خواب جو پورا نہ ہوا۔۔۔!

نازش ہماقاسمی
بی جے پی جس طرح مہاراشٹر اور ہریانہ اسمبلی جیت کر دیوالی منانے کا ارادہ رکھتی تھی اس میں اسے خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی ہے ، دیوالی ۔۔۔دیوالیہ ثابت ہونے سے تھوڑی سی چوک گئی ۔۔۔ بی جے پی صدر و مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے دونوں الیکشن کے لیے مشن متعارف کروایا تھا جس میں سیٹوں کی تعداد بتائی گئی تھی کہ ہم اتنی سیٹیں حاصل کرکے دونوں جگہ اپنے بل بوتے پر حکومت بنائیں گے؛ لیکن اس خواب کو مہاراشٹر اور ہریانہ کے عوام نے شرمندۂ تعبیر نہیں ہونے دیا، خواب خواب ہی رہ گیا۔۔۔۔ بی جے پی حکومت تو اب بھی بنائے گی؛ لیکن حمایت کے ساتھ۔۔۔مہاراشٹر میں تو پہلے بھی شیوسینا کی حمایت سے سرکار تھیَ لیکن اس حمایت میں شیوسینا کے نازونخرے اب بی جے پی کو ہرحال میں برداشت کرنے پڑیں گے، ہریانہ میں دیکھتے ہیں کس طرح جوڑ توڑ کی سیاست ہوتی ہے، جب کرناٹک میں اکثریت نہ ہونے کے باوجود حکومت کا تختہ پلٹ کر حکومت سازی کی جاسکتی ہے ۔ گوا میں اکثریت نہ ہونے کے باوجود حکومت بنائی جاسکتی ہے تو ہریانہ میں اقتدار سے کون روک سکتا ہے۔ یہ نتیجہ جس طرح بی جے پی کیلیے چونکانے والا ہے عوام کے لیے بھی ایسا ہی چونکانے والا ثابت ہوا، عوام کے ذہنوں میں تھا کہ اب کی بار فرقہ پرست سرکار نہیں بنے گی؛ لیکن عوام کو کامیابی نہیں مل سکی، انہوں نے زور تو لگایا اور بی جے پی کے غرور کو خاک میں ملا دیا ان کے مشن کو ناکام کردیا اور سوچنے پر مجبور کردیا کہ عوام اب دھیرے دھیرے سمجھ رہے ہیں کہ کون ملک کے لیے فائدہ مند ہے اور کون نقصاندہ۔
اسمبلی الیکشن میں ہریانہ اور مہاراشٹر دونوں جگہوں پر مقامی مسائل کے حل کے لیے برسراقتدار پارٹی نے کوئی بات نہیں کی؛ بلکہ دوسرے موضوعات کو اٹھاکر فرقہ پرستی کی سیاست کی گئی، عوامی ضرورت و مسائل کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا، عوام بھکمری سے پریشان ہیں ان کی شکم سیری کا کوئی حل نہیں نکالا گیا، نوجوان بےروزگار ہیں انہیں روزگار دینے کے بجائے مزید نوجوانوں کو بےروزگار اسکیم کے تحت فائدہ پہنچاکر انہیں چھٹی دی جارہی ہے، کسان پریشان حال ہیں ان کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کیا جارہا ہے خواتین کی عزت و آبرو محفوظ نہیں انہیں محفوظ رکھنے کے بجائے بڑے بڑے سیاسی لیڈران ان کے استحصال میں مشغول ہیں اقلیتوں کا جینا دوبھر ہے دلتوں کے ساتھ ناروا سلوک جاری ہے ، بڑی بڑی کمپنیاں بند ہورہی ہیں ، بینک ڈوب رہے ہیں ، معیشت چوپٹ ہے ، لیکن یہ سب مدعا نہیں ۔۔۔’گودی میڈیا ‘ ان سنگین مسائل کو کوئی اہمیت نہیں دے رہا ہے، میڈیا صرف فرقہ پرستی کو ہوا دے رہا ہے، کس طرح ہندو مسلم میں نفرت بڑھے ، کس طرح نفرت کا کاروبار عروج پر رہے کس طرح مسلمانوں کی املاک تباہ ہوں کس طرح خواتین کو خوار کیا جائے، جس سے نفرت پروان چڑھے جس سے ہندو مسلم خلیج میں دوری پیدا ہو، الفت و محبت کا پیغام عام کرنے کے بجائے نفرت، حسد اور تشدد کا پیغام پھیلایا جارہا ہے اور معصوم ذہنوں کو فرقہ پرستی کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے۔ عوام کو اب سمجھ لینا چاہیے کہ ملک میں ہمیں بنیادی سہولیات کی ضرورت ہے ، تعلیم و ترقی کی ضرورت ہے ، خود کے تحفظ کی ضرورت ہے ، روزی و روزگار کی ضرورت ہے ، اگر ان ضرورتوں کی طرف ہندومسلم کے عینک سے دیکھنے کے بجائے حقیقی معنوں میں ملک کی ترقی کے لیے دیکھا جائے تو فرقہ پرست پارٹیوں کی کامیابی کا سلسلہ رک جائے گا ۔۔۔عوام اچھے مخلص اور بے داغ رہنما کو منتخب کرنا شروع کردیں گے؛ لیکن یہاں ایسا نہیں ہے، جس پارٹی میں چور اچکے ڈاکو راہزن کی بھرمار ہو، جو پارٹی دوسرے فرقہ کی خواتین کی عصمت دری کی دھمکی دینے والے راہزنوں کی پناہ گاہ ہو وہ کیا آپ کے تحفظ کی کوشش کرے گی۔۔۔؟ آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ اس پارٹی کے لیڈران ماؤں بہنوں کی عصمت پر ہاتھ ڈالتے ہیں اور آپ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔۔۔اگر مقدمہ کریں گے تو آپ پر بھی مقدمہ ہوگا اگر عدلیہ کا سہارا لے کر جیل بھیجیں گے تو اہل خانہ پر قاتلانہ حملہ ہوگا۔
مہاراشٹرا اور ہریانہ اسمبلی انتخابات میں عوام نے بی جے پی کے کامیابی کے رتھ پر لگام لگانے کی کوشش کی ہے اس میں مزید شدت کی ضرورت ہے اگر بہتر تال میل اور اپوزیشن پارٹیوں کی متحدہ کوششیں شامل حال ہوتیں تو نقشہ کچھ اور ہوسکتا تھا خیر اپوزیشن پارٹیوں کی دونوں جگہوں پر بہترین واپسی قرار دی جاسکتی ہے امید ہے کہ دہلی اسمبلی الیکشن اور بہار اسمبلی الیکشن وغیرہ میں مناسب حکمت عملی اور ملک کی ترقی کے لیے فرقہ پرستی کے خاتمے کےلیے عوام کی فلاح وبہبود کےلیے فرقہ پرست جماعتوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں عوام اور اپوزیشن پارٹیاں قومی جذبے کے تحت میدان میں اتریں گی۔

Comments are closed.