امت کے لئے درد سر نہ بنیے__!!!!

محمد صابرحسین ندوی
[email protected]
7987972043
مومن کی فراست کا کوئی جواب نہیں، وہ اپنی مومنانہ شان سے وہ سب کچھ دیکھ سکتا ہے، جو کسی عام انسان کے لئے ممکن نہیں، قرآن و سنت اور حکمت و دانائی کا ایک بڑا ذخیرہ اس کے پاس ہوتا ہے، اس کی شروعات لاالہ کے ذریعے ہی ہوجاتی ہے، ایک ذات کی تائید اور بقیہ تمام خداوں سے روگردانی کا یہی تو مطلب ہے؛ لیکن ان سب کے لئے یہ بھی شرط ہے کہ ایمان انسان کے دل کا حصہ ہو، اس کی حلاوت خواہ اعلی مقام کی نہ ہو مگر اتنی ضرور ہو کہ اس کا دل لگا رہے، نگاہوں میں اطاعت کی چمک ہو، اور پیشانی نور الہی سے منور ہو ____ لیکن اکثر مومنین کا حال یہ نہیں، بلکہ اسے گزشتہ قوموں کی زینت ہی کہہ سکتے ہیں، اور دور حاضر کا المیہ؛ کیونکہ اب مومنین کا یہ خاصہ تقریبا ناپید ہوتا جارہا ہے، بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں کی ایک بڑی دقت یہ بھی ہے؛ کہ وہ فراست ایمان سے محروم نظر آتے ہیں، اپنے ہی پیڑوں پر کلہاڑی مارنے کی کہاوت ان کی عادت بن گئی ہے، زور زبردستی اور معاملہ سے کج فہمی کی بنا پر سارا رخ نفرت و عداوت کی طرف موڑ دینا انہیں خوب آتا ہے، اقلیت میں رہنے کے باوجود اکثریت کا گمان پال لینا، حکومت سے ہزاروں کوس دور ہونے کے باوجود حکومت ہلا کر رکھ دینے کا بھرم رکھنا، آئین سازی میں دور دور تک اپنا وجود نہ رکھتے ہوئے بھی عدالت عظمی پر کورانہ اعتقاد کرنا وغیرہ__ ایسی سینکڑوں مثالیں ہیں جو روز روشن سے بھی زیادہ عیاں ہیں۔ سیاست کے میدان میں صفر ہیں، قیادت ندارد ہے، مسلکی اختلافات کا انبار لگا ہوا ہے، ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنانے کی ہوڑ لگی ہوئی ہے، مگر تیور کسی شاہ و سلطان کے ہوتے ہیں، جیسے اکبر نے پھر سے گدی سنبھال لی ہو یا پھر سے اورنگ زیب عالمگیر کا دور شروع ہوگیا ہو۔
ہماری ایک بہت بڑی پریشانی یہ بھی ہے کہ جوش و جذبہ میں سب کچھ بھول جاتے ہیں، بے محل طاقت کا مظاہرہ اور بے جا مباحثہ کو چھیڑ کر خود کو رسوا و ذلیل کرنے کا سامان خود ہی فراہم کر دیتے ہیں، غیرت و حمیت کی باتیں کرتے ہیں، دینی جذبات اور ملی حمیت پر مر مٹنے کی خواہشیں پالتے ہیں، اور اس الزام میں بے سر وپا کے اقدامات بھی کر بیٹھتے ہیں، لیکن اتنا نہیں سمجھتے کہ دشمن جمہوریت کی تلوار چھپائے بیٹھا ہے، وہ سیکولرازم کا پردہ کیے ہوئے ہے؛ چنانچہ اگر حد پار کی گئی اور مذہبی تشدد کا مظاہرہ کیا گیا ہے، تو یقینی ہے کہ اس کا اثر برعکس ہوگا، مخالفین پیدا ہو کر متشدد ہو جائیں گے، وہ پھر اپنا زور استعمال کریں گے، حکومت کا سہارا لیں گے، اور دن کی روسنی میں قتل عام مچا دیں گے، یہ کوئی لفاظی نہیں اس کی متعدد مثالیں آزاد ہند کے بعد سے ہی دیکھی جارہی ہیں؛ لیکن افسوس مسلمان اپنی روش پر گازمن ہے، اسے امت مسلمہ کو پھندے میں پھنسا دینے اور معصوموں کی قربانی دینے میں ہی مزہ آتا ہے، باہمی انتشار کو دور کرنے، مذاکرات کی راہ اپنانے کی فکر نہیں، بچی کچھی قیادتیں اپنی نسلیں سنوار رہی ہیں، اپنا وقار بڑھانے اور اپنا معیار بلند کرنے میں مصروف ہیں____ رہ گئی عوام تو اسے جذبات کی آندھی اڑائے لے جارہی ہے، اور پھر وہ ہوا کے دوش پر اڑتے جارہے ہیں، کاش__ مومنین اپنا محاسبہ کرتے اور ایسی بچکانی حرکتوں سے امت کیلئے درد سر نہ بنتے___!!!
24/10/2019
Comments are closed.