سیکولر اور جمہوری نظام کی ہار!

 

شکیل رشید

آج تو اڈوانی بہت خوش ہوں گے!

اوما بھارتی او رمرلی منوہر جوشی کی بانچھیں بھی کھلی ہوں گی۔ سارا بھگوا بریگیڈ مارے خوشی کے جھوم رہا ہوگا۔ اور شاہنواز حسین جیسے مسلمانوں کی آنکھوں میں بھی خوشی کی چمک ہوگی، کہ آج سپریم کورٹ سے ایودھیا معاملے پر جو فیصلہ آیا ہے وہ ان کی ’آستھا‘ پر ہی مبنی ہے۔ انہیں ’رام‘ سے بڑی عقیدت رہی ہے، یہ کبھی کوئی موقع یہ کہنے سے نہیں چوکتے تھے کہ رام مندر ہماری ’آستھا‘ کا معاملہ ہے۔ اس وقت یہ ، یہ بھی کہتے تھے کہ ’آستھا‘ کے معاملے میں عدالت بھی اگر فیصلہ حق میں نہیں دے گی تو ہم فیصلہ نہیں قبول کریں گے۔ آج عدالت کے فیصلے کے ’احترام‘ کی اپیلیں کرتے کرتے ان کے گلے بیٹھ گئے ہوں گے۔ یہ امن وامان کی برقراری کی باتیں یوں کررہے ہیں جیسے دنیا میں ان سے بڑے امن کے پیامبر نہ کل پیدا ہوئے تھے اور نہ آج ہیں۔۔۔چلیے آپ سب خوش رہیں کہ آج آپ سب نے اپنے ’مقصد‘ کی تکمیل کرلی ہے۔ آج سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی جگہ کو رام مندر کی تعمیر کےلیے سونپ کر اس ’کلنک‘ کو جو بقول آپ کے بابر نے ہندوستان کے ماتھے پر ملا تھا،دھودیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کہتے ہیں کہ یہ کسی کی ہار جیت کا معاملہ نہیں ہے، وہ غلط کہتے ہیں ، یہ ہار اور جیت کا ہی معاملہ ہے۔ پر مسلمانوں اور ہندوئوں کی ہار اور جیت کا نہیں، ملک کے سیکولر اور جمہوری نظام کی ہار او ر متعصب اور جانبدارانہ نظام کی جیت کا۔سپریم کورٹ کے فیصلے پر ہم کوئی ’نکتہ چینی‘ نہیں کرسکتے، کوئی تنقید نہیں کرسکتے، ہماری آنکھوں کے سامنے ہماری زمین دوسروں کو سونپ دی گئی پر ہم ’آہ‘ بھی نہیں کرسکتے۔ ہم نہ افسوس کا اظہار کرسکتے ہیں نہ ہی مایوسی کا بلکہ ہم سے کہاجارہا ہا ہے کہ ہم بابری مسجد کی جگہ جو عالیشان مندر بنے گا اس کی تعمیر میں شامل ہوں! کیا یہ ’مطالبہ‘ اتحادویگانگت اور بھائی چارہ کے اظہار کےلیے ہے؟ باور تو یہی کرایاجارہا ہے۔ پر ہمارے سامنے بے شمار مثالیں ہیں جو کچھ اور بتاتی ہیں ۔ ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی، ہمارے وزیر داخلہ امیت شاہ، آر ایس ایس سرسنگھ چالک موہن بھاگوت، وی ایچ پی کے لیڈران نے اس سے پہلے کبھی ا س طرح کے بھائی چارے، اتحاد ویگانگت کے اظہار کی ضرورت نہیں محسوس کی، کتنے ہی لوگوں کو ’ماب لنچنگ‘ میں مار دیاگیا، کسی نے امن وامان کی اپیل نہیں کی، کسی نے نہیں کہا کہ یہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا ہے، عدالتوں تک نے ’مظلومین‘ کو نظر انداز کیا، ان کی اپیلیں سنی ان سنی کردیں!

آج ہم اداس ہیں، مایوس اور دل گرفتہ ہیں، اڈوانی اینڈ کمپنی کی طرح ہمارےدلوں میں خوشی نہیں ہے، یہ خوشی سے خالی ہیں، بابری مسجد کےلیے ہمارا دل خون کے آنسو رو رہا ہے، لیکن ہم پرامن رہیں گے کہ ہم ہمیشہ پرامن رہے ہیں۔ ہم وطن سے محبت کرنے والے ہیں اورہمیشہ وطن سے محبت کرتے رہیں گے۔ جو کچھ ہوا اس نے ہمیں بہت کچھ سکھایا ہے، بہت سے ایسے چہرے اجاگر کیے ہیں جو دوست بن کر دشمنی کرتے رہے ہیں، بہت سی سیاسی پارٹیوں کے مکروہ عزائم عیاں کیے ہیں، ان سیاسی پارٹیوں کے بھی جو سیکولر کہلاتی ہیں! ہم نے دوست اور دشمن شناخت کرلیے ہیں او رانہیں اب ہم فراموش نہیں کرنے والے ۔ ابھی مواقع آئیں گے، سیاست کا بازار پھر گرم ہوگا، لیکن ہم پھر اپنی غلطیوں کو نہیں دہرائیں گے۔

Comments are closed.