بچوں کی تعلیم و تربیت اور گھر و معاشرے کی تعمیر میں خواتین کا کلیدی کردار

(خطاب: حضرت مولانا مفتی محمد اشرف صاحب قاسمی)

[بمقام: دَتیا (ایم پی)، مورخہ: 11؍ اکتوبر 2019ء بروز جمعہ]

الحمد للہ رب العلمین والصلوۃ والسلام علی رسولہ محمد وعلی آلہ واصحابہ اجمعین، امابعد
قال اللہ تعالی: _اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم_
ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ فمن حج البیت او اعتمر فلاجناح عليه ان یتطوف بھما.
وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:
من عال ثلاث بنات فادبھن وزوجھن واحسن الیھن فله الجنة.
صدق اللہ العظیم وصدق رسوله النبی الکریم.

معزز سامعین!
درود پاک پڑھیں۔۔۔۔۔۔

(۔۔۔۔میزبانوں اور منتظمین کے لئے تہنیت وتبریک کے کلمات)

اسلام نے عورت مرد دونوں کو تعلیم حاصل کرنے کا حکم فرمایا ہے۔
طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم.
اسلام میں تعلیم کی اہمیت کے پیش نظر تعلیم پر سب سے زیادہ خرچ کرنے کا تصور (Concept) ہے۔
قریش کی پنچایت نے مدینہ پر حملے کا پروگرام بنایا تھا، جس کے اخراجات کے لئے یہ طے ہوا تھا کہ اس سال تجارتی قافلہ کی ساری آمدنی مدینہ پر حملہ کے لئے استعمال ہوگی۔ جب جنگ (غزوہ بدر)ہوئی تو اس میں قریش کو شکست ہوئی۔ اس موقع پر
غزوہ بدر کے قیدیوں کا فدیہ 8000 ہزار درہم طے ہوا تھا۔ جو لوگ فدیہ دینے کی پوزیشن میں نہیں تھے، تو قریش کے منصوبۂ جنگ کے مطابق اس تجارت کے پنچائتی خزانے سے ان کا فدیہ ادا ہوسکتا تھا؛ لیکن تعلیم کی اہمیت کے پیش نظر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما یا کہ:
"تم میں جو لوگ پڑھے لکھے ہیں ان کا فدیہ یہ ہے کہ وہ ہمارے دس بچوں کو پڑھنا لکھنا اور جوڑنا گھٹانا سکھا دیں۔”
یہ پڑھائی درجہ اول (1st Standard) میں صرف دو مضامین (Subjects) کے آدھے سے بھی کم ہے۔
اس وقت درہم کے مقابلے دینار کی قیمت کم تھی؛ اس لئے اگر اس وقت کی کم قیمت والی مالیت (دینار) کی آٹھ ہزار مقدار کو آج ہم روپیوں میں تبدیل کریں تو دو کروڑ روپیہ بنتا ہے۔
یعنی ایک بچہ کی پہلی کلاس کے دو مضامین پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس لاکھ روپیہ خرچ فرمایا۔
اگر دینار کے بجائے درہم ہی کو آج روپیوں میں تبدیل کریں تو بھی اس مقدار چاندی کی قیمت بیس لاکھ روپیہ ہوتی ہیں۔ ایک بچہ کی فیس دولاکھ روپیہ ہوئی۔
آج اعلی تعلیم (Highest Education) پر بھی اتنا روپیہ صرف نہیں ہوتا ہے جتنا حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اول کلاس کے صرف دو مضامین کے لئے خرچ فرمایا ہے۔
اور یہ خرچ فراخی کے عالم میں نہیں کیا؛ بلکہ فاقہ کشی کے دور میں کیا۔ جب کھانے، پینے، پہنے رہنے کی دشواری تھی۔ رہنے کے لئےمکان نہیں تھے۔ مسجد نبوی چھپر کی تھی۔ انتہائی غربت و افلاس اور عسرت کے عالم میں اتنی خطیر رقم تعلیم پر خرج فرماکر مسلمانوں کے اندر تعلیم پرخرچ کا جذبہ و تصور پیدا کیاگیا۔
یہ تو تعلیم کے لئے لڑکی اور لڑکے کی تفریق کے بغیر اسلام کا عام حکم اور تصور ہے ۔

