے بچانے کے لئے چبوترے کو مندر میں تبدیل کرنے کی اجازت دی جائے؛ لیکن ۲۴؍دسمبر ۱۹۸۵ء کو عدالت نے یہ عرضی رد کر دی، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خود ہندو بھائیوں کے یہاں بھی مندر کے انہدام اور مسجد کی تعمیر کا خیال پہلے نہیں پایا جاتا تھا؛ لیکن آہستہ آہستہ اصل مسجد پر دعویٰ کیا جانے لگا۔
بابری مسجد کے مسئلہ کو تین پہلوؤں سے سمجھنے کی ضرورت ہے: مذہبی، تاریخی اور قانونی،—- مذہبی پہلو سے ہمیں ہندوؤں اور مسلمانوں دونوںکے نقطۂ نظر کو جاننا چاہئے، جہاں تک ہندو فریق کی بات ہے تو ہندو بھائیوں کی مذہبی کتابوں میںشری رام جی کے ایودھیا میں پیدا ہونے کا ذکر نہیں ملتا، نہ اس کا ذکر بالمیکی کی راماین میں ملتا ہے اور نہ تلسی داس کی رام چرتر مانس میں، آر ایس شرما لکھتے ہیں:
’’ وشنو سمرتی میں ۵۲؍ زیارت گاہوں کا ذکر ہے، جن میں قصبات، جھیلیں، دریائیں، پہاڑ وغیرہ شامل ہیں؛ مگر اس فہرست میں ایودھیا کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے، تلسی داس جنھوں نے اودھ پوری میں ۱۵۷۴ء میں رام چرتر مانس لکھی، انھوں نے بھی اس میں ایودھیا نام کی کسی زیارت گاہ کا ذکر نہیں کیا، جب کہ پریاگ کو تمام تیرتھ استھانوں کا راجہ یعنی تیرتھ راج کہاجاتا ہے‘‘
ظاہر ہے کہ اگر ایودھیا شری رام جی کی جائے پیدائش ہوتی تو ضرور ہندو مذہبی کتابوں میں اس کی زیارت کی ترغیب دی گئی ہوتی، اس سے ظاہر ہے کہ بعد کو سیاسی مقصد کے لئے اس طرح کی باتیں گھڑی گئی ہیں۔
اسلامی نقطۂ نظر سے بھی یہ بات ناقابل قبول ہے؛ کیوں کہ فقہاء نے لکھا ہے کہ غصب کی ہوئی زمین پرنماز پڑھنا جائز نہیں؛ اگرچہ نماز ادا ہو جاتی ہے؛ لیکن مغصوبہ زمین پر نماز ادا کرنے والا گنہگار ہے، اور ظاہر ہے کہ مسجدیں ثواب کے لئے تعمیر کی جاتی ہیں نہ کہ گناہ کے لئے، تو کوئی مسلمان کیسے ایک زمین غصب کر کے اس پر مسجد تعمیر کر سکتا ہے؟
اگر تاریخی پہلو سے دیکھا جائے تو کئی نکات قابل غور ہیں:
اول یہ کہ کیا رام جی کا حقیقی معنوں میں وجود تھا یا یہ محض ایک افسانوی نام اور علامتی کردار ہے؟ کیوں کہ رام جی سے وابستہ جو تاریخ ہندو مذہبی کتابوں میں بیان کی گئی ہے، اس کے توہماتی اور دیومالائی ہونے میں کسی حقیقت پسند شخص کو شبہہ نہیں ہو سکتا؛ اس لئے بہت سے ہندو دانشوروں کا بھی خیال ہے کہ رام جی کی حیثیت ایک افسانوی کردار کی ہے ہے نہ کہ حقیقی شخصیت کی، A Weber Das رام کی پوری کہانی کو آریہ تہذیب کے ارتقاء کا استعارہ مانتے ہیں اور رَاون سے جنگ والے حصے کو یونانی ادب کے مشہور شاعر ہومر (۱۰۰۰ ق م) کے ادب سے ماخوذ مانتے ہیں (مضمون: ثناء اللہ علیگ، افکار ملی، بابری مسجد نمبر)، جے ٹی وہیلر نے رامائن کو برہمن ازم اور بودھ دھرم کے ٹکراؤ کا مظہر قرار دیا ہے، دنیش چند سین بھی یقین کرتے ہیں کہ راماین کے مصنف بالمیکی نے بودھوں کے بھکشوطرز زندگی کے رد عمل میں برہمن طریقۂ زندگی کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے (حوالۂ سابق) زبان وادب کے مشہور عالم ڈاکٹر سینتی کمار چٹرجی کا کہنا ہے کہ ’’ رام جی کی تاریخی حیثیت قدیم ہندوستان کے کسی بھی سنجیدہ طالب علم کو اپیل نہیں کرتی‘‘ (حوالۂ سابق) یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ فادر کامل بلکے نے ویدک لٹریچر میں راماین کی کہانی کی موجودگی سے صاف انکار کیا ہے، انھوں نے لکھا ہے کہ:
