اختلاف امت منھج نبوت کی نظر میں

از قلم: مونس قاسمی خادم مدرسہ عالیہ عربیہ مدینۃ العلوم اندرا نگر لہر پور سیتاپور

مذہب اسلام نے ایک مکمل جامع دستور الحیاۃ پیش کیا ہے جس میں پیدائش سے لے کر موت تک تمام انسانوں کے حقوق ، حتی کہ جانوروں کے حقوق وآداب بھی بتائیں ہیں۔ کس موقع پر ہمیں کیا کرنا ہے،کس سے کس طرز کا معاملہ کرنا ہے،تمام چیزیں اسلام نے من و عن بتلا دیں ہیں۔

امت میں باہمی اتحاد واتفاق محبوب وپسندیدہ بلکہ مطلوب ہے اور نزاع وجدال مبغوض و مذموم ہے ۔

پر ہائے افسوس

آج کے دور میں کسی میں کوئی اختلاف رونما ہوجائے تو ہر وہ شخص جسے اصول اختلاف کی ہوا تک نہ لگی ہو وہ بھی خامہ فرسائی کو بڑی خدمت دین سمجھتا ہے اور وہ تمام حدیں پار کر جاتا ہے جس کی شرع شریف میں قطعا گنجائش نہیں ہے ہاں یہ بات ضرور ہے کہ مسائل غیر منصوصہ میں اختلاف رائے ہو تو اختلاف کرنا مستحسن ہے لیکن یہ بھی اس وقت ہے جبکہ وہ حق پر مبنی ہو اس لئے ہر کس و ناکس کا اس گنجلک وادی میں کود پڑنا امت وسط کے لئے فتنہ کبری،اور سانحہ عظیم، اور سبیل ضلالت ہے
حق پرمبنی اختلاف عہد رسالت و دور صحابہ ، اور تابعین وائمہ مجتہدین کے زمانوں میں بھی رہا ہے پر کیا مجال تھی کہ کوئی کسی کی شان میں گستاخانہ لب کشائی کرے عزت پر بٹہ لگائے بلکہ وہاں تو ایک دوسرے کی تعظیم و تکریم کو سب سے بڑا اخلاقی فریضہ تصور کیا جاتا تھا ابھی چند دنوں کی تو بات ہے ، بہت زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔

اپنے اکابر دیوبند کی زندگیوں کو دیکھا جائے تو وہاں بھی پاس ولحاظ،ادب واحترام ، اور مد مقابل کی علمی عظمت کا پورا خیال، باوجود اس کے کہ وہ مخالف نظریہ کا حامل ہی کیوں نہ ہو۔

پر کیا مجال کہ اکابر دیوبند اپنی تحریروں میں بازاری الفاظ استعمال کرکے اپنے بے ادب ہونے کا ثبوت فراہم کرتے ۔
یہی وہ سب سے بڑی چیز تھی جس نے انہیں اکابر بنایا

ہاں ہم اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ اختلافی نظریہ ، غلط موقف، جو اب تک رونما نہیں ہوا تھا اس کا جواب نہ دیا جائے بیشک جواب دیا جائے دلائل پیش کئے جائیں انکے دلائل کا جواب لکھا جائے پر یہ سب حدود شرع میں رہ کر ہو یہ نہ ہو کہ تنقید برائے تنقید ،بحث برائے بحث بلکہ بحث برائے تحقیر وتذلیل کے جذبہ سے ہو تو یہ سود مند نہیں بلکہ داحیہ کبری اور سنگین فتنہ پردازی ہوگی جو ہماری عاقبت کو برباد کر کے رکھ دے گی۔

قرآن کریم نے بڑے واضح انداز میں کہا ہے

سوره المائدة آیه ۸
يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنوا كونوا قَوّامينَ لِلَّهِ شُهَداءَ بِالقِسطِ ۖ وَلا يَجرِمَنَّكُم شَنَآنُ قَومٍ عَلىٰ أَلّا تَعدِلُوا ۚ اعدِلوا هُوَ أَقرَبُ لِلتَّقوىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبيرٌ بِما تَعمَلونَ

ترجمہ

اے ایمان والو! اللہ کے واسطے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جاؤ، اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہرگز نہ چھوڑو، انصاف کرو کہ یہی بات تقویٰ کے زیادہ نزدیک ہے، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ اس سے خبردار ہے جو کچھ تم کرتے ہو

اس آیت مبارکہ میں عدل کی تعلیم دی گئی ہے اور عدل کہتے ہیں کسی کے ساتھ بغیر افراط وتفریط کے وہ معاملہ کرنا جسکا وہ واقعی مستحق ہے اس سلسلہ میں کسی کی گہری شناسائی ،عمیق محبت اور شدید عداوت بھی آڑے نہ آئے بلکہ اصل حقیقت واقعہ کو پیش نظر رکھ کر انصاف کو پروان چڑھایا جائے۔ اور حق کے معاملہ میں جذبات سے مغلوب ہو کر کسی ایک جانب کو ترجیح دینا قطعاً روا نہیں اگر کوئی اس کا شکار ہے تو وہ بروز قیامت اس کا جواب دہ ہوگا ۔

