‘حقِ حصولِ عدل’ ہم مسلمانانِ ہند کا انسانی اور جمہوری حق

نقاش نائطی

+966504960485

19 نومبر 2019 جب پورا ہندستان ملک کی سب سے عدلیہ عالیہ کے فیصلے کا بڑی بے چینی سے انتظار کر رہا تھا آج 17 نومبر 2019 نہ صرف پوری امت مسلمہ ھند، بلکہ برادران ھند کی ایک کثیر تعداد بھی لکھنو منعقد مسلم پرسنل لاء بورڈ، ورکنگ کمیٹی کے آج کے فیصلے کا انتظار کررہی تھی۔ 9 نومبر 2019 عدلیہ اعلی کے تاریخی فیصلہ کے تناظر میں ہم نے، اپنی ناقص العقلی سے، عدلیہ کی طرف سے وسط شہر ایودھیا پانچ ایکڑ زمین کے مثبت استعمال کے سلسلے میں،مسلم پرسنل بورڈ کے سامنے جو آراء رکھی تھی، ذاتی نوعیت سے آج بھی ہم اپنی رائے کی افادیت پر قائم ہیں لیکن آپسی مشاورت میں اللہ رب العزت نے جو برکت رکھی ہوئی ہے اس کی افادیت سے ہم انکار کسی بھی طور نہیں کرسکتے۔آج 17 نومبر لکھنو منعقدہ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اپنے بالاتفاقیہ فیصلے میں، 9 نومبر عدالت عالیہ کے سنائے گئے، تاریخی مگر ایک طرفہ فیصلے کے نقائص کو سامنے رکھتے ہوئے، دستور ھند میں تفویض ‘حق حصول انصاف’ کے تقاضے کے تحت، نظر ثانی عرضداشت ( ریویو پیٹیشن) وقت رہتے دیش کی عدالت عالیہ میں پیش کرنے کے فیصلہ کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں۔ عام ہندستانی شہری ہونے کے ناطے، ہر کسی کو آخری مراحل تک انصاف کی جستجو میں اپنی سعی جاری رکھنے کا حق حاصل ہے۔ سابق چیف جسٹس کے قول مطابق دیش کی عدلیہ عالیہ حتمی اور آخری ضرور ہے مگر نقائص سے پاک بالکل نہیں۔ بشری تقاضوں کے اعتبار سے فاضل جج صاحبان سے بھی فیصلہ سنانے میں غلطیاں ہوسکتی ہیں اور ان کی دانستہ کہ نادانستہ یا کہ کسی بھی مجبوری یا دباؤ میں لئے گئے فیصلے میں موجود کچھ نقائص سے، دیش کی عدالت عالیہ کا وقار مجروح ہوتا ہے تو وقت رہتے، قانون ہی کی رو سے دی ہوئی نظر ثانی عرضداشت سے، ان غلطیوں اور کمیوں کو سدھارتے ہوئے، ہزاروں سالہ گنگا جمنی تہذیبی ملک چمنستان ہندستان کی سبھیتا اور 70 سالہ آزاد ہندستان کی عدلیہ کے وقار ، گریما کو قائم رکھنے کی کوشش،آخری لمحات تک کی جانی چاہئیے۔ 9 نومبر 2019 عدالت عالیہ کا سنایا گیا فیصلہ، بھلے ہے آخری فیصلہ تھا لیکن انصاف کے تقاضوں کے منافی فیصلہ تھا۔ اب نظر ثانی عرضداشت کے بعد بھی ہم مسلمانوں کو انصاف نہیں ملتا نہ صحیح،ہمیں اس سنگھی برہمنیت زدہ سیاسی دباؤ والے ماحول میں انصاف نہیں ملیگا یہ قبل از وقت سوچتے ہوئے، انصاف مانگنے سے احتراز کرنا، ہماری نااہلی،کمزوری کے مترادف عمل ٹہرایا جا سکتا ہے۔تاریخ شاھد ہے، اپنے ہم وطنوں کو انصاف سے محروم کرنے والے،ظالم جابر حکمرانوں کو بھی وہ رب دو جہاں، عبرت کے مقام سے دوچار کروا دیا کرتے ہیں۔ 1528 میں تعمیر عالی شان بابری مسجد اور اس سے متصل مسلمانوں کے عام قبرستان اور اس کے درمیان موجود لمبے چوڑے صحن پر مشتمل 67 ایکڑ منجملہ زمین، مسجد والی ڈھائی تین ایکڑ زمین پر تنازع تھا جس پر آلہ باد ہائی کورٹ فیصلہ سناتے ہوئے اس متنازع قضیے زمین کے تین فریق سنی وقف بورڈ، نرموہی اکھاڑہ اور رام للہ کے درمیان برابر تقسیم کردی گئی تھی۔ 1992 ہندو شدت پسند بلوائیوں کے ہاتھوں بابری مسجد مسمار کئےجانے کے بعد، اس وقت مرکز پر حکومت کررہی کانگریس حکومت کے وزیر اعظم شری نرسمہا راؤ،نے بابری مسجد ڈھا دئیے جانے پر،اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے، دوبارہ بابری مسجد تعمیر کرنے کے وعدے کے ساتھ، بابری مسجد سے متصل صحن اور قبرستان کی 67 ایکڑ زمین حکومتی تحویل میں لی تھی اس پر عدالت عالیہ کا کیا فیصلہ آیا ہے یا آنا باقی ہے اس پر مسلمانان بند کو باخبر کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ 67 ایکڑ مسلمانوں کی زمین، جو حکومت نے اس وقت اپنے قبضہ میں لی تھی کیا اسے واپس حاصل کرنے کی جستجو نہیں کی جانی چاہیے؟ عدالت عالیہ، کیا فیصلہ سناتی ہے اس سے پرے ہمیں دستوری اعتبار سے حاصل، حق حصول انصاف کے تقاضے کے تحت انصاف طلب کرنا یا سابقہ سنائے گئے فیصلے کے نقائص کے پیش نظر، اپنے نظر ثانی فیصلے سے عدلیہ کا وقار اور گریما بحال کروانے کی کوشش کرنا نہ صرف ہم مسلمانوں کا، بلکہ اپنے آپ کو سیکیولرذہن کہنے والے برادران وطن کا بھی فرض عین ہے۔