لیکن اسی کے ساتھ لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کے لئے مستقل ہدایات وفضائل ہیں۔
ہم نے جو حدیث تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ اس طرح ہے:
"جس کے یہاں تین لڑکیاں ہوں، اور وہ ان کی اچھی تعلیم وتربیت کرے اور بڑی ہونے پر ان کی شادی کردے، اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو اس کے لئے جنت ہے۔”
ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
"جس کے کوئی لڑکی پیدا ہو اور وہ اسے زندہ درگور نہ کرے اور نہ ہی اس کی بے عزتی کرے، اور نہ اپنے لڑکے کو اس پر ترجیح دے (کہ لڑکے کے لئے اچھے کھلونے، اچھے لباس، اچھے کھانے پینے کا انتظام کرے اور لڑکی کو نظر انداز کرے؛ جو کہ غلط ہے۔ اس سے بچنا ضروری ہے۔) تو اللہ تعالی اسے جنت میں داخل فرماے گا۔”
لڑکوں ولڑکیوں یعنی صنف قوی اور صنف ضعیف دونوں کو تعلیم کی ہدایت کے ساتھ ہی بچیوں کی تعلیم کے لئے مستقل ہدایت وترغیب دی گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تعلیم یافتہ خواتین اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت اور گھر، خاندان، معاشرہ کی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار کی حامل ہوتی ہیں۔ خاص طور سے بچوں کی تعلیم و تربیت میں ماؤں کا بہت ہی اہم کردار ہوتا ہے؛ اسی لئے مرد پر بچوں کا پہلا حق یہ لازم کیاگیا ہے کہ وہ دل پھینک عاشق بن کر شادی نہ کرے، بلکہ شادی کے وقت خاتون کی دین داری اور بچوں کی تربیت کی اہلیت بھی دیکھے۔ یعنی اسلام بچوں کو پیدا ہونے بلکہ ماں باپ کی شادی سے قبل ہی (Right to children) کے طور پر یہ لازم قرار دیتا ہے کہ مرد یعنی باپ ایسی خاتون سے شادی کرے جو بچوں کی تعلیم و تربیت بہتر ڈھنگ سے انجام دے سکے۔
بچوں کی تعلیم وتربیت میں ماں کا کردار کتنا اہم ہوتا ہے؟ آپ حضرت ہاجرہ اورحصرت اسماعیل علیہما السلام کے واقعہ سے سمجھیں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے حکم سے حضرت ہاجرہ اور شیر خوار حضرت اسماعیل علیہما السلام کو بے آب و گیاہ مقام پر چھوڑدیتے ہیں۔ اس موقع پر جب حضرت ہاجرہ کو معلوم ہوا کہ اللہ کے حکم سے اس مقام میں چھوڑ رہے ہیں۔ تو انہوں نے انکار نہیں کیا۔ جب کہ بظاہر آزمائش حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تھی۔ وہ انکار کرسکتی تھیں۔ اللہ کی رضا کے لئے اپنے شوہر کو کوآپریٹ ( Co’oprat) فرمارہی ہیں۔
مادی لحاظ سے اس واقعہ میں بچے اسماعیل علیہ السلام کی تربیت مقصود تھی؛ کیوں کہ ہر طرف مشرکانہ ماحول تھا۔ اس ماحول سے نکال کر نیچرل ایڈ موس فیئر (Natural Admostfair) اور ماحول میں ان کی تربیت کے لئے ہاجرہ علیہا السلام جیسی باہمت خاتوں کا انتخاب کیا گیا ہے۔
اس مقام پر جب توشہ پانی ختم ہوگیا اور شیر خوار حضرت اسماعیل علیہ السلام پیاس کی شدت سے بے قرار ہوگئے تو بچے کو پلانے کے لئے پانی کی تلاش میں ایک پہاڑی سے دوسری پہاڑی پر دوڑیں اور پھر معجزہ کے طور پر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ایڑیوں کی رگڑ سے پانی کا چشمہ جاری ہوا۔
جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کچھ بڑے ہوگئے، دوڑ دھوپ کرنے لگے۔
فلما بلغ معہ السعی، قال یا بنی انی اری فی المنام انی اذبحک فانظر ماذا تری.؟
تو ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ وہ اسماعیل کو ذبح کر رہے ہیں۔ انبیاء کرام کے خواب بھی وحی اور حکم الہی ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اسماعیل سے ذبح ہونے کے لئے تیار ہونے کا حکم کرنا چاہیے تھا؛ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کے بجائے ان سے راے مانگی۔ جواب میں کوئی راے دینے کے بجائے فورا اللہ کے راستے میں ذبح ہو نے کے لئے تیار ہوگئے۔
اس طرح فورا اللہ کے راستے میں جان دینے کے لئے تیار ہو جانا۔ چھری کے نیچے لیٹنے میں پس و پیش نہ کرنا معمولی بات نہیں ہے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام جس طرح اللہ کے راستے میں ذبح ہونے کے لئے تیار ہوگئے۔ اس پر اس شعر کو بارہا سنا ہوگا کہ۔ ع

