رام جنم بھومی بابری مسجد کا سچ

شکیل رشید
(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز/سرپرست ایڈیٹر بصیرت آن لائن )
فیض آباد کے بزرگ ہندی صحافی، اخبار’ جن مورچہ‘ کے مدیر اعلیٰ شیتلا سنگھ کی اس کتاب کے آخری صفحات ۹ نومبر کو اس وقت ختم کئے جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گگوئی بابری مسجد کی زمین رام مندر کے لئے سونپنے کا فیصلہ سنارہے تھے ۔میں نہیں جانتا کہ شیتلا سنگھ نے جب عدالتی فیصلہ سناہوگا تو ان کا ردّعمل کیا رہا ہوگا پر قیاس کرسکتا ہوں کہ انہیں بھی اس فیصلے پر اسی قدر افسوس ہوا ہوگا جس قدر افسوس ان سب کو ہوا ہے جو ایودھیا کے مندر ؍ مسجد تنازعے کو خوش اسلوبی ، بھائی چارہ اور باہمی یگانگت سے سلجھانے کے لئے کوشاں تھے ،جیسے کہ خود شیتلا سنگھ ۔ شیتلا سنگھ ایودھیا تنازعے کے حل کے لئے گذشتہ تین چار دہائیوں سے سرگرم افراد میں سے ایک ہیں۔ ان کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ آج بھی’’ بابری مسجد رام جنم بھومی وواد (تنازعہ) سمادھان (حل) سمیتی‘‘ کے کنوینر اور ’’رامائن میلاسمیتی ایودھیا‘‘ کے جنرل سکریٹری ہیں ۔ ایک صحافی، فیض آباد کے شہری اور مذکورہ کمیٹیوں کے اہم ذمے دار کی حیثیت سے انہوں نے وہ سب دیکھا اور سنا ہے جو عام ہندوستانی شہریوں کی پہنچ سے باہر رہا ہے ۔ کانگریس کا ’ غیر سیکولر چہرہ‘ آر ایس ایس کی فرقہ پرستی کا عروج، اور مسجد اور مندر کے نام پر ’ سودے بازی‘ ۔۔۔ اور اپنی اس کتاب میں انہوں نے سارے حقائق پیش کرکے گذشتہ تین سے چار دہائیوں سے مسجد ؍ مندر کے نام پر کھیلے جارہے گھناؤنے کھیل کے سارے کرداروں کے چہروں کو بے نقاب کرنے کے ساتھ اس سچ کو بھی اجاگر کیا ہے کہ ایودھیا کے شہری ، سادھو اور سنت بابری مسجد کا انہدام نہیں چاہتے تھے ۔
کتاب چھ ابواب میں منقسم ہے ۔ پہلا باب ’ بھئے پرگٹ گوپالا‘ کے عنوان سے ہے ۔ یہ باب ’بھگوائیوں‘ کے اس ’جھوٹ‘ کو کہ بابری مسجد کے صحن میں ۲۳۔۲۲؍ستمبر ۱۹۴۹ء کی درمیانی شب بھگوان رام پرکٹ (ظاہر) ہوئے تھے ، ایمانداری کے ساتھ رد کرتا ہے ۔ شیتلا سنگھ تحریر کرتے ہیں کہ :’’کانسٹبل نمبر۷ (ماتاپرساد) نے تھانہ اجودھیا ضلع فیض آباد میں جو تفصیلات سب انسپکٹر رام دیو دوبے تھانہ انچارج کو بتائیں اور جسے ہیڈمحرر پرمیشورسنگھ نے لکھ کر تصدیق کی ، ان کے مطابق ۲۳۔۲۲ دسمبر کی رات میں فسادیوں کی ایک بھیڑ نے بابری مسجد میں گھس کر مسجد کو ناپاک کرتے ہوئے وہاں رام للا کی مورتی رکھ دی تھی۔ کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ دفعہ ۴۸۷،۲۹۵ اور ۱۴۷ تعزیرات ہند ( انڈین پینل کوڈ) کے تحت درج یہ مقدمہ آئندہ ۷۰ برسوں تک حکومت ہند کو اذیت دے گا اور بھارتی آئین میں نہاں سیکولرزم جیسی اقدار کے لئے خطرہ بنا رہے گا ۔ ‘‘ شیتلاسنگھ ان ’ دیومالائی کہانیوں‘ کا بھی ذکر کرتے ہیں جو بھگوان رام کے پرکٹ ہونے سے متعلق ہیں ۔