Baseerat Online News Portal

مولانا ابوالکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ ایک جامع اور ہشت پہل شخصیت

 

مولانا محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

نیاز فتح پوری(سابق مدیر ماہ نامہ نگار) نےامام الھند مولانا ابو الکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ کی ہمہ جہت صلاحیت اور ان کے جوہر ذاتی پر تبصرہ کرتے لکھا ہے کہ مولانا آزاد رحمۃ اللہ علیہ اگر عربی شاعری کی طرف توجہ کرتے تو متبنی و بدیع الزماں ہمدانی ہوتے،اگر محض دینی و مذہبی اصلاح کو اپنا شعار بنا لیتے تو اس عہد کے ابن تیمیہ رح ہوتے ،اگر وہ علوم حکمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کردیتے تو ابن رشد اور ابن طفیل جیسے فلسفی ہوتے ،اگر وہ فارسی شعر و ادب کی طرف متوجہ ہوتے تو عرفی و نظیری کی صف میں نظر آتے ،اگر وہ تصوف و اصلاح کی طرف مائل ہوتے تو غزالی رح اور رومی سے کم نہ ہوتے۔
مولانا ابو الکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ انیسویں صدی کے نصف آخر کی پیداوار تھے اور بیسویں صدی کے نصف اول پر چھائے رہے ۔مولانا آزاد رحمۃ اللہ علیہ نے دو صدیوں کے قدیم و جدید گہواروں میں پروش پائ ،اگر قدیم نے ان کو سنوارا تو جدید نے انہیں نکھارا، ان کے ذھن میں حدت ہی نہیں جدت بھی تھی ۔ وہ قدیم صالح اور جدید نافع کے سنگم اور حسین امتزاج تھے۔ ان کے خیالات تروتازہ اور شاداب تھے ۔ افکار میں اعتدال اور وسعت تھی ۔ ہندو مسلم ایکتا کے داعی اور علمبردار تھے۔ ساتھ ہی افکار میں مذھب ،فلسفہ اور سماجی علوم کا ایک سنگم بن گیا تھا ۔
مولانا آزاد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تحریر و تقریر اور دانشوارانہ قیادت کے ذریعہ ملت اسلامیہ اور ہندوستانی عوام کی جو خدمت کی وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے آپ نے ہندوستان کے خوابیدہ معاشرہ میں اور بے جان سوسائٹی میں زندگی کی تڑپ پیدا کردی ۔ آپ کی علمی و عملی ،صحافتی و سیاسی جدوجہد نے ہندوستانی قوم کو نئی ڈگر اور شاہراہ پر لاکھڑا کیا۔ ہم شاعر کی زبان میں کہہ سکتے ہیں کہ :