*یہ فیضانِ نظر تھا یا مکتب کی کرامت تھی*
*سکھاے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی*

یعنی اس طرح اسماعیل علیہ السلام جو خدا کی راہ میں قربان ہونے کے لئے تیار ہوگئے اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت ابراہیمؑ نبی تھے، اسماعیلؑ پر نبوت کی نظر پڑی ،تو نظر نبوت کی تاثیر سے اللہ کے راستے میں قربان ہونے کے لئے فورا تیار ہوگئے۔
ہمارا ایمان ہے کہ نبوت کی نظر سے انسان کی سوچ بدل سکتی ہے۔ زندگی تبدیل ہوسکتی ہے۔انبیاء عظام اور اولیاء کرام کی محبت بھری نگاہیں انسان کو کہیں سے کہیں تک پہونچا سکتی ہیں۔ اس پر ہمارا ایمان ہے۔
لیکن اس مادی دنیا میں اگر عقلی طور پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اسباب کے درجے میں حضرت ہاجرہ علیہا السلام کی تعلیم وتربیت کا اثر تھا کہ بیٹا اللہ کے راستے میں اس قدر خوش دلی کے ساتھ قربان ہونے کے لئے تیار ہوگیا۔ پتہ چلا کہ مائیں اگر صبر کرنے والی اور باہمت ہوں گی تو بچے بھی صبر کرنے والے اور باہمت ہوں گے۔ اللہ کو راضی کرنے کے لئے بڑی سے بڑی مصیبتیں ان کے لئے آسان ہوں گی۔
ہم نے جو شروع میں آیت تلاوت کی تھی اس آیت میں حضرت ہاجرہ کے اسی صبر و استقامت کو یاد دلانے کے لئے قیامت تک آنے والے تمام قافلہ انسانی خاص طور پر حج و عمرہ کا سفر کرنے والوں کے لئے صفا و مروہ کو آیت الہی بنایا دیا گیا۔
اللہ نے آسمان، چاند، سورج، ستارے، سمندر اور پہاڑ بہت سی چیزوں کو اپنی پہچان کی نشانی اور آیت قرار دیا ہے؛ لیکن حج و عمرہ کے موقع پر صفا و مروہ کی ان دو چھوٹی پہاڑیوں کو نام لے کر اپنی نشانی قرار دیا ہے۔
جب کہ ان سے بڑے بڑے پہاڑ دنیا میں موجود ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے ان پہاڑیوں سے پہاڑ جیسی ہمت والی ایک صابرہ خاتون کا واقعہ جُڑا ہوا ہے۔ تاکہ اللہ کی رضا کے لئے ان پہاڑیوں پر دوڑنے والی خاتون ہاجرہ کو دیکھ کر بعد میں آنے والے لوگ خاص طور سے خواتین اسی طرح صبر کرکے اپنے بچوں کی تعلیم وتر بیت میں اپنا کردار ادا کریں۔
۔جس طرح اللہ کے لیے اس پریشان کن مقام پر ٹھہر کر ہاجرہ اپنے بچے کی خاطر پانی کے لئے دوڑیں اور پھر ان کی صبر وتربیت کے نتیجے میں اسماعیل (علیہما السلام) راہ خدا میں ذبح ہونے کے لئے تیار ہوگئے۔
اس طرح خدا کے راستے میں قربانی دینے کی ہمت رکھنے والے ہمیشہ، اکثر وہی بچے ہوں گے جن کی مائیں باہمت ہوں گی۔ جن کی مائیں بہادری کے ساتھ صابرانہ زندگی گزار کر اپنے بچوں کی تربیت کریں گی۔
تمام بہادر جوانوں کی بہادر ماؤں کی آئیڈیل حضرت ہاجرہ ہیں۔ اس طرح صبر کر کے جو مائیں اپنے بچوں کی تربیت کرتی ہیں۔ ان کے بچے دین کے داعی، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپاہی بنتے ہیں۔

