ہجوم پر گاندھی جی کا ردعمل

بیرسٹر اسدالدین اویسی
(صدر آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین و ممبر پارلیمنٹ)
(مترجم: احمد الحریری، جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی)
موہن داس کرم چند گاندھی کی زندگی دستاویزی شکل میں اچھی طرح سے موجود ہے، ہمیں جزوی طور پر ان کی سوانحی تواریخ اور کثرت سے دئے گئے ان کے اپنے جریدوں بشمول ” ہریجن ” اور ” ینگ انڈیا ” میں تعاون کا شکریہ ادا کرنا چاہئے، لیکن ان کی 150ویں سالگرہ پر یہ بھت ہی اہم ہے کہ ہم لوگوں پر ان کے دائرہ اثر کو ذرا رک کر دیکھیں، گاندھی اس آزاد ہندوستان سے کیا مراد لیتے ہیں جس کو دیکھنے کے لئے وہ خود زندہ نہیں رہ سکے؟ آج کے ہندوستان کو گاندھی کو کس طرح دیکھنا چاہئے؟ اور سب سے اہم یہ ہے کہ ہم اکثریت کی حکمرانی والے نظریہ کے اس دور میں گاندھی سے کیا سیکھتے ہیں؟
تقسیم کی خوفناکیوں کے بعد (اپنی زندگی کے آخری کچھ مہینوں میں )، گاندھی نے اپنا آخری ستیہ گرہ کیا تھا، چوری چورا سانحہ ہی کی طرح یہ ستیہ گرہ ہجوم اور بلوائی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کے اپنے اصولوں اور خواہشوں کے تئیں ان کی استقامت اور خلوص کو ظاہر کرتا ہے، قطع نظر اس کے کہ دوسرا طریقہ کتنا موزوں اور مفید ہوتا۔
گاندھی نے اپنا ستیہ گرہ 13 جنوری، 1948 کو شروع کیا تھا، زبردست فرقہ وارانہ ماحول کی وجہ سے جس نے ہندوستان کے بڑے حصوں کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا برتھ رکھا، مسلمانوں کے خلاف بالخصوص دہلی کے مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر انتقامی کارروائیاں جاری تھیں، اس وقت پہلے ہی سے گاندھی بیمار اور کمزور پڑ گئے تھے، لیکن انہوں نے کہا کہ ان کا برتھ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ انہیں یہ یقین نہیں ہوجاتا ہے کہ تمام کمیونیٹیوں کے دل بغیر کسی خارجی دباؤ کے لیکن بیدار احساس ذمہ داری سے پھر سے ایک ہوگئے ہیں ” انہوں نے ستیہ گرہ ختم کرنے کے سات شرائط رکھے تھے، اور ان میں سے سارے شرائط دہلی کے مسلمانوں اور ان کی جائیداد کے تحفظ سے متعلق تھے۔
یہ گاندھی کے برتھ ہی کا نتیجہ تھا کہ بڑے پیمانے پر سکھ اور ہندو دہلی کے مسلمانوں کے تحفظ کا عہد کر رہے تھے۔
اکثریت کی حکمرانی کے شدید جذبہ کے خلاف کھڑے ہونا اور کمزوروں کی حمایت میں کھڑے ہونا بہت ہی ہمت کی بات ہے، گاندھی ہجوم اور بلوائی کے غصہ اور تعصب کے سامنے نہیں جھکے اور انہوں نے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اپنی سیاسی اور سماجی طاقت کا استعمال کیا، شاید اس میں ایک بڑا سبق آج کی ان سیکولر جماعتوں کے لیے ہے جو مسلمانوں سے دوری بنائے رکھنے کو پسند کرتی ہیں جبکہ اس کمیونیٹی کو اکثریت کی حکمرانی والا نظریہ رکھنے والے طبقہ کی طرف سے الگ تھلگ کیا جارہا ہے اور اسے بڑے پیمانے پر تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ گاندھی کی زندگی کا تنقیدی مطالعہ نہیں کیا جانا چاہیے، یا ان کی سیاست تنقید سے اوپر ہے، اس تعلق سے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بابا صاحب امبیڈکر نے گاندھی کو ان کی زندگی میں اور موت کے بعد کس طرح سے دیکھا، اگر جنوری 1948 کا برتھ اقلیتوں کے تئیں ان کے اخلاص کی یاد دلاتا ہے تو وہیں 1932 میں پونا کا برتھ یہ بتاتا ہے کہ گاندھی کا یہ برتھ مظلوم طبقوں کے لیے جداگانہ انتخابات ( separate electorate) کو روکنے کے لیے تھا، گاندھی مسلمانوں اور سکھوں کے لیے جداگانہ انتخابات کے لیے تو راضی تھے لیکن مظلوم طبقوں کے لیے اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے، اسے انہوں نے ہندؤوں کی بڑی شناخت سے اچھوتوں کو الگ کئے جانے کا مسئلہ مانا، لیکن امبیڈکر کے نزدیک ان کی کمیونٹی کی زندگی کے لیے سیاسی طاقت بہت ہی ضروری اور ناگزیر تھی۔
