چپ رہنا بھی ہے ظلم کی تائید میں شامل

محمد عظیم فیض آبادی
دارالعلوم النصرہ دیوبند 9358163428
ـــــ ـــــ ـــــ ـــــ ـــــ
ہندستان جیسے جمہوری ملک میں اپنے ملی ومذہبی مسائل کے حل کے لئے خاموش رہ کر نہیں بلکہ قابون وآئین کی پاسداری کرتے ہوئے مسلکی اختلاف کو بھلاکر اتحاد واتفاق کے ساتھ اپنی آواز بلند کرنی چاہئے ضرورت پڑے تو دیگر قوموں کی طرح سرکوں پر اترکر اپنی طاقت وبیداری ثبوت دیناچاہئے ورنہ یہی ہوتارہے گا جو طلاق اور دیگر موقعوں پرہوا ہے _
ـــــ ـــــ ـــــ ـــــ ـــــ
بابری مسجد کا فیصلہ جس طرح ایک فرقہ کو خوش کرنے کے لئے ثبوت وشواہد کو درکنار کرتے ہوئے آئین وقانون کی پرواہ کئے بغیر سنادیا گیا اور اس طرح پانچ سو پرانی مسجد عظیم ہندوستان کی عظمت کے نشان کو پٹّہ لگا کرتاریخ میں ایک سیاہ باب کا اضافہ کیاگیا ہے وہ جگ ظاہر ہے فیصلہ کے اول دن سے ہی ہندوستانی مسلمان غم واندوہ کے جس ماحول میں سانس لے رہاہے وہ ہم سب دیکھ ہی رہے ہیں ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان پر بھی اس کا اثر محسوس ہورہاہے قانون وآئین سے نابلد شخص کی بھی یہ آرزو رہی کہ کاش اب کوئی اور موقع ہواور کچھ سدھ بدھ رکھنے والوں کی زبان پر تواول ہی دن سے تھا کہ نظرثانی کی اپیل دائر کرنی چاہئے بعض تو عالمی عدالت تک اس کیس کو چیلنج کرنے کی تجویز رکھ چکے ہیں_
اب یہ خبر امت مسلمہ کے لئے بڑی خوش آئند ہے کہ ملت فروشوں کو چھوڑ کر تقریبا تمام ہی اکابرین وتنظیموں، کورٹ میں مقدمے کے تمام نمائندگان اور قانونی مشیروں کا اس بات پر الحمدللہ اتفاق ہورہاہے کہ سپریم کورٹ میں نظرثانی کی اپیل کی جانی چاہئے _
اسی کے ساتھ ساتھ سوداگرانِ ملت کا چہرہ بھی آہستہ آہستہ بے نقاب ہورہاہے_
11 نومبر کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا میں شائع رپورٹ کے مطابق یوپی کا سنی وقف بورڈ مارچ ہی میں اپنی خوشی سے بابری مسجد کی ملکیت سے دستبردار ہونے کی درخواست سپریم کورٹ میں داخل کرچکاتھا اسی لئے سنی وقف بورڈ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے فورا بعد اس متضاد فیصلے کو قبول کرنے کی بات کرتے ہوئے نظرثانی کی درخواست کرنے سے منع کردیاتھا اسی لئے غالبا وقف بورڈکا چیئرمین مقدمے کی سنوائی کے دوران ہی یہ خطرے کا اظہار کرتے ہوئے سیکورٹی بڑھانے کی مانگ کرچکے تھا کہاجاتاہے کہ
"چور کی ڈاڑھی میں تنکا ”
اگرچہ وقف بورڈ وقف املاک کا مالک نہیں ہوتا بلکہ صرف نگراں اورمتولی ہوتاہے جس کاکام صرف وقف املاک کی حفاظت اور اس کے انتظام وانصرام کا ذمہ دار ہوتاہے وقف املاک کا کسی طرح سودا کرنے یابیچنے اور اس سے دستبردار ہونے کا سےکوئی اختیار نہیں ہوتا اوقاف کےشرعی مسائل جاننے والے خوب اچھے طرح جانتے ہیں ، وقف ایکٹ بھی اس بات کو تسلیم کرتاہے ، ان شرعی وحکومتی مسائل سے قطع نظر اگریہ بات سچ ہے کہ وقف بورڈکے چیئرمین نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے جیساکہ ٹائمس آف انڈیامیں شائع رپورٹ سے پتہ چلتاہے تو پھر اوقاف کی حفاطت ونگرانی کے لئے جمعیةعلماء ہند ، مسلم پرسنل لاء ، جماعت اسلامی اور ملک کی دیگر تنظیموں کے سربراہان اورغیورمسلم سیاسی رہبروں کے ساتھ مل کر مستقبل کے لئے کوئی مستقل لائحہ عمل طے کرنا چاہئے ورنہ ملت فروش ایمان کے سوداگر نہ جانے کتنی مسجدیں عید گاہیں اور درگاہوں کا سوداکرکے منادر کی تعمیر کی راہیں ہموار کرتے رہیں گے ؟
