بابری مسجد فیصلے کے بعد ہماری حکمت عملی کیا ہو؟

 

مولانا محمد قمرالزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

 

9 / نومبر 2019 کو بابری مسجد کا فیصلہ جس طرح آیا اور سپریم کورٹ کی پانچ رکنی پنچ نے جو فیصلہ سنایا ۔ خود بہت سے قانون کے ماہرین کے لئے ایک عجوبہ ہے ،بہت سے برادران وطن نے اس فیصلہ پر بے اطمینانی کا اظہار کیا ہے،اور جمہوری قدروں کے پاس دار محب وطن کو بھی اس فیصلہ نے حیرت میں ڈال دیا ہے جبکہ مسلمانوں کے دل اس غیر متوقع اور مایوس کن فیصلہ سے مغموم اور صدمہ انگیز ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود اس موقع پر *ملت اسلامیہ ہندیہ* نے *عدالت عالیہ* کا احترام کیا اور جس صبر و تحمل اور برداشت کا ثبوت دیا وہ ان کی امن پسندی قانون کے احترام ملک کے تئیں پریم و محبت اور صبر و دانشمندی کی بہترین مثال ہے ۔ ہندوستانی مسلمانوں نے پوری دنیا کو یہ آئینہ دکھایا ہے کہ مسلمان امن و سلامتی پریم و ایکتا اور محبت و شانتی کے داعی اور علمبردار ہیں ۔ مسلمان ہمت شکن حالات میں بھی خدا کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے ہمت نہیں ہارتے اور حوصلہ نہیں کھوتے ۔ کیونکہ وہ اس قرآنی پیغام کو سامنے رکھتے ہیں کہ شکست خوردہ نہ ہو اور غم نہ کرو تمہیں سربلند رہو گے اگر سچے مومن بنے رہوگے۔

وہ اقبال مرحوم کے اس کلام حق سامنے رکھتے ہیں کہ :

تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے

نشئہ مئے کو تعلق نہیں پیمانے سے

ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

کشتئ حق کا زمانے میں سہارا تو ہے

عصر نو رات ہے ،دھندلا سا ستارا تو ہے

 

اس وقت عالمی میڈیا اور خاص طور پر ہندوستانی ذرائع ابلاغ کی منافقت یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے بارے میں منفی تجزیہ کرتے ہیں وہ(میڈیا کے لوگ) مسلمانوں کے بارے میں یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ بہت مشتعل مزاج اور بے برداشت قوم ہیں اپنے مزاج کے خلاف ہونے والے معمولی واقعات پر لڑائی پر آمادہ ہوجاتے ہیں اور سڑکوں پر نکل آتے ہیں وہ ہمیشہ رائ کو پہاڑ بناتے ہیں مسلمانوں پر ہوئے مظالم کو نظر انداز کردیتے ہیں ۔ لیکن اگر مسلمانوں کی طرف سے کبھی کوئی رد عمل سامنے آجائے تو اسے خوب پھیلاتے اور نمایاں کرتے ہیں ۔ ۹/ نومبر کو فیصلہ آنے کے بعد مسلمانوں نے مسلم پرسنل لا بورڈ جمعیت علمائے ہند اور بعض دیگر مذھبی قائدین کی ہدایت اور تلقین پر صبر و ضبط اور تحمل و برداشت کا جو مظاہرہ کیا اور حکومت و عدلیہ کا احترام کیا اور ان کا ساتھ دیا اس نے ان لوگوں کی زبان بند کر دی اور ان کے منصوبوں کا ناکام کردیا جو مسلمانوں سے اس طرح کا رد عمل چاہتے ہیں ۔

مسلمان صبر و استقامت کا مظاہرہ کیوں نہیں کرتے قرآن مجید میں ان کو ایسی ہی رہنمائی کی گئی ہے کہ جب وہ مصیبتوں اور آزمائشوں میں گھرے ہوں تو اس وقت وہ دو عمل کریں ۔ رجوع الی اللہ اور صبر و تحمل ۔ یہ بات بھی واضح ہو جائے کہ صبر بزدلی نہیں بلکہ بہادری ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

لیس الشدید بالصرعہ، انما الشدید الذی یملک نفسہ عند الغضب ۔ (صحیح بخاری کتاب الادب) ۔ پہلوان وہ نہیں جو دوسرے کو پٹھک دے بلکہ اصل بہادر وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھے ۔