میں نے شروع میں جو آیت تلاوت کی تھی اس کا ترجمہ یہ ہے کہ:
"یقینا صفا اور مروہ دونوں پہاڑیاں اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں”
یہ نشانیاں بچوں کی تربیت میں خواتین کے کردار کو بھی بتاتی ہیں۔

*یہیں سے ایک دوسری مثال دیکھیں!*

حضرت اسماعیل علیہ السلام کی شادی ہونے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے فرزند ارجمند سے ملاقات کے لئے تشریف لے گئے، اتفاقا گھر پر حضرت اسماعیل علیہ السلام نہیں تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بہو سے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ وہ شکار کے لئے گئے ہوے ہیں ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بہو سے معلوم کیا کہ گزر بسر کیسے ہوتا ہے۔ تو بہو نے گھر کی پریشانی ذکر کرتے ہوے عسرت و افلاس اور تنگی کی شکایت کی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ:
"جب اسماعیل آئیں گے تو ان سے میرا حلیہ بیان کرکے میرا سلام کہنا اور کہنا کہ اپنے گھر کی چوکھٹ بدل دیں”
شام کو جب حضرت اسماعیل علیہ السلام گھر واپس آے۔ تو زوجہ محترمہ نے آنے والے بزرگ کی تفصیل بیان کرتے ہوے ان کا سلام کہا اور بتایا کہ وہ بزرگ کہہ گئے ہیں آپ اپنی چوکھٹ بدل دیں۔”

ہماری مائیں اور بہنیں بہت دھیان سے سنیں۔ یہ بخاری شریف کی روایت سنا رہا ہوں ۔

حضرت اسماعیل علیہ السلام نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا کہ وہ میرے ابو جان تھے۔ وہ کہہ گئے ہیں کہ میں تم کو طلاق دے کر دوسری شادی کرلوں”

ہماری بہنیں اپنے شوہروں کے گھروں میں (جو کہ آپ کا بھی گھر ہے، وہاں) پیش آنے والی چھوٹی چھوٹی پریشانیوں کو دوسروں سے بیان کردیتی ہیں ۔اور اس کو چھوٹا سمجھتی ہیں۔ جب کہ یہ اتنی بری بات اور بڑی کمزوری ہے کہ اس سے گھر اجڑ جاتا ہے۔
یہاں زوجہ محترمہ نے بظاہر کوئی بڑا جرم نہیں کیا؛ لیکن گھر کی مشکلات پر صبر کرنے کے بجائے باہر کسی سے بیان کردیا، اس وجہ سے ایک بڑے نبی نے انہیں دوسرے نبی کی زوجیت سے خارج کرنے کی ہدایت دی اور دوسرے نبی نے انہیں اپنی زوجیت سے خارج کردیا؛ اس لیے میری بہنوں اور بیٹیوں اپنے گھر یعنی سسرال کی پریشانیوں کو دوسروں سے مت بیان کیا کرو، صبر کیا کرو۔

حضرت اسماعیل علیہ السلام نے دوسری شادی کرلی، پھران کے ابو جان یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام ان سے ملاقات کے لئے تشریف لے گئے تواتفاق کی بات کہ پھر حضرت اسماعیل علیہ السلام گھر پر نہیں تھے۔ بہو نے آنے والے بزرگ مہمان کا اکرام کیا۔ مہمان حضرت ابراہیم علیہ السلام نے گذر اوقات کے بارے میں پوچھا تو بہو نے گھر کی پریشانی بیان کرنے کے بجائے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوے کہا کہ جس حال میں بھی اللہ رکھے اس کے فیصلے پر ہم راضی ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام رخصت ہوتے وقت بولے کہ اسماعیل واپس آئیں تو ان سے میرا سلام کہنا اور کہنا کہ وہ اپنی چوکھٹ نہ بدلیں ۔
شام کوحضرت اسماعیل علیہ السلام جب واپس آے تو زوجہ محترمہ نے آنے والے مہمان کا واقعہ بیان کیا۔ اور ان کا سلام وپیام پیش کیا۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام نے سلام کا جواب دے کر فرمایا کہ:
"وہ میرے ابو جان تھے۔ اور چوکھٹ تم ہو۔ وہ کہہ گئے ہیں کہ تم کو میں طلاق نہ دوں، بلکہ اپنی زوجیت میں باقی رکھوں۔”