جو تھے غفلت میں غرق ان کو صدا دیتا ہوا اٹھا

کہ وہ غیرت کے شعلوں میں ہوا دیتا ہوا اٹھا

جو تھے جذبات پژمردہ جوانی بخش دی ان کو

جو تھے ٹھہرے ہوئے دھارے روانی بخش دی انکو

ہندوستان اور برصغیر ہی نہیں بلکہ عالم اسلام میں ان کی شہرت ایک عالم ،مفسر، مدبر، مفکر، دانشور، سیاست دان اور اسکالر کے حیثیت سے تھی، مولانا آزاد رحمۃ اللہ علیہ کے علمی اور تعلیمی نقطئہ نظر کو واضح کرنے کے لئے ان کی تحریر کا یہ ایک اقتباس کافی ہے- مولانا آزاد رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
زمانہ بدل چکا ہے تعلیم بدل گئی ہے ،کوئ تعلیم کامیاب نہیں ہوسکتی،اگر وہ وقت اور زندگی کی چال کے ساتھ نہ ہو،زمانہ اپنی پوری تیز رفتاری کے ساتھ چلتا رہا،اور آپ وہیں بیٹھے رہے،آپ ان مدرسوں میں بیھٹے رہے ،جن مدرسوں میں آپ نے آج سے پانچ سو برس پہلے قدم رکھا تھا، اس پانچ سو برس کے اندر دنیا بیٹھی نہیں رہی، زمانہ بھی چلتا رہا ،وہ بھی پانچ سو برس کی مسافت طے کرچکا ہے ۔ اور آپ وہیں کے وہیں بیٹھے ہوئے ہیں ۔ آج جو تعلیم ان مدرسوں میں آپ دے رہے ہیں، وقت کی چال سے اسے کیسے جوڑ سکتے ہیں، ہرگز نہیں جوڑ سکتے،نتیجہ یہ ہے کہ زمانے میں اور آپ کے درمیان ایک اونچی دیوار کھڑی ہوگئی ہے، نتیجہ یہ ہے کہ وہ تعلیم جس سے ملک کے بہترین مدبر،ملک کے بہترین منتظم اور ملک کے بہترین عہدے دار پیدا ہوتے تھے ۔ آج انہیں مدرسوں کو یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ یہ لوگ بالکل نکمے ہیں، اس میں شک نہیں کہ جو لوگ ایسا سمجھتے ہیں انہوں نے حقیقت کو نہیں سمجھا ہے، لیکن ہمیں یہ ماننا پڑے گا اور اس میں کوئ شبہ نہیں کہ ہم زمانے سے دور ہوگئے ہیں، آپ نے اس کی کوشش نہیں کی کہ آپ اپنے مدرسوں کو زمانے کے ساتھ جوڑ سکیں ،زمانہ چلتا رہا اور ترقی پر پہنچ گیا،اور آپ وہیں رہے جہاں تھے ،نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کی تعلیم کا زمانہ کی مانگوں سے کوئ رشتہ باقی نہیں رہا اور زمانے نے آپ کے خلاف آپ کو نکما سمجھ کر فیصلہ کر دیا ،زمانہ نے آپ کو بیکار سمجھا ہے ۔ ہم کو ماننا چاہیے کہ ماضی میں ہمارا فرض تھا کہ ہم زمانے کے تقاضوں کا ساتھ دیتے ،مگر ہم نے زمانے کا ساتھ نہیں دیا.

(قافلہ علم و ادب ص: ۱۱۵/ از ڈاکٹر مولانا سعید الرحمن اعظمی ندوی)
مولانا ابو الکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ صرف کسی سیاسی لیڈر اور محض ایک قائد اور رہبر کا نام نہیں ہے بلکہ حقیقت میں وہ ایک روشن اور تاباں ستارہ تھا جو آسمان ہند پر اس لئے طلوع ہوا تھا کہ صبح آزادی کی آمد کا اعلان کرے ،جشن آزادی کی نوید سنائے،اور قوم و ملت کو یہ بشارت اور پیغام و پیام دے کہ زندگی ایک نئی کروٹ لے رہی ہے ۔ اب جو دن طلوع ہوگا اور اب جو سورج اپنی شمسی کرنوں کو بکھرے گا وہ مظلموں اور ستم رسیدہ طبقہ کی بالادستی اور ظالموں، جابروں کی شکست و پستی اور انحطاط و تنزلی کا ہوگا ،مولانا آزاد رحمۃ اللہ علیہ ایک شعلہ جوالہ تھے جس نے ظلمتوں کے دامن کو تار تار کردیا تھا ۔ مولانا آزاد رحمۃ اللہ علیہ کے قلم نے نصف صدی تک ایسی آگ برسائ کی انگریزوں کی توپ و تفنگ کو تودئہ خاکستر میں بدل دیا، آپ کی زبان نے اپنی تقریر اور زور خطاب سے وہ سیل بے اماں بپا کیا کہ انگریزوں و سامراجوں کے سفینہ کا دامن ساحل تک پہنچنا دوبھر کردیا ۔

