تو بابری مسجد کی زمین رام مندر کے لیے دے دی گئی، اب…….!

 

شکیل رشید

ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز / سرپرست ایڈیٹر بصیرت آن لائن

بابری مسجد کی جگہ رام مندر کے لئے سونپ دی گئی!

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ایودھیا کی اس اراضی کا جیسے ’ متنازعہ‘ مانا گیا ہے فیصلہ سناتے ہوئے زمین پر مسلمانوں کے ’ حق کو توقبول نہیں کیا لیکن انہوں نے یہ مانا ہے کہ بابری مسجد مغل شہنشاہ محمد ظہیرالدین بابر کے ایک سپہ سالار میر باقی نے تعمیر کروائی تھی اور مسجد کی تعمیر کے لئے کسی مندر کو منہدم نہیں کیا گیا تھا ،ساتھ ہی انہوں نے ایودھیا میں مسجدبنانے کے لئے مسلمانوں کو 5 ایکڑ زمین سونپنے کی ہدایت دی ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بابری مسجد کے اندر مورتیوں کا رکھنا اور اس کا انہدام دونوں ہی قابل مذمت حرکتیں تھیں ۔ گویا یہ کہ دو بڑے ’جھوٹ‘ جو ’سنگھیوں‘ نے اپنے پروپگنڈہ میں شامل کررکھے تھے اور جن کی بنیاد پر عام ہندوؤں کے مذہبی جذبات کو برانگیختہ کرتے تھے ، چیف جسٹس نے ان کے منہ پر دے مارے ۔۔۔

اس طرح چیف جسٹس نے اپنے فیصلے میںیہ واضح کردیا کہ رام للّا १1949ء میں ’ پرکٹ ‘ نہیں ہوئے تھے بلکہ بابری مسجد میں ، جہاں اس روز بھی عشاء کی نماز ہوئی تھی جبراً رکھ دیئے گئے تھے ،اور یہ کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ بابری مسجد کسی مندر کے ڈھانچے پر بنوائی گئی تھی بلکہ اس وقت کے مغل فرمانروا بابر کے سپہ سالار میر باقی نے اسے १1528 میں کسی مندر کو منہدم کئے بغیر تعمیر کروایا تھا ۔ یہ سب ماننے کے باوجود بابری مسجد کی جگہ انہوں نے رام مندر کو سونپ دی!

ہم مسلمانوں کو چیف جسٹس رنجن گگوئی کے ’ فیصلے‘ پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ اعتراض ہونا بھی نہیں چاہیئے کہ ہمارے قائدین تو ’زبان دے چکے ہیں ‘ کہ ہر فیصلہ منظور ہوگا ۔’ زبان دینے ‘ پر بات کرنے سے پہلے آیئے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کریں کہ اس نے مسلمانوں کو اپنے ہاتھوں اپنی مسجد ،کسی مندر کی تعمیر کے لئے دوسروں کو سونپنے کے گناہ سے محفوظ رکھا ۔۔۔ اگر سپریم کورٹ کا فیصلہ نہ آیا ہوتا تو اپنی جانوں اور مالوں کے زیاں کے خوف سے شاید کچھ قائدین تیار ہوجاتے کہ مسجد ، مندر کی تعمیر کے لئے سونپ دی جائے ۔ کئی قائدین جن میں مذہبی قائدین بھی شامل ہیں ، پہلے بھی اس طرح کی ’تجاویز‘ سامنے رکھ چکے ہیں ، نہ جانے کہاں کہاں سے وہ ’شرعی دلیلیں ‘ لائے تھے اور ’ نظریں‘ پیش کی تھیں۔

