آؤ دوسرا اسپین بنائیں! (قسط نمبر: 5)

عالم ہمہ ویرانہ زچنگیزیِ افرنگ
معمارحرم بازبہ تعمیرجہاں خیزب

بقلم: مفتی محمد اشرف قاسمی

(مہدپور، ضلع اجین، ایم پی)

(مقالہ برائےسیمینار HNC، بی ایچ ای ایل بھوپال، 7؍ نومبر 2019ء)

ترتیب و پیشکش: مفتی محمد توصیف صدیقیؔ

ترکِ دعوت پر برکاتِ وحی سے محرومی

ایک روایت میں ہے:
عن ابی ھریرۃ ؓ قال قال: رسول اللہ ﷺ اذا عظمت امتی الدنیا نزعت منھا ھیبۃ الاسلام، واذا ترکت الامر بالمعروف والنھی عن المنکر حرمت برکۃ الوحی و اذا تسابت امتی سقطت من عین اللہ۔ کذا فی الدر عن الحکیم الترمذی۔ (کنزالعمال، برقم الحدیث: 6070)
”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب میری امت دُنیا کو قابلِ وقعت سمجھنے لگے گی تو اسلام کی وقعت و ہیبت ان کے قلوب سے نکل جائے گی، اور جب امر بالمعروف (اسلام اور ایمان کی دعوت) اور نہی عن المنکر (کفر وشرک سے روکنے کی محنت) کو چھوڑ دے گی، تو وحی کی برکات سے محروم ہوجائے گی، اور جب آپس میں ایک دوسرے کو سب و شتم کرنا اختیار کرے گی تو اللہ تعالی کی نگاہ سے گرجائے گی۔“ (کنز العمال)
احادیث مذکورہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ امربالمعروف (اسلام اور ایمان کی دعوت) اور نہی عن المنکر (کفر وشرک سے روکنے کی محنت) کو چھوڑنا خداے وحدہٗ لا شریک لہ کی لعنت اور غضب کا باعث ہے، اور جب امت محمدیہ (علی صاحبھا الصلوۃ والسلام) یہ کام چھوڑ دے گی تو سخت مصائب و آلام اور ذلت وخواری میں مبتلا کردی جائے گی، اور ہر قسم کی غیبی نصرت و مدد سے محروم ہوجائے گی، اور یہ سب کچھ اس لیے ہوگا کہ اس نے اپنے فرضِ منصبی کو نہیں پہچانا اور اپنے اصل کام سے غافل ہوگئی۔

دعوت، ایمان کا حصہ ہے۔!

ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا کہ: ”دعوت، ایمان کا حصہ ہے“؛ اس لیے بھی ہمیں اپنے ایمان کے اثبات اور اس کی سلامتی کے لیے دعوت کے فریضہ کو ادا کرنا ضروری ہے۔ مسلم شریف کی روایت ہے:
مامن نبی بعثہ اللہ قبلی الا کان لہ فی امتہ حواریون واصحابٌ یأخذون بسنتہ ویقتدون بامرہ ثم انھا تخلف من بعدھم خلوف یقولون مالا یفعلون ویفعلون مالایؤمرون فمن جاھدھم بیدہ فھومؤمن ومن جاھدھم بلسانہ فھو مؤمن ومن جاھدھم بقلبہ فھو مؤمن ولیس وراء ذٰلک من الایمان حبۃ خردلٍ۔ (مسلم، برقم الحدیث: 179؍، مشکوۃ: ص 29)

”سنت الہی یہ ہے کہ ہر نبی اپنے ساتھیوں اور تربیت یافتہ یاروں کی جماعت چھوڑ جاتا ہے، یہ جماعت نبی کی سنت کو قائم رکھتی ہے، اور ٹھیک ٹھیک اس کی پیروی کرتی ہے، یعنی شریعتِ الہی کو جس حال اور جس شکل میں نبی چھوڑ گیا ہے اس کو بعینہ محفوظ رکھتے ہیں،اور اس میں ذرا بھی فرق نہیں آنے دیتے؛ لیکن اس کے بعد شرور وفتن کا دور آتا ہے اور ایسے لوگ پیدا ہوجاتے ہیں جو طریقۂ نبی سے ہٹ جاتے ہیں۔ ان کا فعل ان کے دعوے کے خلاف ہوتا ہے، اور ان کے کام ایسے ہوتے ہیں کہ شریعت نے ان کاموں کا حکم نہیں دیا۔
سو ایسے لوگوں کے خلاف جس شخص نے قیامِ حق وسنت کی راہ میں اپنے ہاتھ سے کام لیا وہ مؤمن ہے، اور جو ایسا نہ کر سکا مگر زبان سے کام لیا وہ بھی مؤمن ہے، اور جس سے یہ بھی نہ ہو سکا اور دل میں اعتقاد اور نیت کے ثبات کو ان کے خلاف کام میں لایا، وہ بھی مؤمن ہے، لیکن اس آخری درجہ کے بعد ایمان کا کوئی درجہ نہیں، اس پر ایمان کی سرحد ختم ہوجاتی ہے، حتی کہ اب رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہوسکتا۔“ (مشکوۃ، مسلم)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دعوت الی الاسلام ہمارے ایمان کا حصہ ہے، ہمارا ایمان دعوت سے باقی رہے گا۔ ظاہر سی بات ہے کہ اپنے ایمان کو بچانے کی ہر شخص کو فکر کرنی ضروری ہے۔

(جاری۔۔۔)

[اگلی قسط میں پڑھیں: "دعوت اور عقیدۂ ختم نبوت”]

Comments are closed.