سفرِ دہلی و دیوبند کی مختصر روداد ( پہلی قسط )

از :محمد امداداللہ قاسمی

—————————————————-

مورخہ 4 اکتوبر 2019 بروز جمعہ عزیز گرامی حافظ محمد رحمت اللہ(موصوف سے میرا خاندانی رشتہ بھی ہے اور دوستانہ بھی نیز جب 2012ع میں مدرسہ فلاح المسلمین بھوارہ مدھوبنی میں اعزازی طور پر درس و تدریس کا شرف مجھے ملا تو میرے سامنے وہ اولین جماعت جو سب سے پہلے پڑھنے کے لئے آئی وہ عربی دوم کی جماعت تھی جس میں ایک طالب علم موصوف محترم بھی تھے، مگر سوئے اتفاق کہ اسی سال مدرسہ کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا اب وہ شہر کے الکتاب پبلک اسکول کے استاذ ہیں) کے ہمراہ بذریعہ غریب رتھ ایکسپریس ہم دہلی کے لئے روانہ ہوئے۔ سفر کا پسِ منظر یہ بنا کہ مجھے اپنے مرشد استاذ الاساتذہ حضرت اقدس مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی دامت برکاتہم (استاذِ حدیث و مہتم دارالعلوم دیوبند) سے شرف ملاقات و استفادہ کرنا تھا نیز مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر ممبئ(MMERC) کے سلور جبلی پروگرام میں شرکت کرنی تھی۔
صفر کا مہینہ چونکہ مدرسوں میں تعلیمی شباب کا ہوتا ہے؛ اس لیے اس سفر کے سلسلے میں کافی پس و پیش رہا، بالآخر حضرت والد گرامی قدر مدظلہ کے مشورے سے طبیعت کی الجھن دور ہوئی اور تین اکتوبر کو یہ مشورہ ہوا کہ آئندہ کل 4 اکتوبر بروز جمعہ کو غریب رتھ ایکسپریس سے سفر کیا جائے، عزیزم حافظ رحمت اللہ مذکورہ تاریخ کا ایک کنفرم ٹکٹ رکھتے تھے، میں نے جمعرات کو ہی ٹکٹ نکلوایا اور حسنِ اتفاق کہ وہ آئندہ کل جمعہ کو کنفرم بھی ہوگیا۔
رفیق محترم حافظ نفیس اختر(موصوف کا تعلق ڈمری مدھوبنی سے ہے۔ فلاح المسلمین کے زمانہ طالب علمی میں جب میں عربی درجات میں تھا تب وہ ابتدائی تعلیم کے لئے داخل ہوئے تھے۔بعد میں دوستانہ تعلق قائم ہوا۔ مزاج میں صالحیت و دینداری اور خوش اخلاقی ہے، ان دنوں معاش کے سلسلے میں سعودیہ رہتے ہیں۔) اور عزیز محترم حافظ برکت اللہ(برادر خورد حافظ رحمت اللہ، ان دنوں مجھے قرآن مجید کا دور سناتے ہیں۔ ) ہمیں اسٹیشن تک چھوڑنے کے لیے آئے،
ٹرین بالکل وقت پر تھی۔

ٹرین کی آمد کے ساتھ مدھوبنی اسٹیشن پلیٹ فارم نمبر ایک پر آنکھوں کے سامنے موت کا ایک دل دوز واقعہ
اسی دوران جب ہماری مطلوبہ ٹرین پلیٹ فارم نمبر ایک پر لگنے والی تھی؛ اچانک ایک پندرہ/ سولہ سالہ بچی نے ٹرین کی پٹری پر اس قدر برق رفتاری کے ساتھ چھلانگ لگائی کہ وہاں پر موجود لوگوں کو کچھ سمجھ ہی میں نہیں آیا اور پٹری پر جا کر لیٹ گئی، دیکھتے ہی دیکھتے اس کا سر دھڑ سے الگ ہوگیا اور وہ موت کے آغوش میں چلی گئی۔
”حاصلِ غم یہی سمجھتے ہیں
موت کو زندگی سمجھتے ہیں“