دیکھیے! گھر کی پریشانی کو باہر نہیں بیان کیا اور صبر کیا تو ایک نبی نے ان کو نبی کی زوجیت میں باقی رکھنے کی ہدایت دی اور وہ نبی کی زوجیت میں رہنے کی سعادتوں سے مالا مال ہوئیں۔

بات یہیں ختم نہیں ہوتی ہے، بلکہ اسی خاتون کے بطن مبارک سے جو نسل چلی اسی سے خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لاے۔ قریش اور اطراف سے تقریبا ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کی باہمت جماعت کھڑی ہوئی، ان میں اکثریت اسی نسل سے تھی۔
پتہ یہ چلا کہ جب خواتین با ہمت اور صابرہ و شاکرہ ہوتی ہیں تو ان کی کوکھ سے عظیم ہستیاں آور باہمت قومیں جنم لیتی ہیں۔
جب کہ بے صبری عورت کی کوکھ سے باحوصلہ افراد اور بہادر قومیں جنم نہیں لیتی ہیں۔ اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی پہلی بہو جو کہ مشکلات پر صبر نہیں کرسکی تھیں ان کو طلاق دینے کاحکم فرمایا۔ اور دوسری بہو صابرہ وشاکرہ تھیں۔ ان کو اسماعیل علیہ السلام کی زوجیت میں باقی رکھنے کی ہدایت فرمائی۔
یہ بخاری شریف کی روایت ہے جس کا خلاصہ میں نے پیش کیا ہے۔
*میری بہنو!*
اگر تم یہ چاہتی ہو کہ تمہاری گود میں پلنے والے بچے بہادر بنیں، دین کے داعی بنیں، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپاہی بنیں۔ تو سب سے پہلے تم کو صابرہ وشاکرہ اور باحوصلہ بننا ہوگا۔

عورتیں بڑی سے بڑی تحریکوں کی خشت اول ہوتی ہیں، اس لئے بھی عورتوں کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔

آگے بڑھیں تاجدار مدینہ، شہنشاہ دو جہاں، سپہ سالار بدروحنین، فاتح مکہ، خاتم النبین حضرت محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھیں۔
آپ کو پیدائش کے بعد باپ کے بجائے ماں کی گود ملی۔
اس ماحول میں اور اس عمر میں حضرت آمنہ دوسری شادی کرسکتی تھیں؛ لیکن من جانب اللہ عالم انسانیت کو فطرت کا یہ قانون بتایا گیا کہ بڑوں کی مائیں صابرہ ہوتی ہیں، جو خواتین اپنے بچوں کے لئے بڑی سے بڑی قربانی دیتی ہیں ان کے بچے بڑے عظیم انسان بنتے ہیں۔
اگر تم یہ چاہتے ہو کہ تم کو بہادر لیڈر ملیں۔ بہتر قائد ملیں، تو ضروری ہے کہ تم اپنی خواتین کو صابرہ وشاکرہ بناؤ، صابرہ وشاکرہ خواتین کی گود میں پلنے والے بچے بہادر، بے باک، نڈر، قائد اور لیڈر بنتے ہیں۔