وطن کے چہرئہ تاباں پہ جب رنگ جلال آیا

پیام انقلاب قوم لے کر الہلال آیا
کہا اس نے وطن والوں سے اب ہوشیار ہوجاؤ

نیا سورج ابھرنے والا ہے بیدار ہو جاؤ

مگر پیغام اسکے ساتھ ہی یہ بھی دیا اس نے

برائے اتحاد باہمی یوں بھی کہا اس نے

اگر کوئ فرشتہ آسمانوں سے اتر آئے

قطب مینار سے پھر وہ اگر اعلان یہ فرمائے

کہ آزادی ابھی دے دوں تمہیں ہندوستاں والو

اگر تم اتحاد باہمی کو ختم کر ڈالو

تو میں یہ شرط ٹھکرا کر بربادی نہیں لوں گا

جو کھو کر اتحاد آئے وہ آزادی نہیں لوں گا

مولانا آزاد رحمۃ اللہ علیہ کو قدرت کی طرف سے غیر معمولی ذہانت و فطانت اور خداداد حافظہ اور حاضر دماغی ملی تھی ، جوہر خطابت قلم سیال اور انشا پردازی اس پر مستزاد،خود داری خود اعتمادی، نیز نظافت و لطافت میں وہ اپنے معاصرین میں ممتاز و نمایاں تھے، ان کو پہلی بار دیکھنے کے بعد مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ کے تاثرات یوں تھے:
اس وقت جہاں تک یاد ہے میں نے ان کی سب سے پہلے گنگا پرشاد میموریل ہال کے ایک جلسہ میں زیارت کی،جلسہ کا مقصد ہندو مسلم اتحاد کی دعوت تھی،اور جہاں تک یاد آتا ہے، اس جلسہ میں مولانا محمد علی جوہر بھی موجود تھے،اور انہوں نے خطاب کیا تھا،جلسہ کے دوران مغرب کا وقت آیا، مولانا نے ہال کے شمالی گوشہ میں جہاں نماز کا انتطام تھا ،تشریف لے گئے،ہم سب لوگوں نے ان کی اقتداء میں نماز پڑھی اور میں نے سب سے پہلے ان کو قریب سے دیکھا ،بلند و بالا قد و قامت جس کو ۰۰سرو آزاد ۰۰ کہنا ہر طرح موزوں ہوگا،کتابی چہرہ جس میں سرخی جھلکتی ہوئ، آنکھیں روشن و فراخ متبسم بلکہ متکلم، پیشانی سے خود اعتمادی اور بلند طالعی نمایاں ،لباس خالص دہلی و لکھنئو کے شرفاء بلکہ روساء کا سا سادہ لیکن حسن مذاق اور نستعلیقی ہر چیز سے عیاں ،ٹوپی ذرا بلند جس میں ان کی انفرادیت جو ان کی ذات کا جوہر بن گئ تھی، نمایاں، پاؤں میں سلیم شاہی جوتا،یہ تھے مولانا ابو الکلام آزاد جن کو میں نے پہلی بار دیکھا ،ان کی تقریر کا ایک حصہ ذھن میں محفوظ رہ گیا،انہوں نے انسانی مساوات و اخوت کا اسلامی نقطئہ نظر بیان کرتے ہوئے سنن ابو داؤد کی ایک حدیث کا حوالہ دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخر شب میں اپنے رب سے جو سرگوشیاں اور دعاء و مناجات کرتے ہوئے سنا گیا اس میں ایک فقرہ یہ تھا ۔ انا شھید أن العباد کلھم إخوة میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سب بندے (انسان) بھائ بھائ ہیں۔(پرانے چراغ ۲/ ص:۴۷_۴۶)
بڑوں سے سنا اور پڑھا بھی کہ علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ اپنی مجلسوں میں ان کی غیر معمولی ذہانت اخذ کرنے کی غیر معمولی صلاحیت ۔ پھر اس کو بہتر طریقہ پر پیش کرنے اور اپنے معلومات سے کام لینے کی غیر معمولی قابلیت کا تذکرہ کیا کرتے تھے ۔
حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ کی زبانی علامہ شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ کی مولانا آزاد رح کے بارے میں تاثرات سنئے جن سے بہت سے حقائق واشگاف ہوجائیں گے اور لوگوں کی غلط فہمی بھی دور ہو جائے گی جو بعض معاصر لوگ مولانا آزاد رح کو صرف میدان خطابت اور سیاست کے شہسوار سمجھتے ہیں اور ان کی تحریر کے مداح اور قائل نہیں ہیں ۔
مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