اللہ جانے وہ بچی کہاں کی تھی؟ اور زندگی سے اس قدر کیوں مایوسی کا شکار ہوگئی تھی کہ موت کو اس نے زندگی پر ترجیح دی اور خود کشی جیسا سنگین انجام بھی اس کے لئے آسان ہو گیا۔ وجہ جو بھی رہی ہو مگر؛ سفر کے آغاز میں ہی کھلی آنکھوں موت کے اس کھیل نے جہاں زندگی کی بے ثباتی کا احساس تازہ کردیا وہیں یہ دلدوز واقعہ یہ سبق بھی دے گیا کہ ایمان والے کو ہمیشہ اپنے ایمان پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ جس کے دل میں کامل ایمان ہو وہ زندگی کے پریشان کن حالات و مسائل سے گھبراتا نہیں؛ کیونکہ اس کا اعتماد اور بھروسہ اللہ تعالی کی ذات پر اور اس کے فیصلوں پر ہوتا ہے اور اسے اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ جس طرح رات کی تاریکی کے بعد صبح کا اجالا آتا ہے ایسے ہی زندگی کے ہر مشکل کے بعد من جانب اللہ آسانی کا بھی فیصلہ ہوتا ہے۔بندہ مومن کا یہی یقین اسے سخت سے سخت حالات میں بھی کسی طرح کی بے صبری اور بے اطمینانی سے روکے رکھتا ہے اور وہ زندگی کے مصائب سے الجھ کر خودکشی جیسے انجام سے اپنے آپ کو بچاتا ہے۔
اس دردناک واقعے کے بعد دعاؤں کے اہتمام کے ساتھ ہمارا سفر جاری رہا اگلے دن ۵/ اکتوبر بروز سنیچر کو دہلی کے آنند وہار ٹرمنل ریلوے اسٹیشن پر وقتِ مقررہ پر پہنچ چکے تھے، ٹرین بالکل وقت پر آئی تھی۔
دہلی میں میرے دو ماموں جناب عبد الرحمن(منا) صاحب اور چھوٹے ماموں جناب الحاج حافظ شاہ فیصل صاحب رہتے ہیں یہ دونوں دہلی میں ہمارے میزبان ہوا کرتے ہیں۔ ان کا دہلی کے وزیر پور جے جے کالونی میں اپنا مکان ہے، دارالعلوم دیوبند کے تین سالہ زمانہ طالب علمی (٢٠٠٩تا ٢٠١١ )میں بارہا آنا جانا ہوا، طالبِ علمی کے زمانہ میں مجھ جیسا طالب علم جسے والدین کے ایکلوتے نرینہ اولاد ہونے کی وجہ سے گھر میں والدین اور رشتہ داروں سے بچپن میں بہت زیادہ لاڈ و پیار ملا ہو؛ جب مدرسے میں اور وہ بھی دور دراز علاقے میں آیا ہو؛ اسے گھر کی، والدین کی یاد اور ان کی محبتوں کا ستانا فطری ہے؛ مگر دیوبند کے زمانہ طالب علمی میں جب بھی دہلی ماموں کے ہاں آنا ہوا تو ان کی طرف سے اور ممانیوں کی طرف سے محبت و خدمت کا وہ سلوک ملا کہ لگا ہی نہیں میں دہلی میں ماموں کے ہاں آیا ہوں یا گھر آیا ہوں۔خاص طور پر چھوٹے ماموں الحاج حافظ شاہ فیصل صاحب؛ دہلی میں کسی جگہ کہیں سیاحت و تفریح کے لیے جانا ہو یا کہیں کسی ضروری کام سے یا مارکیٹنگ وغیرہ کے لیے جانا ہو اپنی ساری مصروفیات کے باوجود خود کو پیش کر دیتے ہیں۔
(اللہ تعالی دنیا اور آخرت میں ان خدمات کا بہتر بدلہ عطا فرمائے)۔
اس بار بھی دہلی آمد کی اطلاع میں نے حافظ شافیصل صاحب کو دے دی تھی، پروگرام کی ترتیب یہ بنی کہ پہلے وہاں جاکر فریش ہو لیا جائے پھر اس کے بعد مرکز المعارف کے سیمینار میں شرکت کی جائے۔
چنانچہ وزیرپور جے جے کالونی آکر فریش ہوا۔ کھانا کھا کر ہم رفیقِ سفر حافظ رحمت اللہ کے ہمراہ بذریعہ میٹرو ITO؛ جمیعت علمائے ہند کے دفتر پہنچے، جس کے کانفرنس ہال میں مرکزالمعارف کا سمینار ہو رہا تھا۔ ہال کے باہر مرکز المعارف ممبئی کے کئی اساتذہ سے ملاقات ہوئی۔
مولانا برہان الدین صاحب (ڈائریکٹر ایم ایم ای آر سی)
مولانا مدثر صاحب قاسمی
مولانا عتیق الرحمن صاحب
مفتی جسیم الدین صاحب
مولانا اسلم صاحب وغیرہ کئی اہم شخصیات سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔
کچھ مرکز المعارف ممبئی کے بارے میں
مرکز کا قیام 15/اپریل 1994
