دو وقت کی روٹی کے لئے تھکتا ہوا انسان__!!

محمد صابرحسین ندوی

[email protected]
7987972043

دو وقت کی روٹی، شکم سیری، غم روزگار انسان کی زندگی کا ایسا جز ہے جس کی بنا پر انسان انسان کا بوجھ اٹھاتا ہے، اپنوں کا ہجر، دوستوں کا فراق، اور غیروں کی لعنتیں برداشت کرتا ہے، مسافتیں لپیٹتا ہے، گرد اڑاتا ہے، خود کو تھکاتا ہے، بھاگتا ہے، دوڑتا ہے، چیختا ہے اور چلاتا ہے، دن کا سورج سر پر ہے، تپش میں جان گھلی جاتی ہے، بدن تھکان سے چور ہوا جاتا ہے، پسینہ قطرہ قطرہ بہہ کر اسے شرابور کئے ہوا ہے، پورا جسم نڈھال ہو کر اس کے احسن تقویم پر سوالیہ نشان لگا رہا ہے، دھکے کھاتا ہے، دھتکارا جاتا ہے، آزادی میں غلامی کی زنجیریں ہیں__ یہ سب کس لئے؟ صرف اس لئے کہ نان شبینہ کو محتاج نہ ہوجائے، آنے والی رات وہ بھوکا نہ سوجائے، اس کی فیملی، اس کا گھرانہ خالی پیٹ نہ رہے، یہ آرام نہیں، آسائش نہیں؛ بلکہ انسان کی ضرورت ہے، آج پوری دنیا کی آبادی کا کوئی نقطہ اگر قرار دیا جاسکتا ہے، تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ سارے پیٹ کے ارد گرد طواف کر رہے ہیں، کوئی کم تو کوئی زیادہ لیکن مقصود یہی ہے، خواہش یہی ہے۔
خدا تعالی نے رزق کی تقسیم کی ہے اور وعدہ ہے کہ کوئی بھی بھوکا نہ ہوگا، اور ہوگا تو یہ سمجھا جائے گا وہ اپنے مقدر کا رزق پا چکا ہے یا اس کے مقدر پر کسی نے شب خوں مارا ہے، کسی ظالم پنجہ نے اس کا کھانا دبوچ لیا ہے، اس حقیقت کے باوجود انسان جس قدر رزق کے لئے پریشان ہوتا ہے، تگ و دو کرتا ہے، اسے دیکھ کر بڑی حیرانگی ہوتی ہے، حتی کہ اس میں اور دیگر حیوانات میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا، چنانچہ دوسری مخلوقات بھی رزق کیلئے پریشان ہوتی ہیں، حیوانات اور درندوں کی اصناف بھی رزق کیلئے کوششیں کرتی ہیں، شکار کرتے ہیں، خود کی جان خطرے میں ڈالتے ہیں، اور کسی اور کی جان لے کر اپنی جان کی پیاس بجھاتے ہیں؛ لیکن انسان ایسا کیوں ہوگیا کہ وہ بھی اپنی جان کی پیاس کسی جان کی قربانی اور خود کی مختاری کو طاق پر رکھ کر ہی پاتا ہے، وہ جو نہ کر سکے وہ کرتا ہے، چند سکوں اور ٹکوں کیلئے بہت حد تک اپنا معبود تک بدل لیتا ہے، اپنا مسجود اور قبلہ و کعبہ بھی چن لیتا ہے، اور کسی مادی طاقت کے آگے سر نگو ہوجاتا ہے، اپنا استحصال کرواتا ہے، اپنے ارمانوں کا خون کرتا ہے، اپنے آنسووں کی قیمت لگاتا ہے، اپنی صلاحیتوں اور جذبات کو بیچتا ہے، ہنر اور قابلیت کی بولی لگاتا ہے۔
انسان تو اس قدر مجبور ہوجاتا ہے کہ وہ انسان کا ہی بوجھ اٹھاتا ہے، رکشہ کھینچتا ہے، اور انسان کو ایک منزل سے دوسری منزل تک پہونچاتا ہے، کیسے کیسے بوڑھے، نادار، لاچار، وقت کے مارے جو انسان ہو کر اپنی مرضی کو قربان کرنے پر مجبور ہیں، وہ وقت کے ہاتھوں مجبور ہوگئے ہیں، عمریں تھک گئی ہیں، بازوں میں طاقت نہیں، اگلا قدم قبر میں پڑا ہوا ہے، اب اور تب کی حیثیت بنی ہوئی ہے؛ لیکن دیکھئے کہ وہ انسان کہلانے کا مستحق ہے، مگر انسانوں کی زندگی کا مستحق نہیں ہے، وقت وقت پر یہ خیال آتا ہے؛ کہ خدا کی اس خوبصورت دنیا کو کس نے اس قدر بد نما کر دیا ہے، جہاں انسان انسان کا بوجھ اٹھاتا ہے، انسان ہو کر بھی وہ خود اور خودی سے دور ہے، عمریں کٹ گئیں لیکن پیٹ کی لعنت اب بھی ساتھ ہے، دو پل کا سکون میسر نہیں، دھوپ میں پسینہ بہاتا وہ بوڑھا اپنے چہرے کی جھریوں اور نشیب و فراز پر ماتم کناں ہے، لیکن زندگی اسے راحت دینے کو تیار نہیں، خدا تعالی نے تو اسے اشرف بنایا تھا، اس کے پیروں میں دنیا کی تمام مخلوقات رکھ دی گئی تھیں، وہ مسجود ملائک بنا گیا تھا، پھر بھی انسانوں نے اپنی شکم پروری بلکہ شکم پرستی میں کیسے اس انسانیت کو کچل دیا؟ کیسے اس اشرف کو ارذل کی حیثیت دیدی؟ کیا یہ عنداللہ ماخوذ نہ ہوں گے؟

23/10/2019

Comments are closed.