اسی طرح ہمارے درمیان چھپے ہوئے میر جعفر ومیر صادق کے ہمنوا ملت فروش ایمان کے سوداگروں سے ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہئے ، آج بھی ملت فروشوں کی ایک ٹولی اِدھر اُدھر 5 ایکڑ زمین لینے کےلئے بے تاب ہی نہیں بلکہ شرم وحیا کوبالائے طاق رکھ کر اپنی وفاداری کے گن گاتے ہوئے ہندوتنظیموں کی حکمت عملی کے مطابق ان کے مقاصد کو بروکار لانے کے لئے بےچین ہے _
اسی طرح کی ایک ٹولی متضاد فیصلے کے اگلےہی دن قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوبھال کے ذریعہ متعینہ پلان کے مطابق بلائی گئی ایک میٹنگ میں شرکت کرکے اپنے ضمیرکی آوازکو دباکر، ثبوت شواہد ، عدل انصاف ، آئین وقانون کو بالائے طاق رکھ کر کئے گئے فیصلے پر مسکراتے ہوئے تصویر کھینچواکر سرخروہونے اور فیصلے پر سر تسلیم خم کرنے پہنچ گئی جن کے اندر یہ ہمت نہ ہوسکی کہ اس کے سامنے ملک کی سپریم کورٹ کے ذریعہ ثبوت وشواہد کے برعکس آستھا کی بنیاد پردیئے گئے فیصلے کے نقائص پر لب کشائی کرتے اور اسکے بھیانک انجام سے آگاہ کرتے ، پوری دنیامیں ملک عزیز کی رسوائی اور آستھا کو بنیاد بناکر دئے گئے فیصلے پر عدالت کی بدنامی کو بیان کرتے اور اپنے اندر یہ جرأت پیداکرتے کہ اجیت دوبھال سے یہ سوال کرسکیں کہ کیا ملک اور عدالت آستھا کی بنیاد پر چلیں گے یا آئین وقانون کی بالادستی قائم رہے گی ؟
عدالتیں اور حکومتیں ظالموں کے شانہ بشانہ ہونگی یاپھر مظلوموں کی فریاد رسی بھی ہوگی؟
آئین میں دی گئی آزادی برقرار رہے گی یا چھین لی جائے گی ؟ مسلمانوں کی املاک اوقاف عبادت گاہیں اور قبرستان محفوظ رہیں گی یا پھر ایک ایک کرکے بابری مسجد کی طرح دھوکے سے مسلمانوں کو اطمینان دلاتے ہوئے مسمارکی جاتی اورہندو دیوی دیوتاؤ کے نام چھینی جاتی رہیں گی ؟
اگر غیرت وحمیت فنا ہوجائے بزدلی کانام مصلحت رکھ لیا جائے چاپلوسی اور ضمیرفروشی کو وفاداری کانام دے دیاجائے تو پھر باطل طاقتوں کے سامنے برملا حق کے اظہار واعلان کی ہمت وحوصلے کی توقع گولر کے درخت سے انجیر توڑنے کی توقع جیسا ہے اوریہاں تو گولر کی امید بھی فضول معلوم ہوتی ہے _
اب مسلم امہ کو چھبیس 26 جنوری اورپندرہ 15 اگست کی طرح ہمیشہ پابندی کے ساتھ چھ 6 دسمبر اور نو 9 نومبر کو سیاہ دن کے طور پر مناناچاہئے اور انے والی نسلوں کو بابری مسجد کی تاریخ سے روشناس کرانے کےلئے اس کو اپنےاسکولوں ، کالجوں ، اور مدارس ومکاتب کے نصاب کا حصہ بناناچاہئےتاکہ آنے والی نسلیں بھی یاد رکھیں کہ کس طرح آستھا کو بنیاد بناکر پانچ سو سالہ قدیم مسجد مسمار کرکے قانونی طور پر مندر بنانے کا جواز فراہم کیا گیا_
اسی طرح ملک کے امن وآمان کو برقرار رکھتے ہوئے آئین وقانون کی پاسداری کرتے ہوئے مسلکی اختلافات کو فراموش کرکے اتحادکےرسی کو مستحکم کرنے ، ملک میں اپنی طاقت کو مضبوط ، اورقوم میں بیداری پیداکرنےکی ضرورت ہے اور یہ کام بزدلی کی کھائی سے احتیاط ومصلحت کی چادر میں لپٹ کر میڈیاکو بیان داغنے سے نہیں بلکہ عملی میدان میں اتر کر ضرورت پڑنے پر جمہوری طرز پر احتجاج کرکے قوم کو بیدار رکھ کر ہی انجام دیاجاسکتاہے_
Comments are closed.