ایک کہانی یہ بُنی گئی کہ مورتی کے پرکٹ ہونے کا نظارہ ایک مسلم کانسٹبل نے دیکھا تھا لیکن جب تحقیقات کی گئی توپتہ چلا کہ وہاں بھیجے گئے پولس والوں میںکوئی مسلم کانسٹبل تھا ہی نہیں ! ابوالبرکات نام کا ہیڈ کانسٹبل تھا اور پولس مینول کے مطابق ہیڈ کانسٹبل ’گارڈ کا کمانڈر ہوتا ہے اور کوئی کمانڈر ، سنتری کی ڈیوٹی پر نہیں رہتا‘۔ شیتلا سنگھ نے تمام شواہد اورحقائق کی بنیاد پر یہ نتیجہ نکالا ہے کہ :’’تمام دستیاب حقائق اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ مورتی رکھے جانے کے بعد اگلے ۲۴ گھنٹوں تک اجودھیا میں نہ تو بہت زیادہ کشیدگی تھی اور نہ ہی مسجد کے آس پاس اتنی بھیڑ تھی کہ اگر انتظامیہ دل سے چاہتی تو مورتیاں نہ ہٹاپاتی ۔‘‘ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ پولس اور انتظامیہ مورتیاں ہٹانا نہیں چاہتی تھی۔ شیتلا سنگھ نے مزید ایک ایسی بات لکھی ہے جو شایدبابری مسجد زمین کے تعلق سے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کا ’جواز‘ بنی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں:’’ مقدمے کے فریقوں میں سرکار بنام جنم بھومی (بابری مسجد) لکھا گیا یعنی کاغذات میں مسجد کے بجائے اس مقام کو مندر کی شکل دینے کی ابتدا اسی زمانے میں ہوگئی تھی۔‘‘ وہ بتاتے ہیں کہ چارج شیٹ سے اس حقیقت کو غائب کردیا گیا کہ ’’ بھیڑ نے بابری مسجد کے کمپاؤنڈ میںلگے تالوں کو توڑ کر نیز سیڑھی کے ذریعے دیوار کود کر مسجد کے اندر گھس کر شری رام کی مورتی ر کھ دی اور دیواروں پر اندروباہر سیتارام جی وغیرہ گیروے وپیلے رنگ سے لکھ دیا ۔‘‘ چارج شیٹ کی عبارت بدل کر لکھا گیا :’’ ملزموں نے پرانا مندر سمجھ کر اس میں مورتی رکھ دی۔‘‘ اس عبارت کے نتیجے میں مقدمے کی نوعیت ہی بدل گئی۔ ۲۳۔۲۲ دسمبر ۱۹۴۹ء کی شب بابری مسجد میں مورتی رکھی گئی اور ۲۹؍دسمبر کو بابری مسجد کو قرق کرلیا گیا ۔ اور اس میں مورتی کے بھوگ( کھانے) ، راگ (گانے) آرتی اور انتظامات کے لئےبابوپریادت کا تقرر کردگیا گیا ۔ اس کے بعد اس مقام پر مسلمانوں کے آنے جانے پر بھی پابندی لگادی تھی۔
شیتلاسنگھ نے ایودھیا تنازعے میں کانگریس کے متعصبانہ چہرے کو مکمل طور پر اجاگر کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں :’’فیض آباد انتخابی حلقے میں ۱۹۴۸ء میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں بھی مندر کا مسئلہ کانگریس کی مقامی قیادت نے خاص طور پر اٹھایا۔‘‘ آچاریہ نریندر دیو نے سوشلسٹ پارٹی کے امیدوار کی حیثیت سے الیکشن کے لئے پرچۂ نامزدگی داخل کیا تھا، وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی رائے تھی کہ کانگریس اچاریہ جی کے خلاف امیدوار نہ کھڑا کرے مگر کانگریس کے پالیسی سازوں ، جن میں پنڈت گووند ولبھ پنت پیش پیش تھے اور ان کے معاون لال بہادر شاستری نے ، بابا راگھوداس نامی سادھو کو کانگریسی امیدوار کے طور پر میدان میں اتارا ۔ اس وقت اجودھیا کے الیکشن میں جو بینر اور پوسٹر لگے ان میں اچاریہ جی اور بابارگھوداس کی انتخابی جنگ کو’رام ۔ راون کی جنگ‘ قرار دیاگیا ۔ اچاریہ جی کو ’ناستک‘ کہا گیا ۔ پنڈت گوبند ولبھ پنت نے اس وقت اپنی تقریر میں مسئلہ کشمیر ،کو بھی اٹھایا تھا اور حیدر آباد کا بھی ذکر کیا تھا ، انہوں نے فارسی رسم الخط کی بھی مخالفت کی تھی ۔اور آج جو بات ملک کے وزیر داخلہ امیت شاہ کہہ رہے ہیں اس وقت کانگریسی قائد پرشوتم داس ٹنڈن نے کہی تھی کہ ملک کی ’ ایک بھاشا اور ایک سنسکرتی‘ ہوگی ۔۔۔ انتخابی مہم کے دوران ’ اجودھیا کی عزت بچاؤ‘ کے نعرے والی ٹوپیاں بھی بنی تھیں اور یوپی کا نام ’ آریہ ورت‘ طے کیا گیا تھا۔ ایک جلسہ میں کہا گیا تھا کہ ’’ترکوں نے رام مندر گراکر مسجد بنادی ہمیں وہ مندر واپس چاہیئے ۔‘‘
شیتلا سنگھ لکھتے ہیں کہ :’’جواہر لال نہرو ملک کے وزیراعظم ضرور تھے مگر ریاستوں میں موجود اس وقت کی قیادت کافی مضبوط تھی۔ وزیراعظم (پنڈت نہرو) کے ذریعے باربار لکھے جانے (کہ مسجد سے مورتی ہٹائی جائے ) کے باوجود پنت جی نے ایسا کچھ نہیں کیا ، وہ اس فکر کے حامی تھی کہ اگر کانگریس سرکار مسجد میں رکھی ہوئی مورتیوں کو ہٹائے گی تو اکثریتی ہندو طبقہ اس سے ناراض ہوگا اور انتخابی سیاست میں کانگریس کو اس سے نقصان پہنچے گا ۔‘‘ آج کی کانگریس پنت کی فکر پر ہی چلتی نظر آرہی ہے ۔ شیتلا سنگھ نے آگے ایودھیا تنازعے میں اندرا گاندھی ، راجیوگاندھی ،بوٹا سنگھ اور ویربہادر ،ملائم سنگھ یادو، چندر شیکھر، اشوک سنگھل ، آر ایس ایس سرسنگھ چالک بالا صاحب دیورس وغیرہ کے کردار پر بھی روشنی ڈالی ہے ۔ وہ بتاتے ہیں کہ وشوہندوپریشد ۲۳؍ مارچ ۱۹۸۳ء تک ’ایودھیا تنازعے‘ سے پوری طرح بے خبر تھی پر مذکورہ تاریخ کو ایک ’ ہندو سمیلن‘ میں کٹرّ‘ کانگریسی داؤدیال کھنّہ نے رام جنم بھومی اجودھیا، کرشن جنم بھومی متھرا اور کاشی وشوناتھ مندر کو آزاد کرانے کا مطالبہ کیا ، اس کے بعد وی ایچ پی متحرک ہوئی اور ایودھیا تنازعے نے افسوسناک صورت اختیار کرلی ۔ کھنّہ اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی سے بھی ملے تھے ۔ شیتلا سنگھ ایک دلچسپ انکشاف کرتے ہیں کہ :’’ پرم ہنس راج نے ایک روزباتوں ہی باتوں میں کہا کہ جب وی ایچ پی کا نمائندہ وفد ملنے گیا تھا تب اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ’’ جمہوریت میں بغیر تحریک کے کوئی فیصلہ نہیں ہوسکتا ۔‘‘ اس لئے ہم لوگوں نے اس سلسلے میں تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے ، اندراجی نے ہم لوگوں سے نومبر ۱۹۸۴ء میں پھر ملاقات کے لئے کہا ہے ۔‘‘ راجیوگاندھی کا ذکر کرتے ہوئے شیتلا سنگھ لکھتے ہیں کہ پہلے تو انہوں نے یوپی کے وزیراعلیٰ ویربہادر سنگھ کے ذریعے، مسلمانوں کو ناراض کئے بغیر، رام مندر کی تعمیر کا منصوبہ بنایا اور ویربہادر سنگھ جب وزیراعلیٰ کے عہدے سے ہٹائے گئے تو’ ’مرکزی وزیر داخلہ بوٹا سنگھ اور یوپی کے اس وقت کےوزیراعلیٰ نارائن دت تیواری نے وی ایچ پی کے لیڈروں سے رابطہ کرکے ایک سمجھوتہ کیا ۔ اس سمجھوتے کو حکومت اپنی جیت مان رہی تھی جبکہ وی ایچ پی اسے اپنی جیت سمجھ رہی تھی ، اس کے نتیجے میں وی ایچ پی کے حوصلے اور بھی بڑھ گئے کیونکہ سرکار نے مجبور ہوکر شیلا نیاس کرانے کی اجازت دے دی تھی اور یوں شیلانیاس کرانے اور اینٹوں کو ایودھیا پہنچانے کا کام سرکاری طور پر انجام پایا ۔‘‘ یہ وہ عمل تھا جس نے آر ایس ایس اور وی ایچ پی کو طاقت بخشی اور ۶؍دسمبر ۱۹۹۲ء کو بابری مسجد شہید ہوئی۔ وہ بتاتے ہیں کہ آر ایس ایس سربراہ دیورس نے اس معاملے میں کبھی بھی ’مفاہمت‘ پسند نہیں کی ۔ شیتلاسنگھ کے مطابق پرم ہنس جی ، نرتیہ گوپال داس اور ان کے تمام بھکتوں کا یہ ماننا تھا کہ ’’تنازعہ اور لڑائی جھگڑا اچھی چیز نہیں ہے اسے تو ختم ہونا ہی چاہیئے ‘‘۔ لیکن ’سیاست‘ نے ایودھیا کے شہریوں ، سادھو سنتوں اور شیتلا سنگھ جیسے سیکولر ذہن افراد کی کوششوں پر پانی پھیر دیا ۔ وہ لکھتے ہیں کہ :’’کانگریس کے ممبران پارلیمنٹ وممبران اسمبلی نے رام مندر کی تحریک کے حامی بن کر باقاعدہ بی جے پی میں شامل ہوکر الیکشن لڑا اور رام لہر میں کامیاب بھی ہوئے ۔ اب تو کانگریس کے لیڈر ہی یہ کہنے لگے ہیں کہ جن کی وزارت عظمیٰ کے دور میں مسجد منہدم ہوئی وہ سیکولرزم کے تئیں نہیں بلکہ ہندتو کے تئیں عزم وعہد کے پابند تھے ۔ ‘ ‘ یہ کتاب جہاں چیف جسٹس رنجن گگوئی کی کہی ہوئی اس بات پر مہر تصدیق لگاتی ہے کہ بابری مسجد کسی مندر کو منہدم کرکے نہیں بنائی گئی وہیں وہ ان کی اس بات پر کہ بابری مسجد کے نیچے سے ہندو تعمیر برآمد ہوئی ہے ، سوال بھی کھڑا کرتی ہے ۔۔۔ شیتلا سنگھ لکھتے ہیں کہ :’’حفاظتی دیوار کے نام پر رام دیوار اور محکمۂ سیروسیاحت کے ذریعے جے سی پی اور ٹریکٹر سے دس فٹ گہرا گڑھا بابری مسجد کے سامنے کھودا گیا اور اسے ہموار کیا گیا ، ہموار کرنے کے اسی عمل میں بہت سی مورتیاں اور پتھروں کے نقش والے ٹکڑے دکھائے گئے جو اجودھیا میں اور کہیں نہیں ملتے ہیں۔‘‘ سوال ہے کہ یہ مورتیاں اور پتھروں کے نقش کیاکہیں اورسے لاکر ڈالے گئے تھے تاکہ رام مندر کے ایجنڈے کو کامیاب کیا جاسکے ؟ اب شاید اس سوال کا جواب نہ مل سکے ۔ شیتلا سنگھ کی یہ کتاب ایودھیا تنازعے کے ہر پہلو کا احاطہ کرتی ہے ، فرقہ پرستی کے عروج اور اس کے عروج میں کانگریس کے کردار کو اجاگر کرتی ہے اور ۶؍دسمبر ۱۹۹۲ء کو بابری مسجد کی شہادت کی مکمل تفصیلات اور اڈوانی ، اومابھارتی اینڈ کمپنی کے ہر ’قصور‘ کو ہم تک پہنچادیتی ہے۔۔ ۔ یہ کتاب پڑھنی چاہئے ، سب کو پڑھنی چاہئے تاکہ وہ رام جنم بھومی بابری مسجد کا ’سچ‘ جان سکیں ۔۔۔۔ ڈاکٹر ظفرالاسلام کے ادارے ’ فاروس میڈیا‘ نے یہ کتاب ہندی سے اردو میں ترجمہ کروائی ہے ، اس کے لئے ان کا شکریہ ضروری ہے ۔۔۔ آخر میں قارئین شیتلاسنگھ کے یہ جملے بھی پڑھ لیں:’’اس تنازعے کا تعلق شروع سے ہی پولس اور انتظامیہ کے افسران کے رول سے بھی وابستہ رہا ہے ۔ مورتی رکھے جانے کے وقت سے لے کر مسجد کے انہدام تک افسروں کے رول کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔‘‘
Comments are closed.