بعض نوجوان جن کی اس حدیث پر اور اسلام کی اس تعلیم پر نظر نہیں ہوتی وہ فورا تبصرہ کرنے لگتے ہیں کہ ہمارے قائدین کب تک صبر کا گھونٹ اور شربت پلاتے رہیں گے ۔وہ علماء اور قائدین امت کو کوستے اور برا بھلا کہنے لگتے ہیں ۔ ان کو سمجھنا چاہیے کہ صبر شکت اور ہار نہیں ہے بلکہ صبر تدبیر ہے ۔ صبر مشکل راستہ، کٹھن منزل اور پیچیدہ معاملہ سے آسانی سے نکلنے کا راستہ ہے ۔ کیوں کہ جب آدمی صبر کرتا ہے اپنے جذبات پر قابو رکھتا ہے اور ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچتا ہے تو وہ دشمن کے عزائم ان کے ان کے منصوبے ان کے ارادے اور ان کی چال کا ادارک کرلیتا ہے مزید آزمائشوں سے اپنے کو بچا لیتا ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی صبر و تحمل سے معمور ملتی ہے آپ نے صرف مکی زندگی میں ہی صبر نہیں کیا بلکہ مدنی زندگی میں بھی آپ نے صبر و استقامت اور برداشت سے کام لیا ۔ اگر جنگ بدر اسلام میں اور مسلمانوں کے لئے ٹرنگ پوائنٹ ہے اور حق و باطل کے درمیان فیصل و فرقان ہے تو صلح حدیبیہ اسلام کے دائرے کی وسعت و پھیلاؤ کا سب سے بڑا ذریعہ ثابت ہوا ہے ۔ سن ۶/ ہجری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم *حدیبیہ* کے مقام پر مکہ مشرکین سے صلح فرمائ جنھوں نے آپ کو اور آپ کے صحابہ کو عمرہ اور طواف سے روک دیا اس صلح کی جو دفعات تھیں وہ بظاہر مسلمانوں کی کمزوری ظاہر کرتی تھیں (تفصیل اس کی یہاں ممکن نہیں ) صحابہ کرام رضی اللہ میں ایسا جوش اور غیرت تھی کہ وہ بآسانی ان شرائط اور دفعات کو ماننے کے لیے آمادہ نہ تھے بلکہ جنگ کرنے اور مرنے مارنے پر تیار تھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو سوال کرنے لگے کیا آپ نبی برحق نہیں؟کیا ہم حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو قائل کیا ان کو سمجھایا کہ یہ خدائ حکم و اشارہ ہے اس میں مسلمانوں کا ہی بھلا ہے ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحکم خداوندی اس صلح کو منظور فرمایا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ظاہری جذبات کی بالکل پرواہ نہیں فرمائی ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بعد میں یہی صلح فتح مکہ اور فتح مبین کا سبب بن گئ ۔ اور قرآن نے اس صلح کو فتح مبین سے تعبیر کیا ۔

صلح حدیبیہ بہترین حکمت عملی کی روشن مثال ہے اس صلح سے اسلام کی اشاعت میں زبردست مدد ملی ۔ مسلمانوں کی جو طاقت اب تک مشرکین پر جنگ پر صرف ہو رہی تھی وہ پورے عرب میں اور آس پاس ملکوں میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت پر صرف ہونے لگی ۔ آس پاس کے قبیلے اس صلح کے بعد اسلام اور مسلمانوں سے قریب ہونے لگے اور اسلام کی اچھائیاں ان کی نظروں میں سمانے لگی ۔ اور پھر ایسی فضا بنی کہ صرف دو سال میں مکہ فتح ہوگیا ۔ ہم مسلمانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ہمارے سامنے امن و امان اور سلامتی و عافیت کا جو موقع ہے اور جب جب بھی یہ موقع ملے ہم اس کو صلح حدیبیہ کا موقع سمجھیں اور اس موقع کو فرصت اور غنیمت جانیں اور اس سے فائدہ اٹھا کر اسلام کی تبلیغ کریں اس کی اشاعت کے راستے ہموار کریں اسلام کے قانون اخلاق اور قانون عدل میں جو حکمت اور خوبیاں ہیں اور جو انسانیت کے لئے سلامتی ہے اس سے لوگوں کو روشناس کرائیں خود اسلام کا نمونہ بن کر اسلامی اخلاق سے لیث ہوکر پوری دنیا کے لوگوں کو یہ پیغام دیں کہ تمہاری اور ہماری سلامتی نجات اور کامیابی اسی دین حق میں ہے ۔

موجودہ حالات میں ہماری حکمت عملی کیا ہو؟ اس عنوان کے تحت جو سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے جن صورتوں کی نشاندہی کی گئ اور جو نمونے پیش کئے گئے ان میں *صلح حدیبیہ* کو بھی ہم شامل کریں اور عالمی صوبائی اور علاقائی سطح پر اگر اس طرح کے صلح کا موقع آئے تو ہم اس میں پیچھے نہ رہیں ۔

موجودہ حالات میں ہماری حکمت عملی کا ایک حصہ یہ بھی ہو کہ ہم اپنے مال کے ذریعہ لوگوں کی بغیر کسی فرق کے مدد کریں ۔ وقت اور حالات آنے پر غیر مسلموں کا تالیف قلب بھی کریں ۔ اس سے بھی ماحول خوشگوار ہوگا اور امن و امان کی صورتحال قائم ہوگی ۔ غزوئہ حنین میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی تالیف قلب فرمایا تھا اور نئے اسلام لانے والوں کو غزوئہ حنین میں حاصل ہونے والی غنیمت حوالے کردیا تاکہ وہ اسلام پر مضبوطی سے قائم رہیں ۔ ہم اپنے مال و دولت خرچ کرکے ظلم و نفرت کے ماحول کو ختم کرسکتے ہیں اور فضا و ماحول خوشگوار بنا سکتے ہیں ۔ ظالموں کو ظلم سے روکنے کی یہ بھی ایک تدبیر ہے لیکن کیا اس کے لئے زکوة کا ایک مد جو تالیف قلب ہے اس کو استعمال سکتے ہیں؟یا نہیں؟ اس کا جواب ہم اہل علم اور ارباب افتاء سے معلوم کرلیں ۔

ایک اور تدبیر اور حکمت عملی ہم یہ اپنائیں کہ برادران وطن میں سے باشعور سنجیدہ اور امن پسند لوگ جن کی الحمد للہ اکثریت ہے ہم ان سے مذاکرات کریں ملک و قوم کی سالمیت کے حوالے سے ان سے برابر تبادلہ خیال کیا کریں ۔ ان کو ساتھ لے کر سماجی کاموں اور شوشل ورکس میں ہم آگے بڑھیں اور انسانیت اور مانوتا کی خدمت کریں ۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی میں خدمت خلق اور سماجی ورک کا پہلو غالب ہے ۔ جو کسی سے مخفی اور پوشیدہ نہیں ہے ۔

Comments are closed.