اور آگے بڑھیں تو دیکھیں کہ خاتم النبین کی زوجیت میں کتنی سمجھ دار اور صابرہ خواتین آتی ہیں۔ مثلا پہلی زوجہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ یہ بہت ہی ذہین بیوہ خاتون تھیں۔ بہت بڑی تاجر تھیں۔ ہر قسم کی سامان زندگی ان کو میسر تھی۔
جب حضرت جبرئیل علیہ السلام سب سے پہلی وحی لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آے اور پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھبراہٹ اور بے چینی کی صورت پیش آئی تو اس موقع پر اگر مکہ کی طرف رخ کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک آواز لگا دیتے تو پورا مکہ آپ کی مدد کے لئے کھڑا ہوجاتا؛ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا، بلکہ سیدھا اپنے گھر میں پہنچے اور حضرت خدیجہ سے واقعہ بیان کیا۔ زملونی زملونی کی آواز پر سب سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا مدد کے لئے کھڑی ہوئیں۔ جب افاقہ ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی کے لئے جو کلمات انہوں نے کہیں وہ مستقل ایک تقریر اور موضوع ہے۔
بعد میں اپنے ساتھ ورقہ ابن نوفل کے پاس لے گئیں۔
وہاں معلوم ہوا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا معاملہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آزمائشوں کا دور شروع ہونے والا ہے۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا صرف ایک نارمل خاتون تاجر نہیں تھیں، بلکہ قریش کی جو عالمی تجارتی تنظیم ۔W.T.O تھی۔ اس کی ایسی رکن اور ممبر تھیں کہ آپ کو ویٹو کا پاورحاصل تھا۔ اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے مکہ کے بڑے سے بڑے سردار پر تفوق، برتری اور اونچا رتبہ رکھتی تھیں۔
جب حالات آے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقاطعہ بائکاٹ ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل خانہ کے ساتھ شعب ابی طالب میں محصور ہوگئے، ابھی تک ناز و نعم میں زندگی گزارنے والی خاتون خدیجہ پوری طرح صبر واستقامت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں یہ مصیبت کے دن گزار رہی تھیں۔ روایتوں میں آتا ہے کہ خوراک نہ ملنے کی وجہ سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا لاغر ہوگئی تھیں اور ان کی نسیں سیاہی مائل ہوگئی تھیں۔ انہوں نے اپنی دولت کے سمندر کوحضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں بہادیا؛ لیکن صبر کا دامن نہیں چھوڑا ۔
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت خدیجہ کی یہ قربانی بتاتی ہے کہ جتنی بڑی تحریک ہوگی، تو اس تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے اس کی جڑ میں اتنی ہی بڑی ہمت والی خاتون ہوگی، تبھی وہ تحریک بار آور ہوگی اور اپنے بہتر انجام کو پہونچے گی۔
خداے واحد کی پرستش اور اس کے آخری قانون کو قیامت تک کے لئے تمام عالم میں پھیلانے اور نافذ کرنے کی عظیم تحریک کی جڑوں میں اللہ نے ایسی ہی باہمت خواتین کو رکھا۔ اس تحریک کی آبیاری کے لئے لہو اور خون کی ضرورت پڑی تو روے زمین پر سب سے پہلے ایک خاتون حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کاخون بہا۔

میری بہنو سنو!
سب سے پہلے عورت نے نبوت کاچہرہ دیکھا۔
سب سے پہلے عورت نے زبان نبوت سے اللہ کے کلام کو سنا۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم علیہ کی مدد کے لئے سب سے پہلے عورت نے اپنے خزانوں کو لٹایا۔
اور ضرورت کے وقت روے زمین پر سب سے پہلے خاتون نے اپنا خون بہایا۔
اس میں پیغام ہے کہ جب ہماری عورتیں صابرہ، شاکرہ، باہمت باحوصلہ ہوں گی، دین کے لئے ہر طرح قربانی کے لئے تیار رہیں گی۔ تو پھر ہمارے گھروں میں، سماج، معاشرہ، ہر مقام پر دین و شریعت کی بالا دستی ہوگی۔سماج کی تصویر بدلے گی۔
ہمارا معاشرہ سنت وشریعت سے منور ہوگا۔
اور یاد رکھیں!
اگر خواتین کے اندر دین کا جذبہ نہیں ہوگا تو پھر نہ گھر میں دین باقی بچے گا نہ معاشرہ اور سماج میں۔
سوال یہ ہے کہ ایسی خواتین کہاں سے لائیں۔ جواب یہ ہے کہ ہم اپنی بچیوں کو دین کی تعلیم سے آراستہ کریں یہی بچیاں کسی کی دولہن کسی کی بہو بنیں گی اور پھر اپنے شوہر بھائی باپ اور اپنے بچوں کی دینی تربیت کریں گی جس کے نتیجے میں گھر کے ساتھ گاؤں بستی اور سارا سماج اسلام کے رنگ میں رنگ جاے گا۔
ہماری بہنیں اپنے مقام و مرتبے اور ذمہ داری کو سمجھیں۔ اور لڑکیوں کے مدارس میں اپنی بچیوں کا ایڈمیشن کرائیں تاکہ آنے والی ہماری پوری نسل دین کی داعی بن کر کھڑی ہو۔ع

*اے دختر اسلام! بنو تم زینب وکلثوم*
*ورنہ اس نئی نسل کو جواں کون کرے گا*
*اے رب! پھر بھیج دے کوئی ایوب*
*ورنہ مسجدِ اقصی میں اذاں کون کرے گا۔*

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین

*مرتب:*
*(مفتی) محمد توصیف صدیقیؔ*

Comments are closed.