ماسٹر صاحب کے بغیر……….

 

ایم ودود ساجد

کیا آپ ماسٹر فرقان علی کو جانتے ہیں؟

میرا خیال ہے کہ اتنا تو جانتے ہی ہوں گے کہ اترپردیش کے شہر پیلی بھیت کے ایک گاؤں وصال پور میں ایک سرکاری اسکول کے ہیڈ ماسٹر فرقان علی کو گزشتہ 14 اکتوبر کو ضلع مجسٹریٹ (پیلی بھیت) نے اس لئے معطل کردیا تھا کہ وہ اسمبلی کے دوران اپنے اسکول کے بچوں سے علامہ اقبال کی دعائیہ نظم ”لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری“ پڑھواتے تھے۔۔۔۔

اب ماسٹر فرقان علی کی معطلی تو واپس لے لی گئی ہے لیکن انہیں وصال پور کے اسکول میں واپس نہ بھیج کر دوسرے گاؤں کے اسکول میں بھیج دیا گیا ہے۔۔۔۔

کیا اس سے زائد آپ کو کچھ معلوم ہوا؟

میرا خیال ہے کہ شاید معلوم نہ ہوا ہو۔۔۔۔ ہمارے اخبارات اتنی زحمت کہاں کرتے ہیں ۔۔۔۔!

اطلاع یہ ہے کہ وصال پور کے متعلقہ اسکول کے 267 بچوں نے ہڑتال کردی ہے اور احتجاجاً اسکول جانے سے انکار کردیا ہے۔۔۔۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ان کے استاذ ماسٹر فرقان علی واپس نہیں آتے تو وہ اس اسکول میں نہیں جائیں گے۔۔۔۔ چنانچہ گزشتہ 21 اکتوبر کی صبح اسکول میں صرف پانچ بچے آئے جبکہ اگلے دن محض 37 بچے۔۔۔۔

اِس سرکاری اسکول میں دراصل 267 بچوں کو پڑھانے کے لئے صرف ایک ہی استاذ تھا۔۔۔۔ اس استاذ کا نام ماسٹر فرقان علی ہے۔۔۔۔ فرقان علی پولیو زدہ ہیں اور بچپن سے ایک ٹانگ سے معذور ہیں۔۔۔۔ انہیں یہ نوکری بھی معذوروں کے کوٹہ سے ملی ہے۔۔۔۔ انہوں نے اب تک شادی بھی نہیں کی ہے۔۔۔۔ان کی دو چھوٹی بہنیں بھی ہیں۔۔۔۔وہ کہتے ہیں کہ پہلے ان کی شادی ہوجائے تو پھر اپنے بارے میں سوچوں گا۔۔۔۔وہ جنوبی غیاث پور کے مکین ہیں اور اس اسکول میں 2011 سے پڑھارہے ہیں۔

حیرت ہے کہ ماسٹر فرقان علی پہلی سے پانچویں تک کے 267 بچوں کو اکیلے پڑھارہے تھے۔۔۔۔ اس پر انہوں نے ان تمام بچوں کو اپنا ایسا گرویدہ بنالیا کہ اب بہت سے والدین حکومت کو مکتوب لکھنے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔اس مکتوب میں وہ اپنے بچوں کا یہ مطالبہ دوہرائیں گے کہ اگر ماسٹر فرقان علی ان کے اسکول واپس نہیں آئے تو وہ بھی اسکول نہیں جائیں گے۔۔۔

پانچویں کلاس کا کشن کمار (فرضی نام) کہتا ہے کہ اگر ماسٹر صاحب میرے اسکول میں واپس نہیں آئے تو میں انہی کے اسکول میں داخلہ لے لوں گا۔۔۔۔ یہ اسٹوڈینٹ ہندو ہے لیکن قانونی احتیاط کے پیش نظر اس کا اصل نام نہیں لکھا گیا۔۔۔۔35 سالہ کویتا کے دوبچے بھی اسی اسکول میں پہلی اور دوسری کلاس میں پڑھتے ہیں ۔۔۔۔ کویتا کہتی ہیں کہ میرے بچوں نے مجھے بتایا کہ ماسٹر صاحب اپنے ذاتی پیسوں سے اسکول کے بچوں کے لئے سبزی خرید کر لاتے تھے۔۔۔۔اب ان کی معطلی کے بعد بچے ہر صبح روتے ہوئے اٹھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اسکول نہیں جائیں گے۔۔۔۔ اب میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیا کروں۔۔۔“

33 سالہ پونم کہتی ہیں کہ ہم پڑھے لکھے نہیں ہیں لیکن ہیڈ ماسٹر فرقان صاحب کو واپس لانے کے لئے ہم سے جو بھی ہوگا ہم کریں گے۔۔۔۔کچھ نہ سہی تو افسروں کو خط تو لکھوا ہی دیں گے۔۔۔۔پونم کا بیٹا دوسری کلاس میں ہے لیکن اب اسکول جانے سے انکار کر رہا ہے۔