آج 17 نومبر 2019 مسلمانوں کی عالمی دینی درسگاہ میں منعقد ہونے والی مسلم پرسنل لاء بورڈ کی ورکنک کمیٹی نشست کو، آخری مراحل میں ندوہ العلما میں منعقد کرنے سے باز رکھنے کے لئے، ریاستی انتظامیہ کی طرف سے جس طرح سے پریشان کیا گیا کہ، جس سے ذمہ داران مسلم پرسنل بورڈ کا موقع نششت، ندوہ العلما سے تبدیل کر کسی اور جگہ نشست جارہی رکھنے پر مجبور کیا گیا فیصلہ، جابر سنگھی حکمرانوں کے، مسلم اکثریتی طبقہ کے ساتھ، اس آزاد سیکیولر ذہنی چمنستان ہندوستان میں، سلوک ناروا اور دو نظریاتی تفکر کو بڑھاوا دیتا ،نظریہ لگتا ہے۔ ایسے تفکراتی نظریاتی بھید بھاؤ یا ٹکراؤ سے خائف ہونے کے بجائے، قانونی مشیروں سے مشورہ کرتے ہوئے، ایک لمبی قانونی جنگ لڑنے کی تیاری کرنی چاہئیے۔ خصوصا حربی داؤ پیچ ‘قانونی حملہ میں پہل، دفاع کا بہترین اور بروقت اوصول’ مصداق، مسلم قیادت کو سیکیولر ذہن برادران وطن سے، خصوصا پس ماندہ طبقات سے ہم آہنگ ہوکر،ان سنگھیوں کے حکومتی فیصلوں کو قریب سے دیکھتے ہوئے، انہیں قانونی شکنجوں میں کستے ہوئے، مد مخالف کو غیر ضروری معاملات میں الجھائے رکھنے کی دوررس نگاہی، ان ہی کی پالیسیز پر عمل پیرا رہتے، اپنی دفاعی پالیسیز وضع کی جانی چاہیے۔ خصوصا 2014 اور 2019 درمیان جتنے بھی ملکی و ریاستی انتخابات وقوع پذیر ہوئے ہیں ان میں متعدد پالیمانی و اسمبلی حلقوں سے بھاری اکثریت سے جیتنے والے مسلم یا سیکولر ذہن امیدواروں کا انتخاب ہار جانا اور ان کی جگہ پر ان سنگھیوں کے بھاری اکثریت سے جیت جاتے تناظر میں ، ای وی ایم چھیڑ چھاڑ جیت پر، برادران وطن خصوصا پس ماندہ طبقات کی طرف سے لڑی جانے والی لمبی قانونی جنگ میں، ہم مسلمانوں کا ساتھ وقت کی ضرورت بن جاتا ہے۔خصوصا سابق استاذ ندوہ، کے حالیہ باغیانہ قولی تیور، اور انکے حذب اختلاف کی صفوں میں سرگرم عملی اقدام کے پیش نظر، ریاستی انتظامیہ کے ندوہ پر آج رکھی ترچھی نظر کا جائزہ لینا بھی، وقت کی اہم ضرورت بن جاتا ہے۔

