معاشی تنگی سے مجبور خواتین کا انتہائی قدم

نازش ہما قاسمی
ملک میں خواتین کو بااختیار بنانے کی طرح طرح کی اسکیمیں ہیں جو حکومتی اداروں اور این جی اوز کی سرپرستی میں نافذالعمل ہیں جن کے ذریعے خواتین کو بااختیار بنانا ان کے مسائل حل کرنا اور دیگر بنیادی ضرورتیں شامل ہیں جن کا خاطر خواہ فائدہ بھی ہورہا ہے اور بیٹیاں نام کما رہی ہیں گولڈ میڈل جیت رہی ہیں ملک کا نام روشن کررہی ہیں وہیں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کچھ خواتین جن کے مقدر میں شاید ابھرنا نہیں لکھا ہے ان کی زندگی کسمپرسی میں گزر رہی ہے اور اکثریت خواتین کی یہی ہے کہ وہ مزدوریاں کرتی ہیں کھیتوں میں کام کرتی ہیں ٹرینیوں کی پٹریاں صاف کرتی ہیں نازک جسم کے ہوتے ہوئے مشقتوں والا کام کرتی ہیں پتھر توڑتی اور ڈھوتی ہیں اینٹ بھٹوں میں کام کرتی ہیں اور استحصال کا شکار ہوتی ہیں اس طرح کی خواتین آپ کو ملک کے ہر گاوں ہر پنچایت ہر بلاک ہر تھانہ ہر ضلع اور ہر صوبے میں مل جائیں گی- جن کے مسائل اس ترقی یافتہ دور میں بھی حل نہیں ہوئے ہیں اور روزانہ کنواں کھود کر پانی پینا ان کا مقدر ہے خوشحالی کون سا پرندہ انہیں اس چڑیے کا حلیہ بھی نہیں معلوم، بس دو وقت کی روٹی مل جائے اور کچھ نہیں – خواتین کا کام گھروں کو سنبھالنا تھا اور بچوں کی تعلیم تربیت کرنا تھا وہ گھروں کی ملکہ تھیں؛ لیکن آزادی نسواں کے پرستاروں نے انہیں چہار دیواری سے تو آزاد کرا دیا؛ لیکن جو تحفظ انہیں چہار دیواری میں میسر تھی وہ نہیں دے سکے؛ بلکہ وہ اپنے کام میں مخلص ہیں ان کا مقصد ہی عورت کو گھروں سے نکال کر ان تک پہنچنا تھا اور وہ پہنچ بھی گئے خواہ کسی کا استحصال ہو انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا ان کی ہوس پوری ہورہی ہے یہیں سرمایہ دنیا ہے اور وہ مگن ہیں ۔
ایک خبر نے چونکا کر رکھ دیا اس ترقی یافتہ دور میں بھی خواتین کا یہ حال سوچنے پر مجبور کررہا ہے کہ اگر امریکہ و یوروپ کی ہوتی تو کوئی پریشانی نہیں ہوتی خبر ہندوستان کی ہے اور وہ ریاست بھی مہاراشٹرا کی، اطلاع کے مطابق بیڑ ضلع میں کئی خواتین نے ڈاکٹروں کے ذریعے اپنا رحم نکلوا دیا ہے، جی رحم مادر جہاں بچہ پرورش پاتا ہے اور نسل بڑھتی ہے ان خواتین کو اب بچے نہیں ہونگے اور وہ اولاد کی خوشیوں سے محروم ہو جائیں گے، رحم نکالنے کی وجہ جو سامنے آئی ہے وہ انتہائی لرزہ خیز ہے ان خواتین کا کہنا ہے کہ ایام خصوصی میں ہم کام کرنے نہیں جاپاتے ہیں جس کی وجہ سے مالکان ہمارے پیسے کاٹ لیتے ہیں اور ہماری معاشی تنگی میں اضافہ ہوجاتا ہے؛ اس لیے اس تنگی سے بچنے کیلیے ہم نے اپنا رحم نکال دیا؛ تاکہ کوئی پریشانی نہ ہو اور ہم کام پر روزانہ جاسکیں-رپورٹ کے مطابق ڈاکٹرس بھی ان سے کمائی کررہے ہیں، حالانکہ انسانیت کے ناطے انہیں ان کی کونسلنگ کرنی چاہئے لیکن پیسے آرہے ہیں کسی کی زندگی اور خاندان اجڑے انہیں کیا فرق پڑنے والا۔ جو تنظیمیں آزادی اور برابری کا نعرہ لگا رہی ہیں انہیں اس ضمن میں سوچنا چاہیے اور ان خواتین کی مدد کو آگے آنا چاہیے؛ کیونکہ ابھی تو ان کی جوانی ہے؛ اس لیے وہ کمزور رہتے ہوئے بھی طاقت، ہمت لگاکر محنت کررہی ہیں؛ لیکن جب جوانی ڈھلے گی اور بچوں کو خدمت کا موقع ملے گا کہ وہ بوڑھے والدین کی خدمت کریں تو انہیں بچے میسیر ہی نہیں ہونگے؛ کیونکہ انہوں نے تو اپنا رحم نکال دیا تھا۔
اسلام میں عورتوں کو جو مقام عطا کیا گیا ہے دوسرے مذاہب میں اس کا تصور ہی نہیں، پھر بھی اسلامی خواتین کی کردار کشی کی جارہی ہے اپنی بگڑی ہوئی خواتین کا بدلہ اسلامی مسلم خواتین کو بگاڑ کر لینے کی کوشش کی جارہی ہے جس میں وہ کامیاب بھی ہورہے ہیں اور گھروں کی چہار دیواری پھلانگ کر سرعام گھومنا یہاں بھی اب دیکھنے کو مل رہا ہے جس سے ہونے والے نقصانات سے امت مسلمہ جوجھ رہی ہے اور اگر یہی حال رہا تو مسلم معاشرے میں الحاد و بے دینی کا دور دورہ ہوگا خدا ہماری ماؤں بہنوں کو اسلامی احکامات پر عمل کرنے والا بنائے، بازاروں کے بجائے گھروں کی زینت بنائے جس کی وجہ سے خاندانی نظام اٹوٹ رہے ناچاقی و اختلافات نہ ہوں اور خوش و خرم زندگی بسر ہو- اسلام میں خواتین کی ذمہ داری شادی سے قبل والدین کی اور شادی کے بعد ان کے شوہروں کی ہوتی ہے اور الحمدللہ عمومی طور پر مسلمان اس پر عمل پیرا ہیں اور اپنی زینت کو چہار دیواری میں محفوظ رکھ کر یہود و نصاری اور مشرکین کی سازشوں کو مکمل کامیاب نہیں ہونے دے رہے ہیں- اللہ ہماری خواتین کی عصمت و عفت کی حفاظت فرمائے اور ہمیں بھائی بیٹا شوہر کے ناطے اپنی بہنوں ماؤں اور بیویوں کے حقوق ادا کرنے والا بنائے؛ تاکہ وہ ہم پر فخر کرسکیں اور دیگر خواتین سے موازنہ کرتے ہوئے خود کو محفوظ اور پاکیزہ تصور کرسکیں۔
Comments are closed.