عارف نسیم خان کیوں ہارے؟

 

عمر فراہی

سوشل میڈیا پر بحث چل رہی ہے کہ چاندیولی حلقے سے مجلس اتحاد المسلمین کے امیدوار کی وجہ سے عارف نسیم خان صاحب کے ہار جانے سے مسلمانوں کی ایک سیٹ کم ہو گئی ورنہ مہاراشٹراسمبلی میں ایک اور مسلم ایم ایل اے کا اضافہ ہو جاتا ۔ہمارا خیال ہے کہ اگر دس ایم ایل اے اور بھی جیت جائیں تو بھی ان کی موجودگی سے مسلمانوں کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔مسلمانوں کے یہ ایم ایل اے سواۓ سرمایہ داروں کے کسی کا بھلا بھی نہیں کرتے مگر اپنی جذباتی تقریروں سے مسلمانوں کا پیٹ ضروربھر دیتے ہیں ۔شاید مسلمان اس کے علاوہ ان سے اور کچھ چاہتے بھی نہیں ۔بات چل رہی تھی نسیم خان کی کہ اگر مجلس نے بارہ سو ووٹ نہ کاٹے ہوتے تو نسیم خان جیت جاتے ۔جبکہ سچائی یہ ہے کہ نسیم خان چار سو ووٹ سے نہیں چالیس ہزار ووٹ سے ہارے ہیں !!آپ کو تعجب ہوگا کہ ہمارادماغ خراب ہو گیا ہے مگر ایسا نہیں ہے ۔خان صاحب اور ان کے مشیرکاربھی یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ اصل معاملہ کیا ہے ۔
پچھلے اسمبلی کے الیکشن میں خان صاحب کو تقریباً 73000 ہزار ووٹ ملے تھے اور وہ انتیس ہزار ووٹوں سے جیتے تھے ۔ جبکہ اس بار انہیں پچاسی 85000 ہزار ووٹ ملے ہیں پھر بھی وہ چار سو نو ووٹ سے ہار گئے تو کیوں ؟
جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ مجلس نے اپنا امیدوار نہ کھڑا کیا ہوتا تو اس کے ایک سو اگیارہ ووٹ نسیم خان کو مل جاتے اور وہ جیت جاتے یہ بات بالکل غلط ہے ۔یہ ووٹ پھر بھی خان صاحب کو کیوں ملتے؟ ۔
اس حلقے میں تین ہزار ووٹ نوٹا میں پڑے ہیں ہو سکتا ہے یہ ایک ہزار ووٹ بھی نوٹامیں چلا جاتا ۔میں نے مجلس کے کچھ ووٹروں سے پوچھا کہ آپ مجلس کو ووٹ کیوں دے رہے ہیں جبکہ اس امیدوار کی ضمانت بھی ضبط ہو جاۓ گی ۔انہوں نے کہا کہ ہم بھی جانتے ہیں مگر ہم اویسی صاحب کو بتانا چاہتے ہیں کہ اس حلقے میں آپ کو چاہنے والے بھی کچھ لوگ ہیں ۔بہت سارے حلقوں میں مسلمانوں کے ووٹ اسی طرح برباد ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنے لیڈر خواہ عاصم بھائی کیوں نہ ہوں انہیں بتانا چاہتے ہیں کہ ان کے چاہنے والے ہر جگہ موجود ہیں ۔ان کے خلوص پر سوال نہیں اٹھایا جاسکتا لیکن کیا اویسی صاحب اور عاصم بھائی بھی ان کے تئیں اتنے ہی مخلص ہیں ؟
سچ تو یہ ہے کہ جن لوگوں نے مجلس کو ووٹ دیا ہے وہ خان صاحب سے ناراض تھے ۔اگر مجلس نہ ہوتی تو یہ ووٹ وہ شیو سینا کو دے دیتے بلکہ میں یہ کہوں گا کہ خدانخواستہ مجلس نے نسیم خان کی حمایت کر دی ہوتی تو خان صاحب کے ہندو ووٹ بدک جاتے اور وہ اتنا ووٹ بھی نہ پاتے ۔سچائی تو یہ بھی ہے کہ علاقے کا مسلمان پچھلے الیکشن سے ہی خان صاحب سے ناراض تھا مگر جس طرح شعلے کے رام گڑھ کے واسیوں کی مائیں اپنے بچوں کو گبر سنگھ سے ڈرا کر سلا دیتی تھیں چاندیولی حلقے کے مسلمانوں کو دو بار سے یہ کہہ کر بیدار کر دیا جاتا تھا کہ اگر خان صاحب کو ووٹ نہیں دیا تو دلیپ لانڈے آجاۓ گا ۔یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ لانڈے نے اپنے ووٹروں کو لانڈیا سے ڈرایا اور مسلمانون کو لانڈے سے ڈرایا گیا اور اس طرح پچھلے الیکشن میں منسے کے ایشور تاوڑے اور انا ملائی نے مل کر ہندوؤں کے جو پینتالیس ہزار ووٹ کاٹے تھے ان دونوں کے شیوسینا میں شامل ہونے کی وجہ سے ان کی ووٹ سے دلیپ لانڈے کے ووٹ میں اضافہ ہو گیا ۔اس طرح شیو سینا جو پچھلے الیکشن میں تیس ہزار ووٹ سے شکست کھا گئی تھی اس باراسے چالیس ہزار کے قریب زیادہ ووٹ ملے ۔لوگ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے پانچ سے سات ہزار ووٹ لانڈے کو بھی ملے ہیں ۔اور ہندوؤں کا بڑا ووٹ جیسا کہ خان صاحب کو ملتا رہا ہے اس بار بھی ملا ہے لیکن اس میں کمی ہوئی ہے ۔سوال یہ ہے کہ پچھلے الیکشن کے مقابلے میں جو چالیس ہزار ووٹ زیادہ شیو سینا کو ملے ہیں ان ووٹوں پر خان صاحب نے محنت کیوں نہ کی اور ان کی مقبولیت کا گراف نیچے کیوں آیا ؟ظاہر سی بات ہے حلقے میں خان صاحب کی کارگردگی برابر نہیں تھی۔ پھر بھی مسلم عوام نے ایک مسلمان ہونے کی وجہ سے خان صاحب کا پورا ساتھ دیا صرف اس وجہ سے کہ گبر سنگھ نہ آجاۓ ورنہ اسی ممبئی میں جنھوں نے کام کیا وہ چیلنج کے ساتھ جیتے ہیں ۔ممبئی میں امین پٹیل اور ممبرا میں جیتندر اہواڑ کی مثال دی جاسکتی ہے ۔اہواڑ نے کہا تھا کہ میں ایک لاکھ ووٹ سے جیتوں گا مگر عام آدمی کو پچیس ہزار ووٹ ملنے کی وجہ سے وہ ستر ہزار ووٹوں سے جیت پایا ۔مجلس نے عام آدمی کی حمایت کی تھی پھر بھی وہ امیدوار ہار گیا تو کیوں؟ ۔بھیونڈی میں ابو عاصم صاحب نے کیا کام کیا ہے پتہ نہیں لیکن الیکشن سے پہلے ہی عاصم بھائی نے چیلنج کر دیا تھا کہ میں ہار سکتا ہوں مگر وہ اس بار رئیس شیخ کواسمبلی میں ضرور لیکر آئیں گے ۔رپورٹر نے پوچھا وہ کیسے ۔انہوں نے کہا میں یہ نہیں بتاؤں گا مگر الیکشن بعد دیکھ لینا کہ میں غلط نہیں تھا ۔ان کی کیا حکمت عملی تھی یہ وہی جانیں لیکن آج کے الیکشن کو جیتنے کیلئے صرف پروپگنڈہ اور خوف کی سیاست ہی کافی نہیں ہے ۔ہوم ورک بھی ہونا چاہئے جو ہماری بہت ساری مسلم پارٹیاں نہیں کر پاتیں یا ان میں یہ صلاحیت نہیں ہے ۔خیر ایک بار جو پارٹی شہرت کما لیتی ہے یاجس کا چناؤنشان مشہور ہو جاتا ہے یہ پارٹیاں اپنے امیر ترین امیدواروں سے ٹکٹ کے پیسے سے کروڑوں کی رقم تو بٹور ہی لیتی ہیں چاہے وہ مجلس ہی کیوں نہ ہو ۔
مگر مسلم عوام کو کیا ملتا ہے ۔پیٹ بھرنے کیلئے جذباتی تقریریں !
پتہ نہیں یہ بات کہاں تک درست ہے مگر سچ لگتی ہے کہ ۔۔۔
ہندوستانی مسلمانوں کی پسماندگی کے اسباب میں ان کا یہ مزاج بھی شامل ہے کہ یہ اپنی بہترین توانائیاں اور اچھا خاصا وقت جلسے ,جلوس,دکھاوے,تماشےاور زبان کے چٹخاروں میں ذائع کیا کرتے ہیں
ابھیجیت انرجی
(نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات)

Comments are closed.