نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر

ڈاکٹر سلیم خان
ارشادِ ربانی ہے ’’اے پیغمبر! کہہ دیجئے کہ اگر تم لوگ اللہ سے محبّت کرتے ہو تو میری پیروی کرو- خدا بھی تم سے محبّت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا کہ وہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے ‘‘۔ اس آیت میں جہاں رسول ﷺ کی اطاعت کواللہ سے محبت کے دعویٰ کی دلیل کے طور پرپیش کیا گیا ہے وہیں اللہ سے محبت کے جواب میں رب کائنات کی محبت کی بشارت بھی ہے۔ یعنی محبت کا صلہ محبت ہے۔ عصرِ حاضر کا عام مسلمان رسول اکرم ﷺ کی اطاعت کے معاملے میں کسی قدر کوتاہی برتتا ہے لیکن محبت میں کسی مصالحت کا روادار نہیں ہے۔ اسی لیے جب بھی توہین رسالت کی بات ہوتی ہے تو مرنے مارنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ صحیح مسلم میں ہے کہ ’’ میری اُمت میں مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو میری وفات کے بعد آئیں گے اور ان کی خواہش ہوگی کہ وہ مجھے دیکھنے کے لئے اپنے اہل و مال سب کچھ صَرف کردیں‘‘۔
اس شدید محبت کا سراغ ایک حدیث میں ہے ’’حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:مجھے تمنا ہے کہ میں اپنے بھائیوں سے ملوں،صحابہ ؓ نے عرض کیا،کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :تم تو میرے ساتھی ہو، میرے بھائی وہ لوگ ہیں جو مجھے دیکھے بغیر مجھ پر ایمان لائیں گے۔ مومن اگر اس سعادت کا تصور کرے کہ نبی اکرم ﷺ نے اس کو دیکھے بغیر اسے اپنا بھائی کہا اور آپ ؐ اس سے ملنے کے مشتاق ہیں تو لازم ہے کہ اس کے دل رسول ﷺ کی محبت کا سمندر ٹھاٹیں مارنے لگے ۔ امتی سے نبیﷺ کی محبت ہی اہل ایمان کے دل میں حب رسول ؐ کا سرچشمہ ہے۔
مشکٰوۃ کی روایت ہے کہ ایک دن نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام ؓ سے سوال کیا :’’تمہارے نزدیک کس مخلوق کا ایمان عجیب ترین (قابلِ رشک) ہے؟ ‘‘صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا :’’یا رسول اللہ! فرشتوں کا‘‘۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’وہ کیسے ایمان نہ لائیں جبکہ وہ اللہ کی حضوری میں ہوتے ہیں اور ہمہ وقت اس کی تسبیح و تہلیل میں مشغول رہتے ہیں۔‘‘صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا :’’ انبیاء اکرام کا۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا :’’وہ کیسے ایمان نہیں لائیں گے جبکہ ان پر وحی اترتی ہے؟‘‘صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا :’’ پھر ہمارا ایمان عجیب تر ہو گا۔‘‘آپ ﷺ نے فرمایا :’’کیا تم (اب بھی) ایمان نہ لاؤ گے جبکہ تمہارے سامنے ہر وقت میرا سراپا رہتا ہے؟‘‘پھر آپ ﷺ نے فرمایا :’’میرے نزدیک ساری کائنات میں سب سے عجیب (قابل رشک) ایمان ان لوگوں کا ہے جو تمہارے بعد ہوں گے۔ وہ صرف اوراق پر لکھی ہوئی کتاب دیکھیں گے اور اس پر ایمان لے آئیں گے۔‘‘ (مشکوٰة )۔ اس بشارت کو پڑھنے کے بعد قلب کی جو کیفیت ہوتی ہے اس کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔
محبت رسول ﷺ ایمان کی شرط اولیٰ ضرور ہے لیکن تکمیل ِ ایمان کی بابت آپ ؐ نے فرمایا’’جس شخص نے اللہ تعالیٰ کے لئے محبت وعداوت رکھی ،اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے دیا اور اس کی خاطر روکا(نہ دیا )، اس نے اپنے ایمان کی تکمیل کرلی‘‘ ۔ رسول ﷺ سے ہمیں محبت اس لیے ہے کہ آپ ؐ اللہ کےبرگزیدہ پیغمبرہیں ۔اس طرح محبتِ رسول ؐ حب اللہ کے تابع ہوگئی ۔ ہم شاتمِ رسول ؐپر غضبناک اس لیے ہوتے ہیں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کا دشمن ہے۔ تکمیل ایمان کی دیگر دو شرائط کا تعلق نبی کریم ﷺ کی اتباع سے ہے ۔ کس کو کیا دینے سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتے ہیں اور کیا روک لینے سے رب کا ئنات کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے اس کا علم اللہ کی کتاب سے ملتا ہے جو رسول ﷺ کے توسط سے ہم تک پہنچی ہے ۔ ان تقاضوں کو پورا کرنے کی حکمت نبی کریم ﷺ کی ارشادات اور سیرت کے واقعات سے ملتی ہے اور پھر برضا و رغبت اتباع کے لیے محبت کا لزوم کون نہیں جانتا؟
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل، وہی آخر
وہی قُرآں، وہی فُرقاں، وہی یٰسیں، وہی طٰہٰ
Comments are closed.