یہ ۰۰۰۰ اداروں کا کھوکھلا پن___!!!

محمد صابرحسین ندوی
[email protected]
7987972043
ایک دور میں بالخصوص ہندوستانی دینی اداروں نے امت مسلمہ کے اندر کلیدی کردار ادا کیا ہے، وہاں سے علم و عمل کا بحر بیکراں جاری ہوا ہے، نبوی سرچشمہ پھوٹا ہے، امت کے مسائل حل ہوئے ہیں، بکھری قوم نے ایک ملت بن کر باطل سے مقابلہ کیا ہے، قرآن و حدیث کی خدمت کی ہے، فقہی ذخائر تیار کروائے ہیں، علمی مجموعے بنوائے ہیں، غیر عربی ہونے کے باوجود بہت سے میدانوں میں عرب سے بڑھ کر خدمت کی ہے؛ بلکہ یہاں تک کہہ دیا گیا ہے کہ قرآن نازل ہوا عرب میں، پڑھا گیا مصر میں اور سمجھاگیا ہندوستان میں__ بلاشبہ یہ غلو ہے؛ لیکن ہندوستانی اداروں کی عظمت پر دلیل ہے، اور ان جامعات و مراکز کی بلندی کو ضرور جھلکاتا ہے، ان اداروں نے نسلیں تیار کی ہیں اور دینی خدمات کا وہ مثالی کردار ادا کیا ہے، جس سے پوری دنیا واقف ہے، ہر کوئی رشک کی نگاہوں سے دیکھتا ہے، تعظیم کرتا ہے، اسے افق کا بلند ترین تارہ اور سیارہ سمجھتا ہے، ان سے نکلا ہوا ایک ایک فرد شہباز کی قوت رکھتا ہے، شاہین ہے، نگہبان ہے، انہوں نے سیاست و معاشرت پر یکساں اثر ڈالا ہے۔
لیکن ٹھہرئے! ذرا رکیے!! اور یہ بھی جان لیجیے؛ کہ پچھلے کئی عرصہ سے ان اداروں کی روح مرتی جارہی ہے، ان سے نکلنے والا ہر فارغ ایک خاص نگاہ اور خاص عینک لے کر ہندوستان کی سرزمین پر قدم رکھتا ہے، اپنا الگ ہی نظریہ رکھنے والا یہ شخص متعصب ہوتا ہے، غالی ہوتا ہے، اپنے نظریہ کو ثابت کرنے کیلئے دلیل کے بجائے کسی بھی سطحی حرکت تک جا سکتا ہے، ان اداروں میں نصاب قرآن و سنت کی بنیاد پر قائم ہے؛ لیکن مرکزی کتابیں اکابرین کی تشریحات و توضیحات قرار پاگئی ہیں، ان کا قلم ہی حرف آخر مانا جاتا ہے، جدید تحقیقات کے دروازے بند ہیں، اجتہاد کا فقدان ہے، مجتہدین کا کوئی پتہ نہیں، علمی موشگافیوں کا مدار ماضی کی تحقیقات ہی رہ گئی ہیں، اس حیران کن تعطل اور نظام کا تجزیہ کیا جائے تو صاف اندازہ ہوتا ہے کہ یہ عصر حاضر کے مطابق نہ تو دینی ضرورتیں مکمل کر پاتی ہیں اور نا ہی دنیاوی میدان میں کسی کے قابل اعتنا ہوتی ہیں۔
وقت بدلتا ہے، زمانہ کا مطلوب بدلتا ہے، تقاضوں میں بدلاو آتا ہے، لوگوں کی سوچ بدلتی ہے، نصاب بدلتے ہیں، حالات بدلتے ہیں، اور بدلنا بھی چاہئے! یہ سب طبعی امر ہیں، یہ قدرتی نظام ہے؛ لیکن آپ ان اداروں کو کسی قدیم ڈھانچے پر ایسے دیکھیں گے گویا یہی ڈھانچہ اس کو رب ازلی کی طرف سے ملا ہوا ہے، اسی پر قسم لی گئی ہے، کسی غیبی طاقت کی تائید حاصل ہے، اور اس سے سر مو انحراف پر عذاب الہی کا خوف دلایا گیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ وہ قدامت پرستی کو بھی اپنا ہنر سمجھتے ہیں، الٹے پیر پر لوٹے جانے کو اپنا خاص رنگ دے دیتے ہیں؛ قرآن و سنت پر عمل کرنے کے نام پر اپنی بوسیدہ خیالی کا جواز پیش کرتے ہیں، انہیں لاکھ دلائل دیجئے؛ لیکن وہ مقصود کو سمجھنا بھی گوارا نہیں کرتے، ان کے مباحث کا انداز دیکھئے، علمی حلقوں کے موضوعات ٹٹولیے، سب میں عجب بودہ پن نظر آئے گا، بالخصوص ان اداروں کی باہمی چپقلش دیکھیے، اندرونی سازشوں کی تہوں میں جائے، آپسی رسا کشی کا مطالعہ کیجئے، وہاں کی فضا میں چند دن سانس لے کر دیکھیے!
یقین جانیے اگر آپ سب کچھ جان گئے تو ایسا تعفن محسوس کریں گے؛ کہ جیسے کسی مردہ جسم کو ہفتوں سے گھر میں رکھ کر سڑایا گیا ہو، کسی مہلک مرض کا شکار بدبودار صورت میں جلوہ نما ہو، کوئی ٹھہرا اور گدلا پانی ہو، وہاں بزرگیت میں وہ شیطانیت نظر آئے گی؛ کہ ایک عام آدمی بھی اس سے کہیں بہتر نظر آئے گا، جو صبح کو اٹھتا ہے اور اپنے کام پر جاکر دن بھر محبت کرتا ہے، خود کو تھکاتا ہے، چور چور کرتا ہے، اور روزی روٹی کا بندوبست کرتا ہے، اگر یہ کہا جائے کہ ان اداروں میں علمی دنیا کم پلتی ہے؛ بلکہ (کاش یہ نہ لکھنا پڑتا_ مگر خاکم بدہن کہنا پڑتا ہے) اس کے سینہ سے شرور و فتن سیراب ہوتے ہیں، ان میں وہ کینسر لگ گئے ہیں جن کا کوئی علاج نہیں؛ بلکہ اگر کسی نے علاج کرنے سوچی بھی تو وہ زندیق، فاسق، ناصبی اور ہوسکتا ہے کہ خارج عن الاسلام قرار پائے گا، چنانچہ نہ جانے کتنی آوازین اتھتی ہیں لیکن مصلحت کی چادر میں دبا دی جاتی ہیں، مگر کوئی کان نہیں دھرتا، کوئی سنتا نہیں، سبھی بہرے ہوجاتے ہیں؛ بلکہ اسے باغی بتا کر اور فاشسٹ دکھا کر” سب کچھ ٹھیک ہے” کا نعرہ لگا دیا جاتا ہے، اگر ہوش کے ناخن نہ لئے گئے اور اپنے اندر اخلاص و للہیت کے ساتھ نظام تعلیم پر سرجوڑ کر نہ بیٹھا گیا تو انتظار کیجیے کہ یہ ادارے تقدیس کی دیوی بن کر رہ جائیں__!!
26/10/2019
Comments are closed.