کو عمل میں آیا،اس کا آغاز دہلی میں ہوا بعد میں یہ ادارہ ممبئی منتقل ہوگیا۔ یہ ادارہ برصغیر ہندوپاک میں فضلائے مدارس کو انگریزی زبان و ادب اور علوم عصریہ سکھانے والا اپنی نوعیت کا پہلا اور منفرد ادارہ ہے،جس کی بنیاد معروف عالم دین ملی رہنما محسنِ ملت فخر العلماء حضرت مولانا بدرالدین اجمل قاسمی صاحب ممبر آف پارلیمنٹ نے رکھی،اس ادارے کا بنیادی مقصد زمانے کے تقاضے کے پیشِ نظر؛ دین کا داعی اور مبلغ پیدا کرنا ہے۔
موجودہ زمانے میں حالاتِ حاضرہ کے پیشِ نظر فضلائے مدارس کا انگریزی زبان اور کمپیوٹر کی تعلیم سے آراستہ ہونے کی ضرورت شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہے۔اسی تقاضے کے پیشِ نظر 1994ع میں فضلائے مدارس کے لئے “ڈپلوما اِن انگلش لینگویج اینڈ لٹریچر”(DELL) کورس؛ فخرالعلماء حضرت مولانا بدرالدین اجمل القاسمی کی نگرانی میں ترتیب دیا گیا اور مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر میں سب سے پہلے اس کو متعارف کرایا گیا۔یہ ایک کامیاب ترین تجربہ ثابت ہوااور دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے مختلف صوبوں میں اس کورس کے لئے کئی ادارے قائم ہو گئے۔ اس وقت ملک میں اس کی آٹھ شاخیں ہیں۔دارالعلوم دیوبند اور وقف دارالعلوم دیوبند میں بھی DELL کا نصاب پڑھایا جاتا ہے۔
دو سالہ اس کورس کو پڑھنے والے فضلاء معیاری انگریزی بولنے اور لکھنے پر قادر ہونے کے ساتھ ساتھ جنرل اسٹڈیز اور کمپیوٹر سائنس میں بھی قابلِ قدرمقام حاصل کر لیتے ہیں۔آج یہاں کے فضلاء جہاں ہندوستان کے مختلف سر کردہ اداروں سے لیکر مدارس ،اسکول،کالج اور یونیورسیٹیوں میں تعلیمی اور انتظامی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں وہیں تقریباً بیس ممالک میں گرانقدر تعلیمی وتبلیغی فرائض انجام دے رہے ہیں۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر زبان کی ایک تہذیب ہوتی ہے اور اس تہذیب کے اثرات اس زبان کے بولنے اور استعمال کرنے والوں پر ظاہر ہوتے ہیں، جب یہ ادارہ قائم ہوا تھا تو کئی کبارِ علماء کو یہ تشویش بھی لاحق تھی کہ کہیں انگیزی زبان سیکھتے ہوئے انگریزی تہذیب اور یورپین کلچر سے پڑھنے والے یہ علماء متاثر نہ ہو جائیں، لیکن؛ الحمدللہ! اس ادارے نے اپنے فضلا کو زبان کے ساتھ ساتھ ایسی تربیت بھی دی کہ یہ انگیزی تہذیب سے دور رہے۔آج مرکزالمعارف کے فضلا ملک و بیرون ملک میں گرانقدر دینی و دعوتی خدمات انجام دے رہے ہیں اور اس ادارے کو علما کا اعتماد حاصل ہے۔
سالِ رواں اس ادارے نے اپنے 25/سالہ سنہرے اور تاریخ ساز سفر کی تکمیل کی ہے۔ اِس حسین موقع کو تاریخ ساز اور مفید بنانے کے لئے مرکزالمعارف کے ذمہ ذمہ داران اور فضلاء نے ماضی کی حصولیابی واحتساب،حال کی کار کردگی و تقاضہ اور مستقبل کے چیلنجز و عزائم سے روشناس ہونے اور اکابرین کے مشورے،ماہرین کی آراء اور فضلائے مرکز المعارف کے تجربات جاننے کے لئے ہندوستان کی دار الحکومت دہلی میں 4،5اور 6/اکتوبر(جمعہ، سنیچر اور اتوار) 2019ع کوایک سہ روزہ عالمی سمینار "مسلم نوجوان،علماء اور معاصر چیلنجز: ما بعد مدارس تعلیم ڈپلوما اِن انگلش لینگویج اینڈ لٹریچر کورس کے تناظر میں” کےعنوان سے انعقاد کا فیصلہ لیا۔