رہی بات فیصلہ کی تو چونکہ مسلم پرسنل لاء بورڈ ، یوپی سنّی وقف بورڈ، جمعیۃ علماء ہند ، جماعت اسلامی ،رضا اکیڈمی ، دیوبندی ، بریلوی ، اہلحدیث اور شیعہ علماء ملک بھر کے مسلمانوں کے ’ذمے دار‘ بن کر زبان دے چکے ہیں کہ عدالت کا فیصلہ چاہے جو آئے وہ قبول ہوگا ، اس لئے اس فیصلے کو جو یقیناً بے حد کڑوا اور کسیلا اور بے چین کرنے والا ہے ، قبول کرلینا چاہیئے ، اب اس فیصلے پر ’نظرثانی‘ کی اپیل کا کوئی مطلب نہیں ہوگا ۔۔۔ بلکہ شاید اب ’نظرثانی‘ کی اپیل سُنی بھی نہ جائے ۔۔۔ اب یہ عمل اس ملک کے فرقہ پرستوں ، بھگوائیوں اور سنگھیوں کو مزید تقویت دے گا اور وہ یہ پرچار کرسکیں گے کہ ’دیکھ لیں مسلمانوں کو یہ توسپریم کورٹ تک کا فیصلہ نہیں مان رہے ہیں‘ ! مسلم پرسنل لاء بورڈ کے وکیل ظفریاب جیلانی نے فیصلے پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے ، اور درست کیا ہے لیکن ان کا یہ کہنا اب سمجھ میں نہ آنے والا ہے کہ فیصلے پر ’نظرثانی‘ کی درخواست کی جاسکتی ہے ۔ اس مقدمہ کے مدعی، ایودھیا کے اقبال انصاری نے جو مرحوم ہاشم انصاری کے صاحبزادے ہیں ، ٹھیک کہا ہے کہ ’’یہ مسئلہ سلجھ گیا یہ سب سے زیادہ خوشی کی بات ہے اور اب عدالت کے اس فیصلے کو چیلنج نہیں کیا جائے گا ۔ ‘‘ یقیناً یہ فیصلہ افسوسناک ، بے چین اور مضطرب کرنے والا ہے ، اور بلا شبہہ اس وقت ملک بھر کے مسلمان شدید کرب والم سے گذر رہے ہیں ، لیکن ایسے ہی فیصلوں پر اللہ رب العزت نے ’ صبر‘ کی تلقین کی ہے ۔ کون جانے ایک ’ صبر‘ سے وہ اس ملک کے مسلمانوں کی جھولیاں بھردے ، ان کے تمام مسائل حل کردے ، مخالفین کے قلوب تبدیل کردے ۔ اس وقت بلاشبہہ تمام مسلم تنظیموں، قائدین اور مسلم پرسنل لاء بورڈ واس کے ذمے داران پر طیش آرہا ہے ،لیکن کیا یہ سچ نہیں ہے کہ انہوں نے اپنی سی کوشش کی ؟ اگر عدالت میں پیش کئے گئے شواہد اور ثبوتوں کی بات کی جائے تو بابری مسجد کا مقدمہ لڑنے والوں پر یہ الزام عائد نہیں کیا جاسکتا کہ انہوں نے اس میں کسی طرح کی کوئی کسر رکھی ہے ۔۔۔ بڑے بڑے وکلاء کی خدمات حاصل کیں۔ شواہد اور ثبوت جمع کئے ( اور بار بار اخبارات میں یہ چھپواتے رہے کہ ان شاء اللہ جیت ہماری ہوگی) مسلمانوں کو یہ یقین تھا کہ سپریم کورٹ ان ثبوتوں کو رد نہیں کرسکے گا جو ७70سال پرانے نہیں چار سوسال پرانے ہیں ۔ زمین کی ملکیت ہی کا ثبوت چاہیئے تھا تو ثبوت آج کا نہیں بابر کے دور کا ہے ۔ انگریزوں کے دور میں بھی بابری مسجد ، کبھی مندر نہیں تھا، اور یہ حقیقت تو ابھی ७70سال پہلے کی ہے کہ २22-23 دسمبر १1949 ء کی درمیانی شب بابری مسجد کے اندر جبراً مورتیاں رکھ دی گئی تھیں۔۔۔ ایودھیا کے مسلمان اس شب عشاء کی نماز پڑھ کر اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے تھے تب رات کے اندھیرے میں ’ سازشیوں ‘ نےاپنی چال چلی تھی۔ پولس تھانے میں اس قابلِ مذمت فعل کی ایف آئی آر بھی درج ہے اور ان افراد کے نام بھی ایف آئی آر میں شامل ہیں جو اس قابلِ مذمت حرکت کے ذمے دار تھے ۔

