اپوزیشن اپنی کمزوریوں کا محاسبہ کرے

وصیل خان ( ممبئی اردو نیوز )
یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ دنیا کی کسی شے کو بھی ثبات حاصل نہیں ہے خواہ وہ معاشی بحران ہو یا کہ سیاسی اور اقتصادی، ہر شے ہمہ وقت تغیر پذیر ہے ۔یہی سبب ہے کہ دنیا کی بڑی سے بڑی حکومتیں اپنی طاقت اور طالع آزمائی کے باوجود زوال پذیر ہوجاتی ہیں۔تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ حکومتیں جن سے ٹکر لینے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا اور جن کی طاقت کے سامنے بڑے بڑے سورما ؤں کے پاؤں اکھڑ جایا کرتے تھے اس طرح خاک میں مل گئیں کہ آج ان کا ذکر صرف تاریخ کے اوراق میں ہی دکھائی دیتا ہے ۔مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ظلم و استبداد کسی بھی حکومت یا نظام سلطنت کیلئے زہر ہلاہل ہوتا ہے یہی سبب ہے کہ ظلم و ستم کو بنیاد بنانے والی حکومتوں کی عمریں اور بھی کم ہوجاتی ہیں،ان کا خاتمہ اس طرح ہوتا ہے کہ ان کا نام نشان تک محفوظ نہیں رہ جاتا ۔یہی حال وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت والی بھارتیہ جنتا پارٹی کا ہے جس کا ہندوستانی عوام نے کھل کر خیرمقدم کیا تھا اور ۲۰۱۴ کے پارلیمانی الیکشن میں اسے بہت بھاری اکثریت سے کامیاب کرکے اسے منصب اقتدار تک پہنچا دیا تھا لیکن موجودہ حکومت نے اسے اپنی ذاتی کامیابی سمجھ کر من مانی شروع کردی اور اقلیتوں خصوصا مسلمانوں کے ساتھ ظلم کی انتہاکردی اقتدار کے نشے نے اسے اس قدر اندھا کردیا کہ وہ یہ بھی فراموش کربیٹھی کہ عوام کی ایک حکومت سے توقعات کیا ہوتی ہیں ،عوام کی انتہائی درجے کی تمنا و خواہش یہ ہوتی ہے کہ منتخبہ حکومت سب سے پہلے ملک کے اندر امن و امان کے قیام کو یقینی بنائے اس کے بعد اشیائے ضروریہ کی فراہمی کے ساتھ ساتھ صنعت و تجارت کے فروغ کا اہتمام کرے جس کے لئے انفرانسٹرکچرکے نظام کو بہتر بنانا انتہائی اہم ہوتا ہے ۔کسی بھی ملک کی ترقی اور استحکام کیلئے ان باتو ں پر عمل از حد ضروری ہوتا ہے بصورت دیگر خلفشار و انتشار بڑھتے بڑھتے ملک کی سالمیت ہی داؤں پر لگ جاتی ہے، بدامنی اور لاقانونیت اپنے پرپرزے نکالنے لگتی ہےنتیجتا ًحکمراں جماعت عوامی عتاب کا شکار ہوجاتی ہے۔آج تقریبا ً یہی صورتحال بی جے پی کی ہے جو زوال کی طرف تیزی سے بڑھی جارہی ہے ۔اس کی تازہ مثال مہاراشٹراور ہریانہ کے حالیہ اسمبلی انتخابات سے بہ آسانی سمجھی جاسکتی ہے ۔دونوں جگہوں کے نتائج سے بھگوا لہر کی کمزوری دیکھی جاسکتی ہے ۔ کافی اٹھا پٹخ اور لے دے کے باوجودمہاراشٹر میں شیوسینا اور بی جے پی کی حکومت بننے کے آثار نظر نہیں آ رہے ہیں لیکن ہریانہ میں کانگریس کیلئے جوڑ توڑ کے ذریعے حکومت سازی کی گنجائش کے باوجود بہر صورت وہاں بی جے پی حکومت سازی میں کامیاب ہوگئی ۔لیکن ان انتخابات کے نتائج نےاتنا تو اشارہ دے ہی دیا ہے کہ بی جے پی آر ایس ایس، نریندرمودی اور امیت شاہ کی چانکیہ نیتی کے باوجود یہ لوگ ناقابل شکست نہیں ہیں اور انہیں یکسر اقتدار سے بے دخل کرنا کچھ مشکل نہیں ہے ۔دوسرے یہ کہ جارحانہ قسم کی وطن پرستی بہ الفاظ دیگر فرقہ پرستی کا کارڈ بھی ایک حد تک ہی کھیلا جاسکتا ہے اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نفرت پر جب جذبات غالب آجاتے ہیں تو وہ جذبات کسی کی بھی حکومت کا تختہ پلٹنے کیلئے کافی ہوتے ہیں ۔ایسا نہیں ہے کہ پارلیمنٹ میں بی جےپی کی مسلسل دو پارلیمانی انتخابات میں کامیابی کا سبب اس کی فرقہ پرستی کی سیاست ہے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ ہندوستانی عوام کا اعتماد جمہوری طرز حکومت سے اٹھ گیا ہے بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ سیکولرازم کی دعویدار پارٹیوں نے اپنی نا اہلی ،کرپشن اور انا پرستی کی وجہ سے عوام کی نظروں میں خود کو بے وقعت بنالیا تھا جس کے نتیجے میں بی جے پی کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی ۔