تھوک کے بھاؤ میں امن کی یہ اپیلیں کیوں؟

تجزیہ خبر: شکیل رشید
(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
بابری مسجد مقدمہ کے متوقع عدالتی فیصلے کا دن ملک سے زیادہ مسلمانوں کے لئے امتحان کا ہوگا۔ چاہے فیصلہ ان کے ’حق‘ میں آئے یا ان کے ’خلاف‘ہو۔ لہٰذا اگر مسلم تنظیمیں اور جماعتیں اور قائدین مسلمانوں سے امن و امان کی اپیلیں کر رہے ہیں تو درست ہی کر رہے ہیں۔ اپیلوں پر کوئی اعتراض نہیں ہے، اعتراض اس پر ہے کہ یہ اپیلیں تھوک کے بھاؤمیں کی جارہی ہیں۔ اور اب تو ان مسلم حلقوں سے بھی اپیلیں جاری ہونے لگی ہیں جو مسلمانوں کے مسائل کے حل کےلئے عملاً میدان سے دور رہتے ہیں۔ ہاں جب ’اشتہار بازی‘ یا اخبارات میں تصویریں چھپوانے کا موقع آتا ہے تب یہ ان جماعتوں، تنظیموں اور قائدین پر بھی بازی لے جانے کی کوشش کرتے ہیں جو مسلمانوں کے مسائل کے حل کےلئے میدان میں عملی طور پر سرگرم رہتے ہیں۔ لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ ایودھیا معاملہ میں متوقع عدالتی فیصلے کے تناظر میں آنے والی اپیلوں کی ’باڑھ‘ اب بے معنیٰ ہوتی جارہی ہے اور لوگ ان اپیلوں کو مخص مسلم قائیدین کی ’شوبازی‘ تصور کرنے لگے ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔
امن و امان کی اپیلیں کرنے والوں سے اب یہ سوال پوچھا جانے لگا ہے کہ بھلا کب کس مسلمان نے امن و امان کے قیام کو غیر ضروری سمجھا ہے اور کب اس نے امن و امان میں دخل ڈالنے کی کوشش کی ہے؟؟ اگر بابری مسجد کے تناظر میں بات کی جائے تو ۲۳۔۲۲ دسمبر ۱۹۴۹ء کی درمیانی شب سے لے کر، جب بابری مسجد میں جبراً مورتیاں رکھ دی گئی تھیں اور مسجد کو عدالتی فیصلے کے تحت عملاً مندر میں تبدیل کرکے وہاں مسلمانوں کی آمد و رفت پر پابندی عائد کردی گئی تھی، ۶؍دسمبر ۱۹۹۲ء تک، جب بابری مسجد شہید کردی گئی تھی، مسلمان صبر ہی کرتا آیا ہے۔ اور ۶؍دسمبر سے ہنوز وہ صبر ہی کر رہا ہے، اس نے نہ تشدد کیا، نہ ہنگامہ، نہ ہی کبھی امن و امان میں رخنہ ڈالا، لہٰذا مسلمانوں سے بار بار مسلسل یوں جیسے ہتھوڑے سے متواتر چوٹ لگائی جائے، یہ کہنا کہ ’’امن و امان برقرار رکھیں چاہے فیصلہ جو بھی آئے‘‘ گویا اسے ایک طرح سے مورودِالزام ٹہرانا ہے کہ ’’مسلمان امن و امان پر یقین نہیں رکھتے ہیں‘‘۔ یقین مانئے کوئی جماعت، تنظیم یا کوئی مسلم قائد اپیل کرے نہ کرے عدالت سے جو بھی فیصلہ آئے گا مسلمان اس پر صبرہی کرے گا بالکل اسی طرح جیسے کہ طلاق ثلاثہ پر پابندی کے عدالتی فیصلے کو اس نے قبول کیا ہے ۔ ۔ وہ سڑکوں پر نہیں اترے گا کیونکہ اسے خوب اندازہ ہے کہ اسے سڑکوں پر اتر کر غم و غصے کے اظہار کی اجازت نہیں مل سکے گی، اسے جبراً روک دیا جائے گا۔ اگر چند بڑی مسلم جماعتیں اور تنظیمیں اور چند ایسے مسلم قائدجو مسلمانوں کے مسائل کے حل کےلئے سرگرم رہے ہیں، ایک یا دو بار اپیلیں کرتے تو کافی تھا۔ پر روز روز کی اپیلوں سے عام مسلمان یہ سوچ رہے اور سوچ کر خوف و ہراس میں مبتلا ہو رہے ہیں کہ شاید فیصلے والا دن ان کےلئے بری خبر بھی ساتھ لائے گا اور حالات بھی مکدّر کردے گا۔
