بابری مسجد مقدمہ : مسلمانوں کو کچھ نہیں ملا تو عام ہندو بھی خالی ہاتھ ہیں

مولانا محمود احمد خاں دریابادی
جنرل سکریٹری آل انڈیا علماء کونسل
پوری قانونی طاقت لگانے کے باوجود مسجد ہمیں نہیں ملی، پانچ قابل ترین ججوں کا فیصلہ تھا، پھر بھی تضادات سے بھرا ہوا، 1528ء سے مسجد موجود تھی یہ تسلیم ہے پھر بھی 1857ء تک وہاں نماز پڑھنے کا ثبوت مسلمانوں سے طلب کیاگیا، وھیں یہ بھی تسلیم ہے کہ دوسرے فریق نے 1949ء تک اندر کے حصے میں کبھی پوجا نہیں کی، پھر بھی زمین ان کی …….. !
مگر ٹھہرئیے! زمین اُن کی بھی نہیں ہے ……. ! عام ہندوؤں کی نمائندگی کرتے ہوئے نرموہی اکھاڑا برسوں سے کیس لڑرہا ہے، سب سے پرانا فریق ہے، …….. سنگھ پریورار نے سیاسی فائدہ کے لئے رام مندر تحریک چلائی، کہتے ہیں کہ ملک وبیرون ملک بے شمارچندہ جمع ہوا، ………. کچھ بھی کہئے، سنگھ پریوار کے لوگ ہوتے ہیں بہت دور اندیش !…….. انھوں نے رام جنم بھومی نیاس کے نام سے اپنی ایک ذیلی تنظیم بنائی اور رام للہ نابالغ ہیں (؟) اس لئے ان کا سرپرست بن کر 1987ء کے قریب مقدمہ میں فریق کی حیثیت سے شامل ہوگئے، اُس وقت ہمارے وکلاء اور نرموہی اکھاڑے کے وکلاء نے اگر پُر زور مخالفت کی ہوتی تو شاید ایسا ممکن نہ ہو پاتا ـ
بہر حال جب فیصلہ آیا تو پتہ چلا کہ ہندوؤن کا سب سے پرانا فریق ابتدائی مرحلے میں ہی خارج ہوگیا، مسلمانوں کو تو پھر بھی پانج ایکٹر کا معاوضہ منظور ہوا، نرموہی اکھاڑہ دودھ کی مکھی کی طرح باہر ………. ! پوری زمین سنگھ پریوار کے رام جنم بھومی نیاس کو مل گئی، یوپی حکومت کے لئے آڈر ہوا کہ ایک نیا ٹرسٹ بنائے اس میں ” اگر مناسب سمجھے ” تو نرموہی اکھاڑے کا بھی ایک ٹرسٹی شامل کرلے ـ
رام مندر کے نام پر کڑوڑوں روپے جمع ہیں، مندر بن جانے کے بعد شردھالووں سے روز لاکھوں کی امدنی متوقع ہے، اس بہتی گنگا سے کون محروم ہونا چاہے گا؟
اس لئے بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اصل میں مندر عام ہندوؤن کو نہیں ملا، بلکہ سنگھ پریوار کو ملا ہے، رام مندر کے لئے جان ومال کے ساتھ سب سے زیادہ محنت شمالی ہندوستان کے ہندؤوں نے کی ہے اب جو نیا ٹرسٹ بنے گا اُس میں ممکن ہے مودی وامت شاہ کے قریبی گجرات کے جین ہوں، ناگپور کے وفادار بندے ہوں، آخر ایودھیا اور یوپی کے لوگ جو رام مندر کا جھنڈا اٹھائے پھرتے تھے، لاٹھی گولی کھاتے تھے اُن کو کیا ملے گا ـ
اب ایودھیا میں جنم بھومی نیاس والے کہتے ہیں کہ نیا ٹرسٹ بنانے کی کیا ضرورت ہے ہمارا ٹرسٹ تو موجود ہے ہی! دوسری طرف ایودھیا کہ دوسرے سنت چلا رہے ہیں کہ نیا ٹرسٹ بنایا جائے اور اس میں خاندانی طور پر رام کی بھگتی کرنے والوں کو ہی شامل کیا جائے، مطلب یہ کہ جین اور کرشن، پاروتی، شنکر وغیرہ کے خاندانی بھگت شامل نہ ہوں ـ ( دراصل ہندوقوم موقع بموقع پوجا تو بہت سے بھگوانوں کی کرلیتی ہے، کبھی کبھی درگاہوں کو بھی پوج لیتی ہے مگرہر ایک کے خاندانی بھگوان مخصوص ہوتے ہیں)
ایودھیا میں اب اندرونی یدھ شروع ہوچکا ہے، پولیس کی مداخلت بھی ہوچکی ہے، مسلمانوں نے تمام تر جدوجہد کے بعد احکم الحاکمین پر توکل کرکے صبر لیا ہے، ……. اب مسلمانوں کا صبر رنگ لا رہا ہے، ابھی تو شروعات ہے ………
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا ـ
Comments are closed.