دیوار برلن کی طرح دیوار ہندو پاک بھی گرادی جائے گی؟

 

امیش چترویدی

ترجمہ: نازش ہما قاسمی

اتفاق ہے یا پھر سپریم کورٹ نے ۹؍نومبر کو ملک کی اکثریت کے آستھا کی علامت رام مندر پر فیصلہ سنایا۔ اس بارے میں ٹھیک ٹھیک کہہ پانا مشکل ہے، اس تاریخ کی اہمیت پر ملک کا دھیان اس وقت گیا جب قوم کے نام اپنے خطاب میں وزیراعظم نے کہا کہ جرمنی کی بناوٹی بٹوارے کی علامت رہی برلن کی دیوار گرنے کی شروعات ٹھیک تین دہائی پہلے اسی تاریخ کو ہوئی تھی، پہلی نظر میں لگتا ہے کہ وزیر اعظم کا پیغام ہندوستانی اکثریت اور اقلیتی فرقے کے درمیان کی دیوار کی جانب ہوسکتا ہے؛ لیکن باعلم افراد مانتے ہیں اس کے کچھ اور بھی مطلب ہوسکتے ہیں۔

اس کی وجہ بنی ہے مرکز کے اقتدار میں آنے سے نریندر مودی کے ذریعے لیے گئے اہم فیصلے، وزیر اعظم نے خود بھلے ہی سوچ سمجھ کر فیصلے کیے ہوں؛ لیکن تجزیہ کار اورتجزیہ نگاروں کی نظر میں ان کے زیادہ تر فیصلے چونکانے والے ہی رہے ہیں، نوٹ بندی ہو یا سرجیکل اسٹرائک یا پھر بالا کوٹ میں کارروائی۔ وزیر اعظم نے اپنے ان فیصلوں سے دنیا کو چونکایا ہی ہے، ہندو اورمسلم کمیونٹی کے درمیان جو دیوار کھڑی ہوچکی ہے اگر اس فیصلے کے بعد ٹوٹتی ہے تو وزیر اعظم کی اس امید کا خیر مقدم ہی کیاجاناچاہئے۔ ویسے بھی سیاسی فائدے کےلیے اقلیت کی منہ بھرائی کی جانب قدم بڑھانے کا الزام ماضی کی تمام برسراقتدار پارٹیوں پر عائد ہوتا رہا ہے۔ نوے کی دہائی میں ان سیاسی دھارائوں پر بھی اسے بڑھاوا دینے کا الزام لگا جو ڈاکٹر لوہیا کے پیروکار ہونے کا دم بھرتے ہیں۔

لوہیا بے شک اقلیتوں کے تحفظ کے حامی تھی؛ لیکن وہ منہ بھرائی کے خلاف تھے۔ اترپردیش میں تمام تاکیدوں کے باوجود ایک چناوی اجلاس میں انہوں نے طلاق ثلاثہ کی مخالفت میں بیان دینے سے پرہیز نہیں کیا تھا۔ آج جو رام مندر چرچے میں ہے اس کےلیے لوہیا اور مسلم ستیہ شودھک منڈل(اسلامی سچائی تلاش کرنے کی سوسائٹی) کے صدر پونے کے حمید دلوائی نے مسلم نوجوانوں کی ستیہ گرہ ٹولیاں بنانے کی تیاری کی تھی انکا مقصد متنازعہ زمین اکثریت کو دلانے کا تھا۔ دونوں کا ماننا تھا کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے اقلیتوں کا بھروسہ اکثریت میں بڑھے گا؛ لیکن اس منصوبے پر عمل ہوپاتا اس سے پہلے ہی لوہیا کا انتقال ہوگیا۔

تیس سال پہلے برلن کی دیوار ہی نہیں ٹوٹی تھی، دونوں طرف کے لوگوں کے دلوں کو بانٹنے کی جو کوشش ہمنوا ممالک اور سویت طاقتوں نے کی تھی وہ بھی خاک آلود ہوئی تھی۔ ایودھیا پر آئے فیصلے کے بعد دونوں کمیونٹی نے جیسی سمجھ دکھائی ہے، اس سے یہ امید بےمعنی نہیں ہے کہ دونوں فرقوں کے درمیان کی تقریباً تین دہائی پرانی عدم اعتماد کی کھائی ختم ہوسکے گی۔ ایک ملک کے طور پر بھارت کی یہ بڑی کامیابی ہوگی۔ لگتا ہے کہ دیوار برلن کا ذکر کرکے وزیر اعظم نے ہندوستان کی تاریخی غلطی کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔ ایک حلقے میں ماناجارہا ہے کہ اسے سدھارنے کی جانب بھی ان کا اشارہ ہے، آزادی کے ستر سال بعد بھی یہ بات وقفے وقفے سے اُٹھتی رہتی ہے کہ ہندوستان کی تقسیم بناوٹی تھی، اسے دونوں طرف کے سنجیدہ لوگ قبول نہیں کرپائے تو کیا وزیر اعظم برلن کی دیوار ٹوٹنے کا اس تناظر میں ذکر کررہے تھے۔