غالب طبقہ کی سوچ و فکر سے آزادی کے لیے ایک مضبوط قیادت کا مطالبہ ان کمیونیٹیوں کے لیے ضروری ہوجاتا ہے جنہوں نے صدیوں تاریخی ناانصافی کا سامنا کیا ہے۔
گاندھی ایک ایسی تدبیر کا استعمال کرتے تھے جس کا مقصد وقت کے بھت ہی کمزور اور زیر بحث طبقہ کے خلاف طاقت کو آئینہ دکھانا ہوتا تھا، بدقسمتی سے گاندھی کی یہ وراثت ان کی موت کے بعد ہی مضبوط و مستحکم ہوئی، اور آزاد قیادت اور آزادی کے درمیان ربط دیکھنے کی ناپسندیدگی کے نتیجے میں ایک ایسا ماحول وجود میں آگیا ہے جہاں آج ایک بڑی پارٹی کے ٹکٹ پر صرف مسلمانوں اور دلتوں کے لچک دار اور علامتی چہرے ہی منتخب ہونے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔
گاندھی سے بھت ہی قریبی تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے گاندھی کی غیر موجودگی کی کیا اہمیت ہے؟
مارچ 1950میں، اس وقت کے وزیراعظم نے گاندھی نظریہ کے پیروکار کے جی مشرو والا کو لکھا، 1949 میں بابری مسجد کے اندر بت رکھنے کے مجرمانہ عمل پر در حقیقت وہ لوگ مراسلہ کر رہے تھے، بغیر کسی لچک کے جواہر لال نہرو نے یہ قبول کرتے ہوئے کہا کہ یوپی میں کانگریس حکومت نے شرپسندوں کے خلاف ایکشن لینے یا اسے روکنے میں بہت ہی کم دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے، مراسلہ کے اختتام میں انہوں نے یہ اعتراف کیا ہے کہ: ” آج بہت سے کانگریسی فرقہ پرست ہو چکے ہیں، میں بالکل نہیں جانتا کہ ملک میں ایک اچھی فضا کیسے قائم کی جاسکتی ہے، جب لوگ اشتعال میں ہوتے ہیں تو اس وقت انہیں اچھائی کی نصیحت ناگوار گزرتی ہے، باپو اس کام کو اچھی طرح کر سکتے تھے، لیکن ہم لوگ اس طرح کا کام کرنے کے لیے بہت ہی کمتر ہیں”
نہرو یہ سمجھتے تھے کہ جب اکثریت کی حکمرانی کے جذبے، اعلیٰ لوگوں پر حاوی ہو جائیں تو ایک معمولی آدمی کیا کرسکتا ہے، یہ بھی بہت اہم بات ہے کہ ہندوستان کے پہلے وزیراعظم گاندھی کے تن تنہا ہجوم سے لڑنے کی صلاحیت، جذبے اور خواہش کو اچھی طرح سے جانتے تھے۔
اخیر میں ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ گاندھی کا قتل کس نے اور کیوں کیا، آزاد ہندوستان کے پہلے دہشت گرد ناتھو رام گوڈسے کو ہندوستانی مسلمانوں کے تئیں گاندھی کا پختہ موقف ناقابل قبول تھا، گاندھی کے سیاسی قتل میں جیون لال کپور کمیشن کی تفتیشی رپورٹ کے ذریعے ہندوتوا کے ایک بڑے لیڈر وی ڈی ساورکر کا رول بھی درج کیا گیا ہے۔
یہ مسلمانوں کے تئیں نفرت ہی تھی جس نے گاندھی کے قاتل کو مشتعل کیا تھا، گاندھی کی 150ویں سالگرہ پر موجودہ وزیر اعظم کی پارٹی کے ایک ممبر پارلیمنٹ کے ذریعے گاندھی کے قاتل کو محب وطن کہا گیا، گاندھی کی یادوں کو ہمیں ایک بت کے طور پر نہیں بلکہ ایک ایسے انسان کے طور پر زندہ رکھنا چاہیے جو تمام ہندوستانیوں اور ہندوستان کے لیے جیا بھی اور مرا بھی۔
Comments are closed.