بارہا ایسا ہوا کہ علامہ شبلی نے اپنے ارشد تلامذہ سے کسی موضوع پر لکھنے کی فرمائش کی اور انہوں نے مواد و معلومات کا ایک ذخیرہ رکھ دیا، ان کے بعض لائق ترین تلامذہ نے مضامین لکھ کر پیش کئے،لیکن وہ مطمئن نہیں ہوئے،بعض مرتبہ کئی بار یہ کوشش کی گئی اور ناکام رہی ،مولانا آزاد کسی گوشہ میں بیٹھے ہوئے یہ باتیں سن رہے تھے ،قریب آئے اور پوچھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں، علامہ شبلی نے مختصر تقریر کی،وہ اسی وقت بیٹھ گئے اور مضمون لکھ کر پیش کیا،مولانا نے فرمایا بس میں یہی چاہتا تھا.
یہ مضامین بعض اوقات بڑے نازک اور دقیق کلامی و فلسفیانہ مباحث پر ہوتے تھے، حاضرین مجلس کو یقین ہوتا تھا کہ اس موقع پر اس نوجوان (مولانا آزاد) انشا پرداز کا جس نے اپنی طلاقت لسانی سے سب پر اپنے علم و مطالعہ کا سکہ بٹھا رکھا ہے، بھرم جاتا رہے گا، اور اس کی علمی کم مائیگی کا راز فاش ہوجائے گا، لیکن معاملہ الٹا ہوا اور وہ ہر مرتبہ اس امتحان میں کامیاب ہوئے(کاروان زندگی ۲/ ص : ۴۵)

