مسلمان سب سے پچھڑا!

 

شکیل رشید

ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز / سرپرست ایڈیٹر بصیرت آن لائن 

مسلمانوں کے حالات جو کل تھے آج اس سے بھی بدتر ہوئے ہیں!

سچر کمیٹی رپورٹ حکومت کو ۲۰۰۵ میں سونپی گئی تھی ، شاید وہ رپورٹ آج کسی کونے میں پڑی ہوئی دھول کھارہی ہوگی۔ اس وقت کانگریس او راس کی حلیف پارٹیاں ملک پر راج کررہی تھیں، منموہن سنگھ نے جو وزیر اعظم تھے جسٹس راجندر سچر کو یہ ذمے داری سونپی تھی کہ وہ یہ پتہ لگائیں کہ ملک میں مسلم اقلیت کے حالات کیا ہیں۔ سچر کمیٹی رپورٹ میں صاف لفظوں میں کہاگیا کہ ہندوستانی مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہے۔ معاشی، سماجی، کاروباری اور تعلیمی سطح پر وہ بے حد پچھڑے ہوئے ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی کہاگیا تھا کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں اور سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کی نمائندگی ان کی آبادی کے تناسب کے لحاظ سے معمولی ہے لیکن جیلوں میں ان کی تعداد ان کی آبادی کے تناسب کے لحاظ سے کہیں زیادہ ہے۔ منموہن سنگھ کی سرکار دس سال رہی لیکن اس نے سچر کمیٹی کی سفارشات پر، کہ سماجی او رمعاشی لحاظ سے مسلمانوں کے حالات بہتر کرنے کےلیے اقدامات کیے جائیں، کوئی عمل نہیں کیا۔ لہذا ہوا یہ کہ مسلمان سماجی اور معاشی طور پر بدسے بد تر ہوتا گیا۔حال ہی میں نیشنل سیمپل سروے آفس (این ایس ایس او) کے سروے پر مشتمل وزارت شماریات وتنفیذپروگرام کی سالانہ رپورٹ برائے ۱۸۔۲۰۱۷ نے جو اعدادوشمار پیش کیے ہیں وہ انتہائی تشویشناک ہیں اور ان سے یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کے حالات سدھارنے کی فکر نہ مرکزی سرکار کوہے، نہ ریاستی سرکار وں کو ہے او رنہ ہی سرکاری محکموں کو ہے۔ رپورٹ کے مطابق آج ملک میں تعلیم حاصل کررہے نوجوانوں میں مسلمانوں کافیصد سب سے کم ہے۔ ۱۲ سال سے لے کر ۲۴ سال کی عمر تک کے صرف ۳۹ فیصد مسلمان ہی تعلیم حاصل کررہے ہیں، جبکہ شیڈول کاسٹ نوجوان ۴۴ فیصد ہیں، ہندو اوبی سی ۵۱ فیصد ہیں، اور اعلیٰ ذات کے ہندو نوجوان ۵۹ فیصد ہیں۔ ۱۸۔۲۰۱۷ میں گریجویٹ ہونے والے مسلمان ۱۴ فیصد تھے، دلت ۱۸ فیصد، ہندو اوبی سی ۲۵ فیصد اور اعلیٰ ذات کے ہندو ۳۷ فیصد ۔ مسلمانوں او رشیڈول کاسٹ کے درمیان چار فیصد کا جو فرق ہے وہ اس لیے تشویشناک ہے کہ چھ سال قبل یہ فرق صرف ایک فیصد تھا، یعنی دلت گریجویٹ مسلمانوں کے مقابلے صرف ایک فیصد زیادہ تھے، اب وہ چار فیصد زیادہ ہیں۔

مسلمانوں اور ہندو اوبی سی کے درمیان پانچ سال قبل ۷ فیصد کا فرق تھا، اب یہ فرق ۱۱ فیصد ہوگیا ہے او رہندوئوں اور مسلمانو ںکے درمیان یہ ۹ فیصد سے بڑھ کر ۱۱ فیصد پر جاپہنچا ہے! سب سے زیادہ خراب حالات ’ہندی بیلٹ‘ کے مسلمانو ںکے ہیں۔ ہریانہ اور راجستھان میں مسلمانوں کا تعلیمی فیصد باالترتیب ۳ اور ۷ ہے۔ اترپردیش میں ۱۱ فیصد۔ مدھیہ پردیش میں مسلمانوں کا تعلیمی فیصد ملک کی دیگر ریاستوں کے مقابلے سب سے زیادہ ہے، ۱۷ فیصد۔ رپورٹ کے مطابق سوائے مدھیہ پردیش کے باقی تمام ریاستوں میں شیڈول کاسٹوں میں تعلیمی ترقی مسلمانوں سے کہیں بہتر ہے۔ یہ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ہندوستان کا مسلمان تعلیمی، سماجی او رمعاشی سطح پر مسلسل پچھڑتا جارہا ہے۔ جب تعلیم نہیں ہوگی تو سماج میں نہ اس کی قدر ہوگی او رنہ ہی اس کے معاشی حالات کے سدھرنے کا امکان ہی ہوگا۔مرکزی وریاستی حکومتوںپر تو ذمے داری عائد ہی ہوتی ہے کہ وہ مسلمانوں کو مسلسل نظر انداز کرتے چلے آرہے ہیں۔ کانگریس کی ہر حکومت نے مسلمانوں کو معاشی ، تعلیمی اور سماجی طو رپر آگے بڑھانےکے بجائے نیچے ہی کی سمت ڈھکیلا ہے او ربی جے پی کی اس مودی سرکار سے کوئی امید نہیں کہ وہ سچر کمیٹی کی سفارشات پر عملدرآمد کرکے مسلمانوں کے حالات سدھارے گی۔ تو کیا کیاجائے؟ اس سوال کا جواب مسلمانوں، مسلم قیادت اور مسلم جماعتوں وتنظیموں کی بے حسی میں پوشیدہ ہے۔ حالات بہتر بنانے کےلیے سرسید احمد خان اور ذاکر حسین جیسی شخصیات نے جو تحریکیں چلائی تھیں، ویسی ہی تحریکوں کی ضرورت ہے۔ مسلم اداروں کو تنظیموں، جماعتوں اور قائدین کو آگے آنا ہوگا، تعلیمی اداروں میں سب کے داخلے کو ممکن بنانا ہوگا او ریہ بھی ممکن بنانا ہوگا کہ جو بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں ان کی تعلیم ادھوری نہ رہ جائے۔ افسوس کہ مسلم تعلیمی اداروں میں کرپشن عام ہے، غریب بچے داخلہ نہیں پاتے ہیں۔ اس کرپشن اور اداروں پر قابض اجارہ داروں پر قابو پانا ہوگا۔ مسلمانوں میں بڑے پیمانے پر تعلیمی بیداری اور تعلیم کے حصول کی لہرہی مسلمانوں کو ترقی کی سمت لے جاسکتی ، اور ان کے حالات دوسروں سے بہتر بناسکتی ہے۔

Comments are closed.