آج ہندوستان اور پاکستان کی اکثریت کی سوچ جس سطح پر پہنچ گئی ہے، اس میں دونوں ملکوں کے درمیان اتحاد کی امید کرنا بے معنی ہوگا۔ حالانکہ ڈاکٹر لوہیا اور دین دیال اپادھیائے کو اخیر تک امید تھی کہ اس بناوٹی تقسیم کی غلطی کو ایک نہ ایک دن پاکستان کے لوگ سمجھیں گے، لوہیا سے ایک ملاقات کے دوران دین دیال اپادھیائے نے کہا تھا کہ ایک دن ایسا آئے گا جب پاکستان کے اکثر مسلمان اس بات کو سمجھیں گے کہ انہوں نے علاحدہ ہوکر اپنا ہی نقصان کیا ہے۔ ایسی صورتحال جب پیدا ہوگی تو پوری امید ہوگی کہ ہندوستان اور پاکستان مل کر ایک وفاقی ڈھانچہ تشکیل دیں۔

اسی سوچ کی بنیاد پر ۱۲ اپریل ۱۹۶۴ کو لوہیا اور دین دیال اپادھیائے نے تاریخی بیان جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کو ایک نہ ایک دن احساس ہوگا کہ تقسم ہندوستان اورپاکستان کے نہ تو ہندوئوں اور نہ ہی مسلمانوں کےلیے اچھا رہا ہے اور نتائج کے طو رپر دونوں ملک ہند۔پاک وفاق کےلیے ذہنی طور پر تیار ہوں گے۔ برلن کی طرح ہندوستان اورپاکستان کے درمیان کی دیوار گر جائے تو دونوں طرف کے لوگوں کےلیے اس سے اچھی کوئی بات نہیں ہوسکتی۔ یاد کیاجاسکتا ہے کہ مشرقی جرمنی کے لوگ چاہتے تھے کہ وہ دیوار ٹوٹ جائے۔ عوامی جمہوریہ جرمنی کے فوجیوں کی گولیوں سے قطع نظر آئے دن مشرقی جرمن کے شہری دیوار کو پھلانگنے کی کوشش کرتے رہے۔ ان کا درد مغربی جرمنی کے اس وقت کے چانسلر ہیلمٹ کول نے سمجھا اور دیوار کو توڑنے کےلیے مہم چھیڑ دی۔ اس سلسلے میں وہ اس وقت کے امریکی صدر رونالڈ ریگن اور سویت صدر گورباچورے کے سامنے حاضر ہوئے ۔ یوروپ کے دوسرے ملکوں کو اس کےلیے تیار کرنے کی کوشش میں مغربی جرمن صدر کو بے عزتی تک برداشت کرنی پڑی ، تمام دشمنی کو پس پشت ڈالتے ہوئے انہوں نے مشرقی جرمن کے کمیونسٹ صدر ایرس ہونکر سے بھی بات کی۔

اس زاویے سے دیکھیں تو ہندوستان پاکستان کے درمیان کم سے کم ویسے برے حالات نہیں ہیں؛ لیکن دونوں ملکوں کے بیچ ایک تقسیم ایسی ہے جو پوری طرح غیر قانونی ہے۔ کشمیر کا ایک حصہ پاکستان کے قبضے میں ہے ، گلگت اور بلوچستان میں آئے دن ہند موافق نعرے لگ رہے ہیں، ہندوستانی حکومت پارلیمنٹ اور باہر ان دنوں باربار دہرارہی ہے کہ پاک مقبوضہ کشمیر بھی ہندوستان کا حصہ ہوگا۔ تو کیا وزیر اعظم پاک مقبوضہ کشمیر کی دیوار توڑنے کی تیاری میں ہیں؟ اگرہم وزیر اعظم کے عملی تاریخ کو دیکھیں تو یہ امکان سرے سے خارج کرنے کے لائق نہیں لگتا ہے۔

Comments are closed.