’’ ویدک زمانہ میں راماین لکھی گئی تھی، یا رام کی شخصیت سے متعلق داستانیں مشہور ہو چکی تھیں، اس کا اشارہ ویدک لٹریچر میں کہیں بھی نہیں پایاجاتا، کئی تاریخی شخصیات کے نام رامائن کے کرداروں کے ناموں سے ملتے ہیں، اس سے اتنا ہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ یہ نام قدیم زمانہ میں مستعمل تھا‘‘۔
دستور ہند کے مدون ڈاکٹر امبیڈکر بھی رام کو ایک افسانوی کردار میں مانتے ہیں اور چوں کہ رامائن کے بیان کے مطابق انھوں نے برہمنوں کو خوش کرنے کے لئے ایک شودر کو قتل کر دیا تھا؛ اس لئے وہ اس فرضی کردار کو بھی ناپسندیدہ نظر سے دیکھتے ہیں، ہندوستان کے بعض بڑے سیاسی قائدین جیسے کروناندھی وغیرہ کا بھی بیان آچکا ہے کہ رامائن میں فرضی کردار پیش کیا گیا ہے، غرض کہ کئی غیر مسلم دانشوروں کا بھی خیال ہے کہ شری رام جی کا حقیقی وجود نہیں تھا۔
بعض لوگوں نے رام جی سے وابستہ واقعات کو ایک دوسری نظر سے دیکھا ہے؛ چنانچہ مسٹر ملاوی وینکٹ رتنم سابق وائس چانسلر گورنمنٹ ٹریننگ کالج راج مندری کی رائے ہے کہ’’ رام جی کا جو واقعہ رامائن میں نقل کیا گیا ہے، وہ مصر کے بادشاہ رعمیسس (۱۲۹۲– ۱۲۲۵ق م) کا ہے، جس کا لقب فرعون ہوا کرتا تھا، ان کا خیال ہے کہ رام ہندی الاصل لفظ نہیں ہے؛ بلکہ یہ سامی زبان کا لفظ ہے، جو مصر وغیرہ کے علاقہ میں بولا جاتا تھا‘‘، یہ بات جناب ثناء اللہ صاحب نے ان کی کتاب Ram the Greatest کے حوالہ سے نقل کیا ہے، جو ۱۹۳۴ء کی مطبوعہ ہے، ویسے آج بھی فلسطین کا ایک مشہور شہر’’ رام اللہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے، اس نقطۂ نظر کے مطابق شری رام جی ایک شخصیت تو تھے؛ لیکن ان کا تعلق مصر سے تھا، اور ان کے واقعات کو ہندوستان میں افسانوی انداز پر مرتب کیا گیا ہے۔
۰ اگرچہ رام جی کی شخصیت پر کوئی تاریخی ثبوت پیش کرنا مشکل ہے، اور راسخ العقیدہ ہندو بزرگوں کے بیان کے مطابق ان کا زمانہ ما قبل تاریخ کا ہے؛ اس لئے تاریخ میں اس کا ثبوت ملنا بھی دشوار ہے؛ تاہم اگر کروڑوں ہندو بھائیوں کی آستھا کی بنیاد پر مان لیا جائے کہ شری رام جی کا ایک تاریخی وجود ہے، تب بھی یہ سوال باقی رہتا ہے کہ کیا ان کی پیدائش ایودھیا میں ہوئی تھی؟ کیوں کہ اس میں بھی اختلاف ہے؛ چنانچہ مشہور تاریخ داں پروفیسر شرما لکھتے ہیں:
’’ کوئی بھی تاریخ داں اس بات کو ثابت نہیں کر سکتا کہ ایودھیا بھگوان رام کا پیدائشی مقام ہے؛ کیوں کہ یہ واقعہ چار ہزار سال قبل کا ہے، اور کوئی بھی حتمی ثبوت اس سلسلہ میں دستیاب نہیں ہے۔ (ایودھیا کے اسلامی آثار، مولانا حبیب الرحمن اعظمی:۱۰۷)
