یہ کہاں…… آگئے ہم!

وصیل خان
ابھی زیادہ دن نہیں گذرے ہیں یہ اس وقت کی دہلی کا واقعہ ہے جب اندراگاندھی اس ملک کی وزیراعظم ہوا کرتی تھیں انہیں کابینی وزراء کی تعداد میں اضافہ کرنا تھا انہوں نے بہت سوچ بچار کرکے کچھ لوگوں کو منتخب کیا تو اس میں ایک نام روی شنکر اپادھیائے کا بھی تھا جو مجاہدآزادی اور مہاتما گاندھی کے ساتھیوں میں سے تھے جن کی نیک نفسی اور ایمانداری کا شہرہ تھا اندرا جی نے انہیں خط لکھا کہ وزارتی ذمہ داری کیلئے آپ کا نام تجویز کیا گیا ہے اور جلد ہی حلف برداری کیلئے آپ کو دعوت نامہ بھیج دیا جائے گا ۔ خط ملتے ہی ان کی آنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے اس وقت اپادھیائے جی سے ملنے کچھ لوگ آئے ہوئے تھے انہیں بڑی حیرت ہوئی کہ لوگ وزارت جیسے اعلیٰ ترین عہدے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگادیتے ہیں بلکہ اس کے حصول کیلئے جوڑتوڑکرکے سفارشات اور مال و زر کا انباربھی لگادیتے ہیںلیکن اپادھیائے جی کو کیا ہوگیا ہےکہ بغیر کسی کوشش و تلاش کے اتنا جلیل القدر عہدہ جب خود ان کے قدموں پر ڈالا جارہا ہےتو وہ خوش ہونے کے بجائے رورہے ہیں ۔لوگوں نے جب ان سے رونے کا سبب معلوم کیا تو کہنے لگے میرے لئے یہ خوشی کا موقع نہیں ہے یہ بہت بڑی ذمہ داری کا معاملہ ہے میرے کاندھوں پر بہت بڑا بوجھ ڈال دیا گیا ہے مجھے نہیں معلوم کہ اس امتحان میں کامیاب ہوتا ہوں یا ناکام رو اس لئے رہا ہوں کہ اگر ناکام ہوا تو بھگوان کو کیا منھ دکھاؤں گا جو یقینا ً مجھ سے اس تعلق سے بازپرس کرنے والا ہے ۔
فی زمانہ سیاست اور الیکشن کا بہت کریز ہوگیا ہے عوام الناس کا ایک بڑا طبقہ سیاست سے جڑنا چاہتا ہے بڑے تو بڑے نوجوانوں میں بھی یہ لت بری طرح پھیلتی جارہی ہےحالانکہ ان کی عمر اور حالات کا یہ تقاضا نہیں کہ وہ سیاست کی طرف متوجہ ہوں انہیں تو پڑھنے لکھنے میں من لگانا چاہیئے اور ہر حال میں حصول تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیئے کیونکہ یہ دو ر تعلیم کا دور ہے ،خصوصا ً مسلم نوجوانوں کیلئے تو انتہائی ضروری ہے کیونکہ اسی کے ذریعے وہ سماج میں سرخروئی اور اعلیٰ مدارج حاصل کرسکتے ہیں ۔ پھر بھی اگر بدقسمتی سے وہ اپنا تعلیمی سفر جاری نہ رکھ سکے تو فورا انہیں بزنس کی طرف اپنی طاقت مبذول کردینی چاہیئےلیکن اگر یہاں بھی وسائل و ذرائع کے فقدان کا وہ شکار ہوئے تو نہایت سنجیدگی کے ساتھ انہیں کسی اچھے ہنر کے حصول میں اپنی طاقت لگا دینی چاہیئے ۔لیکن عجیب بات ہے کس لئے آئے تھے اور کیا کرچلے ۔اس کی صاف وجہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ مادی چمک دمک سے لوگوں کی آنکھیں چندھیا گئی ہیں، لوگوں میں خاص طورپر نوجوانوں میں کسی محنت کے بغیر دولت کا ڈھیر جمع کرلینے کی خواہش بڑھتی چلی جارہی ہےہر طرف حصول تعیش کی ہوڑ لگی ہوئی ہے ان کے ذہنوں میں یہ بات گھر کرگئی ہے کہ سیاست ایک ایسا دروازہ ہے جہاں داخل ہونے کے بعد سب کچھ بڑی آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔حالانکہ لوگوں کی اکثریت یہ جتلاتے ہوئےکسی سیاسی پارٹی میں شامل ہوتی ہے کہ اس کے ذریعے وہ عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں ،اور مسائل کا نمٹارہ کرکے عوام کوتمام پریشانیو ں سے نجات دلانا چاہتے ہیں ،لیکن زیادہ ترلوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ کسی خاص یا کلیدی عہدے پرپہنچ کر سب کچھ بالائے طاق رکھ دیتے ہیںاور اگر قسمت نے یاوری کی اور انہیں کارپوریشن یا پھر کسی ریاستی سطح کی سرکاری کمیٹی میں جگہ مل گئی تو ان کا نشانہ بس یہی ہوتا ہے کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے مال بٹورلیں کیونکہ انہیں یہ یقین ہوتا ہےکہ وہ لوٹ پاٹ کی اس زورازوری میں اگر ذرا بھی چوکے تو پھر شاید دوبارہ یہ موقع ہاتھ نہ آئے کیونکہ ان کے پیچھے لمبی قطار لگی ہوئی ہے اور وہ قطار پوری قوت کے ساتھ رسہ کشی میں مصروف ہے نہ جانے کب کدھر سے کوئی انکش ان کے گلے اور پیروں میں آلگے اور وہ پیچھے کی طرف کھینچ لئے جائیں ۔ ابھی تو عمر ہے کرلو خطائیں جی بھر کے ۔ پھر اس مقام پہ عمر رواں ملے نہ ملے ۔ اگر آپ کسی بھی مسلم علاقے یا بستی کا جائزہ لیں تو سب سے پہلے آپ کی نظر وہاں کی غلاظت اورمکھیاں بھنبھناتے کچرے کےڈھیروںپر جائے گی گندگی اور تعفن ظاہری بھی اور باطنی بھی یہی مسلم علاقوں اور محلوںکی شناخت بن چکی ہے ۔ایک صاحب نے تجزیہ کرتے ہوئے کس قدر درست بات کہی ہے کہ دوران سفر اگر آپ کو کوئی ایسا علاقہ نظر آجائے جہاں جگہ جگہ غلاظتیں بکھری ہوں مرغیاں اور بکریا ں کچرے کے ڈھیروں پر اپنی خوراک تلاش کررہی ہوں اور آس پاس کہیں ننگ دھڑنگ بچے اسکول و درسگاہوں سے نا آشنا کھیل کود میں مصروف ہوں تو سمجھ جایئے کہ ہم کسی مسلم علاقے میں پہنچ گئے ہیں ۔ ہم جہاں رہتے ہیں وہاں ڈھیروں سرکاری اور غیر سرکاری دفتروں کا جال سا بچھا ہوا ہے صبح صبح ان دفاتر کی طرف جانے والوں کا ایک ریلا بہتا نظر آتا ہے جو بڑی تیزی سے ان دفاتر کی طرف رواں دواں ہوتا ہے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہمارے علاقے سے گزرنے والی اس سڑک سے جب گزرتی ہے تو ان کی انگلیاں ان کی ناک پر ہوتی ہے کیونکہ سڑک کے کنارے کچروں اور غلاظتوں کا ڈھیر پڑا ہوتا ہے لیکن کسی کو اس کی توفیق نہیںہوتی کہ وہ صاف صفائی کی مہم چلائے اور ان علاقوں کو گندگی سے پاک کرے ،کتنی المناک بات ہے کہ جس مذہب میںطہارت کو آدھا ایمان قرار دیا گیا ہے اسی مذہب کے پیروکاروںمیںگندگی کا گراف سب سے زیادہ پایا جاتا ہے ۔
خیر یہ باتیں تو ضمناًزیر تذکرہ آگئیں حالانکہ یہ ہماری گفتگو کا موضوع نہیں تھا ۔اصل موضوع تھا الیکشن اور مسلم نوجوانوں کی اس سے رغبت و دلچسپی ۔فی الحال مہاراشٹر اور ممبئی میں اسمبلی انتخابات کی گہما گہمی عروج پر ہے ۔مسلم علاقوں میں تو جشن جیسا سماں ہے جہاں کوئی بھی پارٹی اجنبی نہیں ہے ہر پارٹی کیلئے پوری دل جمعی کے ساتھ نوجوانوں کی ٹولی سرگرم عمل ہے سب کے جلسےزوروشور کے ساتھ جاری ہیں اور ریلیاں نکل رہی ہیں اور سب جگہ بھیڑ دکھائی دے رہی ہے، وہی چہرے ادل بدل کر ریلیوں میں شامل ہورہے ہیں یعنی صبح کی ریلی میں کانگریس کے ساتھ تو دوپہر میں ایم آئی ایم اور شام میں بھگوا محاذکے ساتھ ۔آخر کوئی بتائے کیا کسی ملک میں اچھی فعال اور ایماندار حکومت سازی کے یہی طریقے ہیں ۔ آج ملکی حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں ،فرقہ پرست کٹرپنتھی ایسے ایسے ہولناک بیانات دے رہے ہیں جو ہندوستان کی تاریخ میں کبھی نہیں دیئے گئے ابھی جوالا پورکے ممبر اسمبلی سریش راٹھور کے متنازعہ بیان کی تپش محسوس ہی کی جارہی تھی کہ سوشل میڈیا پر اترا کھنڈ کے رودر پور حلقے سے بی جے پی کےرکن اسمبلی راجکمارٹھوکرال کا مسلم خواتین کے تعلق سے انتہائی نفرت انگیز بیان سامنے آیا ہے کس کس کا ذکر کیا جائے اور کتنا کیا جائے ۔ ستم تو یہ ہے کہ ان کے اس طرح کے فرقہ وارانہ بیانات پر نہ کوئی سرزنش ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی تادیبی کارروائی بلکہ دبے کھلے لفظوں میں ان کی سراہنا کی جاتی ہےجو ملک کی سالمیت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیلئے انتہائی مہلک ہے ۔فاشسٹ حکومتوں کی تبدیلی کے مواقع بار بار آتے ہیں لیکن ہم ذاتی مفاد کے حصول میں وہ سنہرا موقع گنوادیتے ہیں،ہمیں اپنی طاقت کا نہ احساس ہے اور نہ فکر۔یہ سلسلہ آخر کب تک چلے گا ۔آخر ہم یہ کہاں آگئےہیں !!۔
Comments are closed.