راقم الحروف بھی مرکز المعارف ممبئ میں سنہ ٢٠١٢-١٣ع کے سیشن میں، میں زیرِ تعلیم تھا، مگر کچھ خانگی ضروریات کی وجہ سے یہ کورس مکمل نہ ہوسکا، صرف ایک سال ہی زیرِ تعلیم رہا، مگر اس ایک سال میں انگریزی زبان و ادب کا بہت کچھ اور اہم حصہ سیکھنے کو ملا، انگریزی بولنے پر بھی بہت حد تک قدرت ہو گئی تھی۔ (مجھے 2012ء کا، مرکز المعارف ممبئی کے زمانہ طالب علمی کاوہ واقعہ ابھی تک اچھی طرح یاد ہے جب ہم اپنے علاقے کے حاجی حافظ رحمت اللہ کے ہمراہ جو اُن دنوں سعودیہ کے سفر سے ممبئی تشریف لائے ہوئے تھے؛ سیاحت کے لئے گیٹ وے آف انڈیا سے بذریعہ کشتی الیفنٹا جانا تھا (”الیفنٹا جزیرہ“ ممبئی سے سمندر (بحر عرب)میں تقریبا 10 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ یہ سیاحت کا بہت بڑا اور پرکشش مرکز ہے جہاں ہر روز ہندوستان اور بیرونِ ملک کے سیاحوں کی بڑی تعداد آتی ہے ؛) تو اسی کشتی میں امریکہ کی دو خاتون سے ہماری ملاقات ہوئی چونکہ میں انگریزی زبان کا طالب علم تھا تو موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زبان سیکھنے کی غرض سے ان سے انگریزی زبان میں مکالمہ شروع کیا، دوران گفتگو اس نے اسلام کے تعلق سے تین اعتراضات کیے، میں نے اس موقع سے ٹوٹے پھوٹے انداز میں ہی سہی انگریزی زبان میں انہیں جواب دیا، میں نے یہ محسوس کیا کہ وہ اس جواب سے بہت حد تک مطمئن ہو گئی تھی۔
راقم الحروف کی دلی دعا ہے کہ یہ ادارہ ظاہری باطنی ہر اعتبار سے مزید ترقی کرے، اس ادارے کے طلبہ ترقی کی منزلیں طے کرتے رہیں اور اسلام کی صحیح تعلیمات کو چہار دانگ عالم میں عام کرتے رہیں)۔
بہرحال مرکزالمعارف کے سلور جوبلی کے اس زریں موقعے سے دیگر فارغین کے ساتھ مجھے بھی یاد کیا گیا اور اس تاریخی سیمینار میں شرکت کو میں نے بھی اپنی سعادت سمجھا۔
جب ہم سیمینار ہال پہنچے تو سیمینار کے دوسرے دن کا دوسرا سیشن چل رہا تھا۔
عصر کی نماز کے بعد مرکز المعارف کے رفقائے درس سے ملاقات ہوئی۔
مغرب کی نماز کے بعد سیمینار کا تیسرا سیشن شروع ہوا۔
پھر نو بجے کے قریب ہم قیام گاہ پر واپسی کے لئے جمعیت دفتر سے باہر نکلے؛ تو ہماری ملاقات رفیقِ محترم مولانا ثناء اللہ فرازی سے ہوئی، انہوں نے جوس پلاکر ہماری ضیافت کی پھر ہم بذریعہ میٹرو اپنے قیام گاہ پر واپس آئے۔
اگلے دن بروز اتوار کو سیمینار کا آخری دن اور عام اجلاس تھا اور مجھے سیمینار کے اختتام کے بعد وہیں سے دیوبند بھی جانا تھا؛ چنانچہ تیاری کے ساتھ ہم سییمینار ہال پہنچے۔ آج کا پروگرام کونسٹیٹیوشن کلب آف انڈیا کے ماولنکر ہال میں ہونا طے تھا، جس کی صدارت مرشدِ گرامی حضرت مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی مدظلہ مہتمم دارالعلوم دیوبند نے فرمائی۔اس آخری نشست میں ہندوستان کی بڑی علمی شخصیات نے شرکت فرمائی اور اپنے قیمتی خیالات کا اظہار فرمایا؛ جس کی تفصیل مرکز المعارف ممبئی کے سوشل میڈیا صفحات پر دیکھا جا سکتا ہے۔
اس سہ روزہ سمینار کو بصیرت آن لائن اور ملت ٹائمز جیسے مقبول نیوز پورٹل نے بھی براہ راست مکمل نشر کیا تھا۔


مکمل پروگرام اس لنک پر دیکھا جا سکتا ہے ۔
(دوسری قسط میں انشاءاللہ سفرِ دیوبند اور اس کی روداد)۔

Comments are closed.