اور اگر مان لیا جائے کہ ایودھیا ہی میں پیدائش ہوئی تو سوال یہ ہے کہ ایودھیا سے کون سا شہر مراد ہے؛ کیوں کہ اس میں بھی اختلاف ہے، چند سال پہلے آثار قدیمہ کے ڈپٹی سپریڈنٹ ایم وی این کرشنا راؤ نے انکشاف کیا ہے اور ثبوتوں کی بنیاد پر دعویٰ کیا ہے کہ اصل ایودھیا ہریانہ کا مقام’’ بناؤلی‘‘ ہے (قومی آواز دہلی، ۶؍مارچ ۱۹۹۸) واضح ہو کہ مسٹر راؤ آثار قدیمہ کے ماہرین میں سے ہیں، رام پور کے ایک پنڈت جی کا دعویٰ ہے کہ رام جی کی پیدائش کی اصل جگہ رام پور ہے، اور اس سلسلہ میں میں ان کے پاس ثبوت موجود ہیں، اسی طرح ڈاکٹر دین بندھو تیواری اپنے ایک مضمون میں رقمطراز ہیں:’’(والمیکی راماین میں) متذکرہ حقائق کے مطابق اصل ایودھیا کو گنگا سرجو کے مقام اتصال سے ۴۰- ۵۰؍ کیلو میٹر کے مابین شمال مشرقی جانب میں کہیں واقع ہونا چاہئے؛ لیکن موجودہ ایودھیا (فیض آباد کی اجودھیا) متذکرہ مقام اتصال سے ۱۵۰؍ کیلو میٹر سے بھی زیادہ دوری پر واقع ہے‘‘ ( ہفت روزہ ہندوستان : ۴؍اکتوبر ۱۹۹۲ء صفحہ: ۱۹)
اسی طرح درگا پرساد گپت رقمطراز ہیں:
’’ گہرائی سے چھان بین کرنے کے بعد یہ بات مخفی نہیں رہتی کہ موجودہ ایودھیا رام کے دور کی ایودھیا کی باقیات نہیںہیں؛بلکہ ہزاروں سالوں بعدکی نئی تعمیر شدہ ایودھیائے اصغر ہے، جس کے تمام مناظر نئے اور خیالی ہیں، یہ کسی بھی طور سے ثابت نہیں ہوتا کہ اس قدر محدود رقبہ میں ایودھیا جیسی عظیم اور تاریخی نگری واقع رہی ہوگی (بلیا اور اُس کے نواسی)
بعض ہندو آثار قدیمہ کے ماہرین کی رائے ہے کہ ایودھیا کے نام سے دو شہر بسائے گئے ہیں، ایک کو رام جی کے پردادا راجہ رگھونے آباد کیا تھا، جو پاکستان کے صوبہ پختون خواہ ضلع اسماعیل خان میں ہے اور اسے آج کل رحمن ڈیری کہا جاتا ہے، اور دوسرا قدیم شہر ہڑپہ ہے، یہ بھی ڈیرہ اسماعیل خان میں واقع ہے (دیکھئے ایودھیا کا تنازعہ، تالیف: جناب محمد عبدالرحیم قریشی: ۵۷ – ۶۰) یہ تحقیق مصنف نے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے جسو رام کی کتاب’’ رامائن کا قدیم جغرافیہ‘‘ سے نقل کیا ہے، نالندہ سنسکرن جو لگ بھگ ۳۰۰؍ قبل مسیح کا گرنتھ ہے، اس میں ایودھیا کو گنگا ندی کے کنارے بسا ہوا دکھایا گیا ہے، جس کا فیض آباد ضلع میں سرجو ندی کے کنارے بسی ہوئی ایودھیا سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے (بابری مسجد شہادت سے قبل، مضمون: شہلا نواب، مطبوعہ: ۲۰۰۳ء) غرض کہ جس ایودھیا کا ذکر ہندو مذہبی کتابوں میں آیا ہے، کیا یہ وہی ایودھیا ہے، جہاں شری رام جی پیدا ہوئے تھے؟ اس میں بھی خاصا اختلاف ہے۔
۰ اگر ایودھیا وہی جگہ ہے جو اس وقت ’’ایودھیا ‘‘ کہلاتی ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ اس شہر میں رام جی کی پیدائش کس جگہ پر ہوئی؟ کیوں کہ اس وقت ایودھیا میں تقریباََ نو دس ایسے مندر موجود ہیں، جن کے متعلق ان مندروں کے متولیوں کا دعویٰ ہے کہ یہی رام جی کی جائے پیدائش ہے، پروفیسر سری واستو نے لکھا ہے کہ ۱۹۰۲ء میں رام جی کی اصل جائے پیدائش معلوم کرنے کے لئے باضابطہ ایک کمیٹی کی تشکیل عمل میں آئی، اس کمیٹی نے کافی تلاش وجستجو کے بعد دو مقامات کے بارے میں اندازہ لگایا کہ شاید یہ رام جی کی جائے پیدائش ہو، ان میں سے ایک کا نام ’’ رام جنم استھل‘‘ رکھا، اور دوسرے کا ’’ رام جنم بھومی‘‘(Disputedmosque ) ، یہ دونوں جگہیں بابری مسجد کے علاوہ ہیں، بابری مسجد کے محل وقوع کے رام جی کی جائے پیدائش ہونے کا ذکر مفسد اور تفرقہ انداز انگریزوں سے پہلے نہ کسی تاریخ اور سفر نامہ میں ہے اور نہ ہندو بھائیوں کی مذہبی کتابوں میں۔ (جاری)

(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.