گزشتہ 14 اکتوبر کو پیلی بھیت کے ضلع مجسٹریٹ ویبھو کمار نے وشوہندوپریشد کی اس شکایت پر ماسٹر فرقان علی کو معطل کردیا تھا کہ وہ اسکول میں بچوں سے وہ ”دھارمک“نظم پڑھواتے ہیں جو مدرسوں میں پڑھی جاتی ہے۔۔۔۔حیرت ہے کہ سول سروسز جیسا مشکل امتحان پاس کرکے جو شخص آئی اے ایس افسر بنا ہو اسے اتنی بھی عقل اور تمیز نہیں ہے کہ "لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری” کوئی فرقہ واریت کو فروغ دینے والی نظم نہیں ہے بلکہ یہ نظم اُس عظیم شاعر کی لکھی ہوئی ہے جس نے "سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا” جیسا قومی ترانہ بھی لکھا تھا۔۔۔

یہ اسکول پانچویں تک ہے۔۔۔۔ جبکہ یوپی کے سرکاری اسکولوں میں آٹھویں کلاس کی جو اردو کی کتاب ہے اس میں یہ نظم شامل ہے۔۔۔۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ضلع پیلی بھیت کے افسر تعلیم تک کو اس کا علم نہیں ہے کہ یہ نظم آٹھویں کی اردو کتاب میں شامل ہے۔۔۔

ضلع انتظامیہ نے معطلی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایک ویڈیو وائرل ہوا تھا جس میں ماسٹر فرقان کہہ رہے ہیں کہ اس اسکول میں ایک خاص فرقہ (مسلم) کے بچے بڑی تعداد میں ہیں اور ان کے ماں باپ نے درخواست کی تھی کہ اقبال کی یہ دعا بھی پڑھوائی جائے تو میں نے پڑھوادی۔۔۔۔

بیسک ایجوکیشن افسر کے دفتر میں چوتھے درجہ کے ایک ملازم پریم نارائن کا کہنا ہے کہ یہ کوئی کم بات نہیں ہے کہ پونے تین سو کے آس پاس بچوں کو ایک ہی استاذ سنبھال رہا تھا۔۔۔۔ پریم نارائن نے بتایا کہ ماسٹر فرقان اگر تمام بچوں سے صرف ایک بار یہ کہہ دیں کہ سب ایک لائن میں کھڑے ہوجاؤ تو دوبارہ کہنے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور سب بچے ایک لائن بناکر کھڑے ہوجائیں گے۔۔۔۔۔ یہ اس لئے نہیں کہ بچوں کے دلوں میں ان کا خوف ہے۔۔۔۔بلکہ اس لئے کہ بچے ان کا احترام کرتے ہیں۔۔۔۔انہوں نے اپنا ایسا وقار بنالیا ہے کہ سب ان سے محبت کرتے ہیں۔۔۔۔

کویتا کا کہنا ہے کہ ضلع انتظامیہ ہمارے بچوں کے مستقبل سے کھلواڑ کر رہا ہے۔اسے وی ایچ پی والوں کی فکر ہے لیکن ہمارے بچوں کے مستقبل کی فکر نہیں ہے۔۔۔۔ بچے ماسٹر صاحب سے خوش ہیں ۔۔۔ ماسٹر صاحب ہر بچہ کو اپنا بچہ سمجھتے ہیں ۔۔۔ بچے خوشی خوشی اسکول جاتے ہیں ۔۔۔ اب بچے ان کے نہ ہونے سے رنجیدہ ہیں ۔۔۔

آپ نے دیکھا کہ ماسٹر فرقان کے تعلق سے یہ اظہار خیال کرنے والوں میں ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس کے نمائندے نے بھی کسی مسلمان ماں باپ یا مسلم اسٹوڈینٹ سے بات نہیں کی۔۔۔۔ میں نے "اپنے” کسی اخبار میں ماسٹر فرقان پر یہ تفصیل نہیں دیکھی۔۔۔

سچ تو یہ ہے کہ ان کی معطلی کے خلاف غیر مسلم دانشوروں اور غیر مسلم صحافیوں نے ایک زوردار مہم کھڑی کی ۔۔۔ اس کے بعد ہی ضلع انتظامیہ مجبور ہوا اور ماسٹر فرقان کی معطلی واپس لی۔۔۔ انگریزی کے تمام اخبارات اور چند اچھے چینلوں نے حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔۔۔ ہندوستان میں اسمارٹ نیوز چینلوں اور الیکٹرانک صحافت کے بانی ونود دوا’ سدھارتھ وردا راجن’ راجدیپ سردیسائی’ رویش کمار’ پنیہ پرسن باجپائی’ ابھیسار شرما اور انہی جیسے بہت سے ہندو صحافیوں نے اس واقعہ پر چشم کشا پروگرام بنائے۔۔۔ آئیے مل کر ان تمام انصاف پسند صحافیوں کے لئے دستِ دعا دراز کریں ۔۔۔ اے خالقِ ذوالجلال ان کے تحفظ کے ساتھ انہیں ایمان کی دولت بھی عطا فرما دے ۔۔

Comments are closed.