کیا ہماری جماعتیں اور رہنما کچھ کرسکتے ہیں!

اتواریہ: شکیل رشید
آج ایک خبر نے ’مَن‘ ادا س کردیا۔
خبر سی بی آئی کے سابق ڈائریکٹر آلوک ورما کے تعلق سے تھی، وہی آلوک ورما جنہوں نے اپنے وقت میں سی بی آئی کے خصوصی ڈائریکٹر راکیش استھانا پر بدعنوانی کا الزام عائد کرکے ان کے خلاف کارروائی کی تھی۔ جواب میں راکیش استھانا نے بھی ان پر بدعنوانی کا الزام عائد کردیا تھا اور مودی سرکار نے تمام اصول وضوابط کو طاق پر رکھتے ہوئے آلوک ورما کو باہر کا راستہ دکھادیا تھا۔ اس معاملے کا اہم پہلو یہ ہے کہ راکیش استھانا، وزیر اعظم نریندر مودی کے منطور نظر تھے، وہ گجرات میں بھی کام کرچکے تھے او ربہار کے سینئر سیاست داں لالو پرساد یادو کو ’چارہ گھوٹالہ‘ میں سلاخوں کے پیچھے کرنے کا سہرا ان کے ہی سر بندھتا ہے۔
راکیش استھانا پر جو سنگین الزامات لگے ہیں ان میں سے ایک الزام عشرت جہاں ’فرضی مڈبھیڑ‘ معاملے میں ’مداخلت‘ کا بھی ہے۔ آلوک ورما کی ان کے خلاف کارروائی سے اتنا تو ہوا کہ راکیش استھانا سی بی آئی کے ڈائریکٹر نہیں بن سکے، حالانکہ اس کی پوری تیاری تھی، لیکن اس کے نتیجے میں ریٹائرمنٹ کے بعد ورما کو جو ’فوائد‘ حاصل ہونا تھے وہ نہیں حاصل ہوسکے۔ ان کی جی پی ایف روک لی گئی حالانکہ جو اصول وضوابط ہیں ان کے تحت کسی ایسے افسر کی بھی جی پی ایف نہیں روکی جاسکتی جس کی جانچ بھی کی جارہی ہو۔
یہ مرکز کی مودی سرکار کا وہ روپ ہے جو جمہوریت کےلیے بے حد خطرناک ہے۔ انتقامی روپ۔ ایسا روپ جس کا سامنا ہر اس ایماندار افسر کو کرنا پڑسکتا ہے جس نے مرکزی سرکار کی منشاء او رمرضی کے خلاف کوئی کام کیا ہو۔ ایک سرکاری افسر نے ایک ملاقات میں بتایا کہ مرضی کے خلاف کام کرنے کی بات تو چھوڑئیے ایسی کوئی بات زبان سے نکالنا بھی انتقام کا سبب بن سکتا ہے۔ مثالیں سامنے ہیں۔ جسٹس عقیل قریشی اور جسٹس وجے کملیش تاہل رامانی کی مثالیں لے لیں۔ جسٹس عقیل قریشی کی پہلے تو ترقی روکی گئی او رجب ترقی ملی او رسپریم کورٹ ’کالیجیم‘ نے مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنانے کےلیے ان کے نام کی سفارش کی تو مرکزی سرکار نے سفارش رد کردی، پھر انہیں تری پورہ کا چیف جسٹس بنایاگیا مگر انہو ںنے استعفیٰ دے دیا۔ جسٹس وجے کملیش تاہل رامانی مدراس ہائی کورٹ کی چیف جسٹس تھیں لیکن انہیں میگھالیہ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنایاگیا جو کہ ایک طرح سے ان کی ’تنزلی‘ تھی۔ انہوں نے بھی استعفیٰ دے دیا۔ اب سی بی آئی ان کی انکوائری بھی کررہی ہے۔ ان دونوں کا ’قصور‘ یہ تھا کہ انہوں نے نریندر مودی او رامیت شاہ کی ’انا‘ کو ٹھیس پہنچایا تھا۔ سہراب الدین مڈبھیڑ معاملے میں جسٹس عقیل قریشی نے امیت شاہ کو سلاخوں کے پیچھے کیا تھا او رجسٹس تاہل رامانی نے بلقیس بانو کے گیارہ ’مجرموں‘ کو سزائیں سنائی تھیں۔ یہ ’مجرم‘ چونکہ گجرات کے تھے اس لیے ’یرقانیوں‘ کو بہت پیارے تھے۔ دونوں ہی جج صاحبان کو تنائج بھگتنا پڑے، دونوں کی ترقیاں رکیں، تنزلی ہوئی اور دونوں ہی نےمایوس ہوکر استعفیٰ دے دیا۔ ایک اور شخص یاد آرہا ہے جو آج بھی اپنی ’ایمانداری‘ کےلیے سلاخوں کے پیچھے ہے۔ گجرات کے سابق آئی پی ایس سنجیو بھٹ کو صرف اس وجہ سے سزا مل رہی ہے کہ انہو ںنے یہ کہنے کی جرأت اور ہمت کی تھی کہ ۲۰۰۲ کے گجرات کے فسادات میں اس وقت کے وزیراعلیٰ نریندر مودی نے مسلمانوں کے قتل عام کی کھلی چھوٹ دے دی تھی۔ آج وہ جیل میں ہیں، ان کے اہل خانہ ان سے مل نہیں سکتے، قانون کی آنکھوں پر پٹی چڑھی ہوئی ہے۔ کیا ہماری تنظیمیں، جمعیۃ علماہند، جماعت اسلامی ہند، ملی کونسل وغیرہ وغیرہ ہمارے سیاست داں بالخصوص اسدالدین اویسی، جو بیرسٹر بھی ہیں سنجیو بھٹ کےلیے ،جو جلتے ہوئے گجرات میں مسلمانوں کے محافظ بن گئے تھے، کچھ نہیں کرسکتے؟؟

Comments are closed.