9 نومبر 2019 دیش کی عدالت عالیہ کے بابری مسجد رام مندر متوقع فیصلے سے قبل، دیش کی سب سے بڑی مسلم اقلیت کو، جس طرح سے ڈرایا اور خائف کیا گیا تھا، اس سے احتراز ضروری ہے۔دیش کی عدلیہ اعلی کے فیصلے حتمی ہیں، اس سے کسی کو اختلاف نہیں ہے،لیکن انسانی عدالتیں خامیوں سے مبرا نہیں ہوا کرتیں، یہ ایک مسلمہ حقیقت اور عام فہم ادراک ہے۔اس لئے مسلمانوں کو قانون و عدلیہ سے ڈرانے کے بجائے،قانون و عدلیہ کا دستورالعمل ہمیں تفویض، ‘حق حصول عدل’ کے پیش نظر، اپنے حق کا صحیح اور وقت کے حساب سے مناسب استعمال اور اس کی عزت و توقیریت کا خیال رکھنے کی تعلیم و تدریب دی جانی چاہئیے۔9 نومبر 2019 دیش کی عدلیہ اعلی کے فیصلہ آنے کے بعد، ہم خائف مسلمانوں سے پڑے ان گنت سیکیولر ذہن برادران وطن کے عدلیہ فیصلے کے خلاف آئے بیانات اور عکس بند میسیجز، دیش کی سائبر میڈیا میں بھرے پڑے ہیں۔ان میں سب سے پہلے ،عدلیہ فیصلے کے خلاف آیا بیان سابق چیف جسٹس گنگولی کی کا ہے۔ مسلمانوں کے قائدین کی قانونی صلاح کمیٹی کو چاہئیے کہ 9 نومبر دیش کی عدلیہ اعلی کے فیصلہ پر انگلی اٹھاتے آئے بیانات کو جمع کرتے ہوئے، اس میں کسی نکتہ یا مواد کو اپنے دفاع میں استعمال کرنے کی فکر بھی ہونی چاہیے۔

آخر میں ہم اعلان کرتے ہیں،کہ اپنے قایدین ملت، مسلم پرسنل لاء بورڈ ،جمیعت العلماء ھند اور سنی وقف بورڈ ذمہ داران ملت کے، مسلم امہ کے مفاد میں لئے گئے اجتماعی مشاورتی فیصلوں کے ساتھ ہم کل بھی تھے آج بھی ہیں اور انشاءاللہ مستقبل کے دیش کی عدلیہ عالیہ کے 9 نومبر فیصلے کے خلاف نظر ثانی عرضداشت کے، ان کے لئے فیصلے کے ساتھ رہیں گے۔ اور رب دو جہاں کے حضور دعا گو ہیں کہ وہ ہم مسلمانان ھند کو باہم ربط و اتفاق سے مل جل کر رہنے کی توفیق دے اور پوری استقامت کے ساتھ اپنے والیان مسلم امہ کے ساتھ، ان کی پشت پر ، ان کی طاقت بن کر کھڑا رہنے کی توفیق دے. وما علینا الا البلاغ

Comments are closed.