ہمارے اکابر میں حجۃ اللہ فی الارض قاسم العلوم والخیرات حضرت علامہ ومولانا محمد قاسم نانوتوی علیہ الرحمہ کے یہاں ایک بدعتی درویش مگر صاحب حال مہمان ہوئے تو حضرت نے ان کا بہت اکرام کیا یہ خبر ایک شخص حضرت نے گنگوہی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں کی ۔تو حضرت گنگوہی نے فرمایا : برا کیا، اس شخص نے یہ بات مولانا نانوتوی علیہ الرحمہ کی خدمت میں جاکر پیش کی تو جواباٌ نانوتوی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کفار مہمانوں کا اکرام کیا ھے ۔اس شخص نے یہ جواب پہر حضرت گنگوہی علیہ الرحمہ کی خدمت میں جا سنایا تو حضرت گنگوہی علیہ الرحمہ نے فرمایا: کہ کافر کے اکرام میں کوئی مفسدہ نہیں ہے ،بدعتی کے اکرام میں مفسدہ ہے ۔اس نے پہر یہ جواب حضرت نانوتوی علیہ الرحمہ کو جا کر بتایا تو حضرت نانوتوی علیہ الرحمہ نے اسے ڈانٹ دیا کہ یہ کیا واہیات ہے کہ ادھر کی ادھر، اور ادھر کی ادھر،لگاتے پہرتے ہو جاو بیٹھو اپنا کام کرو

یہ اکابر کا اختلاف تھا اسکے باوجود کسی نے گستاخانہ لب و لہجہ تو دور کی بات تھی دونوں طرف کی کارروائی میں گستاخی کی جھلک تک محسوس نہیں ہو رہی ہے

اسی طرح حضرت مولانا وعلامہ حکیم الامت اشرف علی تھانوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: کہ مقبولان الہی یا اپنے محسن کی شان میں جو گستاخ ہوتا ہے اس کی عقل مسخ ہو جاتی ہے۔ مولوی اسحاق صاحب کے ایک شاگرد طالب علم ان کی شان میں گستاخ تھے، ایک شخص نے کہا کہ تم شاگرد ہو وہ تو تمہارے محسن نے ،تمہیں ایسا نہ کرنا چاہئے، اس
نے کہا محسن تو جب ہوں جب ان کا پڑھایا ہوا یاد ہو مجھے کچھ بھی یاد نہ رہا۔ پہر حضرت والا نے فرمایا کہ ادھر اس نے گستاخی کی ادھر سلب شروع ہو گیا (احسن العزیز)

پر آج تو ہم میں بعض حضرات کے قلم بھی عصبیت لئے ہوئے ہیں جی جی عصبیت ، جسے ہم یوں بھی کہ سکتے ہیں کہ ہمیں جو اچھا لگ رہا ہے وہی حق ہے ،وہی سچ ہے اسکے سوا جو کچھ بھی ہے وہ سب غلط ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ اگر وہ حضرات جن کے ہم معتقد ہیں انکے کلام میں کوئی ایسی بات ہوتی ہے جو بظاہر خلاف نظر آرہی ہوتی ہے تو ہم ہر ممکن تاویل کرتے ہیں اور فریق ثانی کے کلام میں تاویل کی گنجائش کی کوئی وجہ نہیں چھوڑتے ہیں ۔یہ کیا ہے ؟ ۔۔۔

اگر جذبہ محبت وعقیدت غالب نہ ہو تو پہر یہی بندہ دونوں حضرات کی تحریروں ،تقریروں، کو اپنے دل و دماغ کو ہر طرح کی محبت و عداوت سے خالی کرکے بغرض انصاف اور حق کی رہنمائی کے لئے پڑھے پہر کچھ لکھے تو مزہ ہی کچھ اور ہو کہ یہ شان صحابہ، ائمہ مجتہدین ، سلف صالحین ہے

اسلئے ہم پر لازم ہے کہ تبصرہ ، تنقید، اور کسی بھی چیز کا جائزہ لینا فقط احقاق حق و ابطال باطل کے لئے ہو کسی کی محبت ، کسی کا علمی رتبہ، کسی کی استاذیت ، کسی کی شاگردیت، کسی کے احسانات ، کسی کی عداوت ، ہمیں صحیح مسلک ومشرب پیش کرنے سے مانع نہ بنیں ہاں ادب کا دامن کسی بھی حال میں نہ چھوٹے

اسلئے علمی جوش میں آکر کوئی ایسی بات جو ادب لئے ہوئے نہ ہو تحریر کرنا گویا اپنی عاقبت برباد کرنا ہے

اللہ ہمیں عدل واعتدال کی رعایت کے ساتھ کسی تحریر کا جواب لکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور مرتے دم تک اپنے اکابر کے اسوہ کو مشعل راہ بنانے کی خاص توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم

باادب با نصیب
بے ادب بے نصیب

Comments are closed.