جنگ آزادی علمی، سیاسی اور قومی و ملی میدان میں مولانا آزادرحمۃ اللہ علیہ کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے ان کی سیرت و سوانح لکھنے والوں نے اس موضوع پر خوب لکھا ہےاور تفصیلی مواد فراہم کر دیا ہے علم و ادب کے خوشہ چینوں کو ان کتابوں سے استفادہ کرنا چاہیے اور اپنے لئے آئنہ بنانا چاہیے ۔
آزادی کے بعد ۱۹۴۷ء میں ہندوستان میں جو پہلی وزارت تشکیل دی گئی اس میں آپ وزیر تعلیم و ثقافت بنائے گئے ،آپ نے آزاد ہندوستان میں بحیثیت وزیر تعلیم، تعلیمی نظام کا پورا ڈھانچہ تیار کیا ۔ سائنس اور ایٹمی ترقی کا اعلی تحقیقاتی ادارہ کی بنیاد آپ نے رکھی۔ صنعت و ٹکنالوجی کو فروغ دینے کے لئے انڈین کاونسل فار ایگریکلچر سائنٹفک ریسرچ قائم کیا۔ معیاری میڈیکل تعلیم کے لئے انڈین کونسل فار میڈیکل ریسرچ یہ بھی آپ ہی کی دین ہے ۔ سماجی علوم کے لئے کاونسل فار سوشل سائنس کی بنیاد بھی آپ ہی نے ڈالی ۔ تہذیبی روابط کو قائم رکھنے کے لیے انڈین کاونسل فار کلچرل ریلیشنز کے بانی بھی آپ ہیں ۔ انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل اسٹیڈیز آپ کی سرپرستی میں قائم ہوا۔ فنون لطیفہ اور ادبیات کو ترقی دینے کے لئے ساہتیہ اکیڈمی،سنگیت ناٹک اکیڈمی اور للت کلا اکیڈمی آپ کی ہی مرہون منت ہے ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں علوم شرقیہ اور عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد میں ادارہ علوم اسلامی کے بانی بھی آپ ہی ہیں ۔ یو جی سی کے خد و خال اور اصول و ضوابط بھی آپ ہی نے اپنی نگرانی میں تیار کرائے ۔
مسلم امہ کے لئے مولانا آزاد رحمۃ اللہ علیہ نے بہت کچھ کیا اور بہت کچھ کرنا چاہتے تھے ۔ مولانا آزاد رح کی بڑی اور دیرینہ خواہش تھی کہ ہندوستانی مسلمان ایک امیر اور امام کی اطاعت میں زندگی گزاریں ۔ ان کا ہر شرعی اور دینی کام امیر کی نگرانی اور ماتحتی میں ہو ۔ انہوں نے الھلال کے ذریعہ مسلمانوں میں فکری و سیاسی بیداری کا انقلابی کام شروع کیا جو حزب اللہ کی تربیت اور اس امارت شرعی اور امامت دینی کے احیا پر منتج ہو رہا تھا جو عرصہ سے مسلمانوں میں مردہ اور معطل ہوچکی تھی مولانا آزاد کی اس صدائے اسرافیل سے اس میں جان پیدا ہونی شروع ہوگئی تھی اور ہندوستان کے ایک بڑے باشعور و صاحب حمیت طبقہ نے ان کے ہاتھ پر بیعت کرکے ان کی امارت تسلیم کرکے ان کو امام الہند بھی کہنا شروع کردیا تھا ۔ مجبورا آپ کو اس خوش آئند عمل کو روکنا پڑا خلافت کی ناکامی ہندو مسلم اتحاد کی شکست فرقہ وارانہ تحریکوں کی مقبولیت اور اپنوں کی مخالفت سے بددل ہوکر انہوں نے اپنی ساری تگہ و دو دلچسپی و سرگرمی اور خداداد صلاحیتیں اور توانیاں ایک فعال و مستقل و منظم ادارہ انڈین نیشنل کانگریس کے حوالہ کردیں ۔ جس کے رہنما ان کے خداداد کمالات ان کی مستقل مزاجی و خوداری ان کی وطن دوستی اور انگریز دشمنی ان کی غیر معمولی حاضر دماغی اور سیاسی بصیرت کے حد درجہ قائل تھے ۔
مولانا آزاد رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق بہت کچھ لکھا گیا ہے اور لکھا جائے گا ۔ ان کی سیرت و سوانح علمی و سیاسی خدمات اور ان کے نظریات و خیالات اور تفردات کے ایک ایک گوشہ پر مزید بہت کچھ لکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ ہندوستانی سیاست اور ہماری قدیم تہذیب و تمدن اور ثقافت و کلچر کا ایک ستون تھے ۔ وہ معصوم اور فرشتہ نہیں تھے بے عیب ذات صرف خدا کی ہے اور سراپا عصمت زندگی خدا کے پیغمبروں کی ہوتی ہے جس مین قیل و قال کی گنجائش نہیں ہوتی۔ مولانا آزاد بھی ایک انسان تھے علمی چوک اور غلطیوں سے وہ مبرا اور پاک نہیں تھے اس لئے اس کی بھی گنجائش تھی کہ ان کی بشری لغزشوں اور کمزوریوں کے متعلق بھی ان کے معاصرین لکھیں اور ان کو نہ روکا جائے ۔ لیکن ان کی حیرت انگیز حافظہ اور ان کی غیر معمولی قابلیت و صلاحیت ان کی حاضر دماغی بیدار مغزی ذہانت اور ادبیت و انشاء پردازی اپنے خیالات کی پختگی اور اپنے مسلک پر ثابت قدمی و استقامت کے سب قائل اور معترف تھے کیونکہ ان خوبیوں میں وہ اپنے معاصرین میں ممتاز و بے مثال تھے ۔
مختصر یہ کہ مولانا آزاد رحمۃ اللہ علیہ کی شکل میں ۱۱/ نومبر ۱۸۸۸ء میں مکہ معظمہ کے افق پر جو سورج طلوع ہوا تھا ۔ وہ اگر چہ ۲۲ /فروری کو سرزمین ہند میں غروب ہوگیا۔ لیکن اپنے ایسے انمٹ نقوش چھوڑ گیا ہے جو ہمارے لئے ہمیشہ سنگ میل کی حیثیت رکھیں گے ۔
وہ تو باقی نہ رہا، اس کی مگر یاد رہے
ہر قدم پیش نظر اسوئہ آزاد رہے
میکدہ اس کی روایات کا آباد رہے

Comments are closed.