۲۰۱۴ میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد پورے دور اقتدار کے دوران متعدد مواقع ایسے آئے جب حکومت کو بڑی آسانی سے گھیرا جاسکتا تھا ۔نوٹ بندی ، جی ایس ٹی اور حکومت کے بعض اقدامات کو لے کر عوامی سطح پر پھیلنے والی شدید ناراضگی کو حزب اختلاف کی جماعتیں اپنے حق میں استعمال کرسکتی تھیں جس کی بنیاد پر حکمراں جماعت کو پیچھے دھکیلا جاسکتا تھا، لیکن ان کے باہمی انتشار نے انہیں کسی بھی طرح کے تال میل سے محروم رکھا ،یہاں تک کہ صدر جمہوریہ ،نائب صدر جمہوریہ اور راجیہ سبھا کے ڈپٹی چیئرمین کے چناؤ کے موقع پر بھی اپوزیشن جماعتیں خود کو متحدرکھنے میں شدید طور پر ناکام رہیں ۔ آرایس ایس کے روح رواں ویر ساورکر جن کے متعلق تاریخ کے صفحات گواہ ہیںکہ انہوں نے ملک کی آزادی کیلئے کچھ نہیں کیا اس کے برعکس وہ انگریزوں کے ایک طرح سے حلیف رہے ،گاندھی جی کے قتل کی سازش میں انہیں سپریم کورٹ کے ایک جج جسٹس جے ایل کپور نے قصور وار قرار دیا تھا ۔اس کے باوجود کانگریس کے لیڈر سنگھوی ان کی ستائش کرکے عوامی سطح پر کیا پیغام دینا چاہتے ہیں ۔ کانگریس کا حال تو یہ ہے کہ بابری مسجد انہدام جسے ماہرین انصاف نے جمہوریت کا قتل قرار دیا تھا ،اس تعلق سے وہ کبھی سنجیدہ نہیں رہی ۔کانگریس کے چوٹی کے لیڈرارجن سنگھ بار بار پارٹی کو یہ مشورہ دیتے رہے کہ بابری مسجد کے انہدام کی ذمہ داری پارٹی کو نہ صرف قبول کرلینی چاہیئے بلکہ اس کے لئے پارٹی اعلی ٰکمان کو مسلمانوں سے معافی مانگ لینی چاہیے لیکن پارٹی قیادت نے ان کی بات درکنار کردی ۔اب بھی وقت ہے کانگریس اور اپوزیشن کو سرجوڑکے بیٹھ کر اپنی کمزوریوں محاسبہ کرنا چاہیئے ۔ہریانہ اور مہاراشٹر میں بی جے پی کو پھر وہی جھٹکا لگا ہے جیسا گجرات اسمبلی میں لگا تھا گجرات ،ہریانہ اور مہاراشٹر میں کانگریس کی پوزیشن پہلے سے بہتر ہوئی ہےدوسری طرف مودی اور امیت شاہ کی جادوئی شخصیت جسے لوگوں نے ناقابل شکست تسلیم کرلیا تھا کمزور نظر آرہی ہے اس کے باوجودبی جے پی کو جو کامیابی ملی ہےاس میں اس کی کارکردگی کا نہیںبلکہ اپوزیشن کی بے حسی اور شکست خوردگی کا بہت بڑا دخل ہے ۔
ملک کی معیشت بے حد خراب اور مایوس کن ہے کسان حسب معمول عاجز وپریشان ہیں ، نوٹ بندی اورجی ایس ٹی کے سبب جن کے کاروبار چوپٹ ہوگئے اور کتنوں کی تو کمر ہی ٹوٹ گئی ہے حکومت نوجوانوں کو روزگار دلانے کے وعدے کو بھی وفا نہیں کرسکی ہے ،چھوٹی چھوٹی صنعتی یونٹیں تباہ و برباد ہوچکی ہیں اور پورے ملک پر بے روزگاری کے گھنے بادل منڈلا رہے ہیں ۔ یہ تو اچھا ہے کہ ہندوستان میں جمہوری نظام ابھی مستحکم ہے اور ہر سطح کے انتخابات بھی پابندی سے ہورہے ہیں اور اقتدار کی منتقلی کا عمل بھی شفافیت سے جاری ہے اس کے باوجود معاشی بحران اور بے روزگاری کی وجہ سے عوام کے ایک بڑے طبقے میں بے چینی پھیلی ہوئی ہے ۔موجود حکومت اگر اس کا علاج یکساں سول کوڈ کے نفاذ اور آرٹیکل ۳۷۰کی کالعدمی اور طلاق ثلاثہ میں ڈھونڈھ رہی ہے تویہ اس کی خام خیالی ہے ملک کی عام جنتا کو ان سب معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں ،اسے تو اچھا روزگار ، اچھا انفرانسٹرکچراور امن و انصاف کی بحالی عزیز ہے اور جس پارٹی کے پاس یہ کلید ہوگی کامیابی اسی کا مقدر ہوگی ۔ظلم و جبر کی آندھی وقتی نقصان تو پہنچا سکتی ہے ،پائدار اقتدار ہرگز نہیں ۔
Comments are closed.