مسلمانوں سے امن و امان کی برقراری کی اپیلیں کرنے والے مسلم قائدین کو برادران وطن سے بھی یہ اپیل کرنی چاہئے تھی، پر سوائے جمعیۃ علماء ہند کے ایک دھڑے کے صدر مولانا سید ارشد مدنی کے کسی اور مسلم قائد نے برادرانِ وطن سے امن و امان کے قیام کی اپیل نہیں کی ہے۔ ملک کی مرکزی اور ریاستی سرکاروں سے یہ اپیل کرنی چاہئے تھی کہ وہ فیصلے کے بعد ملک میں امن و امان کی فضا کی برقراری کو یقینی بنائیں، پر سوائے جماعت اسلامی ہند کے کسی اور تنظیم یا جماعت نے یہ اپیل نہیں کی ہے۔ مسلمان تو یوں ہی متشوش ہیں، اپیلوں کا سیلاب انہیں مزید تشویش میں مبتلا کر رہا ہے اور گویا اس طرح انہیں یہ سمجھنے پر مجبور کیا جارہا ہے کہ امن و امان کا قیام بس تمہاری ہی ذمہ داری ہے۔ یہ بوجھ مسلمان تنہا نہیں اٹھاسکتے، اس بوجھ کے اٹھانے میں سب کو شامل ہونا ہوگا، بشمول مرکزی اور ریاستی سرکاروں کے۔ بشمول مرکزی وزیر مختار عباس نقوی کے جو اپنے گھر میں آئے مقتدر مسلمانوں کے وفد کو یہ درس دینے بلکہ مذاق اڑانے، سے ذرا بھی نہیں ہچکچائے کہ ’’مسلمان داراشکوہ اور عبدالکلام کو رول ماڈل مانیں بابر اور اورنگ زیب کو نہیں‘‘۔ وفد میں شامل کسی مسلم قائد نے نقوی کو جواب نہیں دیا کہ ’’مسلمانوں کےلئے تو رول ماڈل پیغمبر آخر الزماں حضرت محمدﷺ ہیں‘‘۔ افسوس کہ مسلمانوں کے منھ پر ان مغل فرمانرائوں بابر اور اورنگ زییب کو ’شدت پسند‘ قرار دے دیا گیا، جنہوں نے بھارت کو بھارت بلکہ اکھنڈ بھارت بنانے میں اپنا خون پسینہ ایک کردیا تھا اور اپنی ساری دولت اسی ملک میں لگا دی تھی ، نیرو مودی اور وجئے مالیا وغیرہ کی طرح دولت لے کر ہندوستان سے فرار نہیں ہوئے تھے، اور مسلم وفد نقوی کے ’مشورہ‘ کو ’صبر‘ سےسنتا رہا!! حکومت کو تشویش میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے، اس ملک کے مسلمان صبر کرتے رہے ہیں صبر کریں گے۔ امن و امان کے ساتھ رہتے رہے ہیں، امن و امان کے ساتھ رہیں گے۔ عدالتی فیصلوں کا احترام کرتے رہے ہیں اور احترام کرتے رہیں گے ۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ حالات پر نظر رکھے اور فیصلے کے بعد شرپسندوں کو بے قابو نہ ہونے دے۔ اور مسلم قائدین سے گذارش ہے کہ وہ اپیلیں کرنے سے زیادہ اپنے اپنے علاقوں میں سرگرم ہوں اورمسلمانوں میں جو تشویش ہے اسے رفع کریں۔ یہی بنیادی کام ہے۔
Comments are closed.