علماء کرام کو قبلہ نما ہونا چاہیے!!!

محمد صابرحسین ندوی
[email protected]
7987972043
علماء کی اہمیت جگ ظاہر ہے، ان کے پاس نبوی علوم کا پرتو اور تعلیمات محمدیﷺ کا نور ہوتا ہے، وہ بیک وقت دین اور دنیا کی ضروریات اور تقاضوں کو سمجھتے ہوئے انسانی زندگی میں اہم کردار ادا کرنے صلاحیت رکھتے ہیں، بعض نام نہاد اور صرف سندی مولویوں کو چھوڑئیے اور غور کیجئے! تو معلوم ہوگا کہ اس گئے گزرے دور میں بھی علماء کی صف بہت ہی صاف ستھری ہے، اگر کوئی واقعی علم ربانی سے مستفیض ہو اور خشیت الہی سے معمور ہو تو وہ انسانیت کا سب سے بڑا محسن اور سب سے کارگر شخص ہے؛ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس طبقہ میں بھی دین اور دنیا کی تمیز اور انسانی جمگھٹے سے دور رہ کر رہبان و پادریوں کی طرح زندگی بسر کرنے کا چلن چل پڑا ہے، ان میں مرکزیت اور جامعیت کھوتی جارہی ہے، وہ شمع محفل ہونے کے باوجود کسی ایک کونے کو روشن کرنے میں مصروف ہیں، بلکہ بسااوقات وہ کونہ بھی تاریکی کے عالم میں رہتا ہے اور خود کا نفس ہی زور پکڑتا رہتا ہے، یہ افسوس کن صورتحال ہے، جس قوم میں جہالت بڑھ رہی ہو اور حالات کے بادل گھنے ہوتے جاتے ہوں؛ کوئی پناہ گاہ نظر نہ آتی ہو اور کسی بھی وقت اچک لئے جانے کا خطرہ ہو اس وقت علماء کا یہ رویہ درست نہیں، وہ گویا میدان عمل سے بھاگ رہے ہیں، اپنا امتیاز کھو رہے ہیں، مفکر اسلام سیدی ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ نے علماء کی اس کمزوری پر انگلی رکھی ہے، اور انہیں بہت خوب نصیحت کی ہے، ضرورت ہے کہ اس پر غور کیا جائے، ایک مقام پر آپ رقمطراز ہیں:
"لوگوں نے چھوٹے چھوٹے واقعات،اور روز مرہ کے مشاہدات سے بڑے بڑے نتائج نکالے ہیں، اس میں شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ خاص طور پر بڑے ممتاز ہیں،اسی طریقہ سے مولانا روم رحمت اللہ علیہ مثالوں کے بادشاہ ہیں، دونوں روزمرہ کے واقعات سے بڑی حکیمانہ باتیں اور بڑے عمیق نتائج نکالتے ہیں، میں بھی اپنا اسی قسم کا ایک تاثر اور عبرت کا سبق پیش کرتا ہوں، آپ کو معلوم ہے کہ میں ایک طویل سفر کرکے آرہا ہوں، دہلی سے چلا اور حیدر آباد پہونچا، خدا جانے گاڑی نے کیا کیا رخ بدلے، کن کن علاقوں سے گزری؛ لیکن قبلہ نما نے ہمیشہ صحیح قبلہ بتایا، اس نے نہ گاڑی کے پھرنے کی پرواہ کی، نہ سمت کے تبدیل ہونے کی، مجھے بڑا رشک آیا کہ ایک ادنی سی جماداتی چیز جو انسان کی صنعت ہے، وہ اتنی امین، ایسی ثابت قدم، ایسی خوددار اور ایسی پابند اصول ہے؛ کہ اس نے نہ یہ دیکھا کہ گاڑی کس طرح رخ بدل رہی ہے، ہر جگہ اس نے صحیح طور پر قبلہ بتایا، اور ہم نے اس پر اعتماد کیا اور نماز پڑھی، اس سے مجھے بھی غیرت آئی، اور عبرت بھی ہوئی کہ قبلہ نما تو کسی کی پروا نہ کرے، اور ہمیشہ سمت قبلہ بتائے، اس نے اپنا مقصد وجود تبدیل نہیں کیا، اور نہ اپنے فرض منصبی کی ادائیگی میں فرق آنے دیا، اس سے مجھے خیال ہوا کہ علماء دین کو حقیقت میں "قبلہ نما” ہونا چاہیے، ان کے اندر قبلہ نما کی سی استقامت ہوئی چاہیے، کسی طرف کی ہوا چلے اور کہنے والے کتنا ہی کہیں کہ: "چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کو”_ اور سمجھانے والے کتنا ہی سمجھائیں: "زمانہ باتو نہ ساز تو بازمانہ بہ ساز”__ لیکن ان کا عقیدہ اقبال کی اس تعلیم پر ہو:
حدیث کم نظراں ہے تو بازمانہ بساز
زمانہ باتو نہ سازد تو بازمانہ ستیز
(دیکھیے: خطبات مفکر اسلام حضرت سید ابوالحسن علی ندوی: ۶ /۲۵۹)
25/10/2019
Comments are closed.