قدیم تاریخی ماخذ ۔۔۔ہندوؤں کے گرنتھ ۔۔۔۔ تک رام مندر کے ذکر سے خالی ہیں۔۔۔ یہ سب ’حقائق‘ نظر انداز کردیئے گئے حالانکہ ان ’ حقائق‘ کی بنیاد پر( ان کی دستاویزات بھی موجود ہیں ) بابری مسجد کی جگہ مسلمانوں کو ہی ملنی چاہئے تھی لیکن فیصلے کی بنیاد محکمہ ٔ آثار قدیمہ کی اس رپورٹ کو بنایا گیا ہے جس میں یہ کہا گیا کہ مسجد کے نیچے ایک مندر تھا، حالانکہ خود محکمہ ٔ آثار قدیمہ اپنی رپورٹ کو حتمی نہیں مانتا ۔ مسجد کے باہری احاطے میں رام چبوترے پر اور 1949ء میں مسجد کے اندرجبراً رکھی گئی مورتیو ںکی پوجا ارچنا کو فیصلے کی بنیاد بنایا گیا ، حالانکہ رام چبوترہ کو مندر میں تبدیل کرنے کی درخواست بھی بہت پہلے ہی عدالت سے خارج ہوگئی تھی اور १1949ء میں مسجد میں مورتیوں کا جبراً رکھنا بھی ایک ثابت شدہ بات تھی! مسلم فریقین کو سپریم کورٹ سے اپنے ’حق‘ میں نہ سہی ، پر ایک ایسے فیصلے کی امید تھی جو’ متوازن‘ ہو ، اس کی وجہ یہ تھی کہ چیف جسٹس نے ایودھیا معاملے کا فیصلہ سناتے ہوئے اس بات پر زور دیا تھا کہ ’’فیصلہ حقائق اور شواہد کی بنیاد پر ہوگا آستھا یاعقیدت کی بنیاد پر نہیں۔‘‘ چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے ’رام‘ اور ہندؤں کی آستھا کی بات کی ، اس کے باوجود چلئے ہم یہ مان لیتے ہیں کہ فیصلہ آستھا یا عقیدت کی بنیاد پر نہیں دیا گیا ، پر فیصلہ تو حقائق اور شواہد کی بنیاد پر بھی نہیں ہے ! تو کیا یہ مان لیا جائے کہ سپریم کورٹ یہ چاہتا تھا کہ 70 سال پرانے اس معاملے کو ، جس نے ہندوستان میں فرقہ پرستی کے عروج میں سب سے نمایاں کردار ادا کیا ہے ، جس نے ملک میں سیاست کو ایک نیا رنگ دیا ہے اور جس نے گذرے ہوئے برسوں میں نہ جانے کتنی جانوں کی بھینٹ لی ہے ، کسی طرح سے نمٹا دیا جائے ؟ پر، کیا اس فیصلے کے بعد فرقہ پرستی کو زوال آجائے گا اور سیاست اپنے پرانے رنگ پر لوٹ آئے گی اور مزید انسانی جانیں بھینٹ نہیں چڑھیں گی؟ ان سوالوں کے جواب میں یقین یہی رکھنا چاہئے کہ ’ اب مزید انسانی جانیں بھینٹ نہیں چڑھیں گی اور سب کچھ بدل جائے گا۔‘ حالانکہ آر ایس ایس کیڈر اب متھرا کی شاہی مسجد اور بنارس کی گیان واپی مسجد کے لئے آواز اٹھانے پر زور دے رہے ہیں ۔ لیکن آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے ’پچھلی باتیں بھول جائیں‘ کی اپیل کی ہے ۔۔۔ مسلمان تو پچھلی باتیں بھول جائیں گے ، کیونکہ ان کا بھلا دینا ہی بہتر ہوگا مگر پچھلی باتوں کے ساتھ بہت سارے لوگوں کو بھلانا ہوگا ، کانگریس کو جس نے بابری مسجد ؍ رام مندر کو ’دھارمک‘ اور ’ جذباتی ‘ موضوع بنانے کی پہل کی ، ان مسلم لیڈروں کو جو اس ’ تنازعے‘ کو بنیاد بناکر اپنی اپنی ’لیڈری‘ چمکاتے رہے ۔ لیڈری چمکانے کے لئے ہر ایک کے سامنے پیشانیاں ٹیکیں ۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ مسلم قائدین نے ’ سودا‘ کیا، نہیں ’ سودے‘ کا الزام مانا نہیں جاسکتا ۔۔۔ کم از کم مسجد کے معاملے میں سود ا ہوگا، یہ بات سمجھ میں آنے والی نہیں ہے ۔۔۔ اور اگر کسی نے سودا کیا بھی ہے تو کیا ’ سودا‘ کیا ہوگا؟ کیا حاصل ہوا ہوگا؟ اب سودے کا الزام اوپر والے پرچھوڑدیا جائے ، جس نے جو کیا ہوگا اسے بھگتنا ہی پڑے گا ۔ اللہ کے یہاں کسی کی بخشش نہیں ہے ۔۔۔ اب طویل عرصے بعد یہ جو موقع ملا ہے مسلمان اسے اپنی ترقی کے لئے ، بہتری کے لئے ، اپنی تعلیم اور روزی روزگار کو اچھا سے اچھا کرنے کے لئے استعمال کریں ۔۔۔ ہمیشہ کی طرح ’ امن وامان‘ کو ہاتھ سے نہ جانے دیں ۔۔۔ اورپھر ثابت کردیں کہ مسلمان ملک کے خیر خواہ ہیں ، محبّ وطن ہیں ۔

Comments are closed.