Baseerat Online News Portal

حضرت مولانا قاری سیدصدیق احمد صاحب باندوی رحمۃ اللہ علیہ اس صدی کی عہد آفریں شخصیت

 

مفتی محمد حذیفہ قاسمی بھیونڈی

 

خداوند قدوس نے اپنے دین کی حفاظت اور اسکی ارتقاء کیلئے ہر زمانے میں اپنے کچھ برگزیدہ بندوں پر نگاہ عنایت ڈالکر انکو اپنے دین کی خدمت کی سعادت سے بہرہ ور فرمایا ہمارے ملک ہندوستان کا انتہائی پچھڑا ہوا خطہ بندیل کھنڈ اور اسکا پسماندہ علاقہ ضلع باندہ آج سے ستر بہتر سال پہلے صوبہ یوپی کا وہ دور افتادہ اور پسماندہ خطہ تھا جہاں کے مسلمان اپنی معاشی کمزوری اور تعداد کی قلت کی بناء پر ارتداد کے دہانے پر کھڑے تھے اور دور دور تک انکی دینی رہبری کرنے والے علماء کرام نابود تھے اس بنجر خطے پر خداوند قدوس کی جب نگاہ کرم پڑی تو اسنے ضلع باندہ کے چھوٹے سے گاؤں ہتھورا نامی بستی میں وہاں کے ایک معزز سادات گھرانے میں محترم جناب سید احمد صاحب کے گھر 1923 عیسوی میں ایک ایسے ہونہار بچہ کو پیدا فرمایا جس نے بڑے ہوکر اس پورے خطہ میں ایک ایسا دینی انقلاب برپا کیا جسکے فیوض وبرکات دور دراز تک پھیلے جہالت کی گھٹا ٹوپ اندھیریوں کے بیچ علم وعرفان کی ایک ایسی شمع روشن ہوئی جس نے صرف ضلع باندہ ہی نہیں بلکہ ملک کے مختلف صوبوں اور بیرون ملک کے مختلف مقامات تک اپنے فیض کے نقوش ثبت کئے 1923عیسوی میں ہتھورا گاؤں میں پیدا ہونے والا یہ بچہ مستقبل میں ملک کی عہد ساز شخصیت کےروپ میں جانا اور پہچانا جاتا ہے، حضرت مولانا صدیق احمد صاحب کی پیدائش کے چھٹے سال آپکے والد محترم سید احمد صاحب اللہ کو پیارے ہو گئے یعنی آپ اپنی عمر کے چھٹے سال میں ہی شفقت پدری سے محروم ہوکر یتیمی کی آغوش میں چلے گئے آپکی تربیت و نگرانی آپکے دادا حضرت قاری عبد الرحمن صاحب نے شروع کی ابھی آپ تعلیم کے ابتدائی مراحل میں ہی تھے اور ناظرہ قرآن اور حفظ قرآن کے چند پارے ہی پڑھے تھے کہ 1930 میں آپکے دادا محترم قاری عبد الرحمن صاحب بھی اللہ کو پیارے ہو گئے اس طرح سات ساڑھے سات سال کی عمر میں آپ اپنے والد اور دادا دونوں کی شفقتوں سے محروم ہو گئے اسکے بعد آپ نے اپنے رشتہ کے ماموں مولانا امین الدین صاحب سے حفظ قرآن کی تکمیل کی اور عربی درجات کی ابتدائی تعلیم اور عصری تعلیم کے بعض مضامین مولانا امین الدین صاحب سے پڑھے اسکے بعد اگلی تعلیم کے حصول کیلئے 1936 میں آپ اپنے وطن باندہ سے باہر نکل کر شہر کانپور کے مدرسہ تکمیل العلوم میں کچھ دنوں اسکے بعد شہر کانپور کے مشہور ادارے جامع العلوم پٹکاپور میں عربی درجات کی ابتدائی تعلیم حاصل کی اسکے بعد 1937 میں آپ نے کانپور سے پانی پت کا رخ کیا وہاں تین سال قیام کرکے نحو وصرف اور درس نظامی کی بنیادی کتابوں کا عربی سوم تک علم حاصل کیا اسی کے ساتھ ساتھ شعبہ تجوید میں قرآت حفص و قرآت سبعہ کی تعلیم قاری عبد الرحمن صاحب پانی پتی کے پوتے محترم جناب عبد الحلیم صاحب سے حاصل کی پھر درس نظامی کی اگلی تعلیم کیلئے ملک کی مشہور دینی درسگاہ مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور کا آپ نے رخ کیا جہاں عربی چہارم سے لیکر دورہ حدیث تک کی تعلیم آپ نے حاصل کی آخری سالوں میں آ پکے بعض درسی ساتھیوں کو آپکے علمی تفوق کی بنیاد پر کچھ حسد جیسا ہو گیا تھا اور وہ آ پکو کچھ نقصان پہونچانے کی سازش کرنے لگے تھے جسکی وجہ سے آپ دورہ حدیث کے سال میں کچھ دنوں کیلئے وہاں سے ہٹکر مدرسہ امینیہ دہلی اور مدرسہ شاہی مرادآباد میں بھی مقیم رہے لیکن مجموعی طور پر آپکی اعلی تعلیم مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور میں ہی ہوئی جہاں آپ نے اس وقت کے جلیل القدر علماء کرام پیر طریقت حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب رامپوری (ناظم اعلیٰ مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور) مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی محمود الحسن صاحب گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ شیخ الحدیث وشیخ وقت حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی جیسی بلند وبالا ہستیوں سے اکتساب فیض کیا 1939 سے لیکر 1944کے درمیان آپ نے مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور میں اکتساب فیض کرتے ہوئے 1941 میں دوران طالب علمی میں ہی حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے اجل خلیفہ حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب رامپوری ناظم اعلیٰ مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور سے اصلاحی تعلق بھی قائم کیا، مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور سے علوم حدیث وفقہ سے فراغت کے بعد علوم عقلیہ یعنی منطق و فلسفہ کے فن کی تکمیل کیلئے ملک میں اسوقت کی مشہور دینی درسگاہوں مظفرپور، بہار، دہلی، رامپور، ومراد آبا د، میں رہکر ان فنون کے ماہرین سے اکتساب فیض کیا، اسکے بعد آپ شہر گونڈہ کے مدرسہ فرقانیہ کے صدر مدرس کی حیثیت سے وہاں تشریف لے گئے اور تقریباً چھ ماہ تک ادارہ کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے تدریسی خدمات انجام دیں ،پھر وہاں سے1946میں مدرسہ اسلامیہ فتحپور یوپی منتقل ہو گئے یہ ادراہ حضرت مولانا فضل الرحمن گنج مرادآبادی کے اجل خلیفہ حضرت شاہ ظہور الاسلام صاحب فتحپوری رحمۃ اللہ علیہ کا قائم کیا ہوا ہے جو اپنے وقت کا اس علاقہ کا مرکزی ادارہ تھا اس ادارہ میں اسوقت حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب الہ بادی کے معتمد خاص حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب جامی ،حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب ہردوئی ،حضرت مولانا عبد الوحید صاحب صدیقی فتحپوری جیسے اساتذہ ہوا کرتے تھے اسی علم وعرفاں کے چمنستان میں حضرت مولانا صدیق صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے تدریسی خدمات انجام دینی شروع کیں اسی درمیان 1946میں صوبہ مدھیہ پردیش کی ایک مشہور بستی برولی ضلع پنا کے معزز قاضی خاندان کے مشہور زمیندار قاضی نوازش علی صاحب کی صاحب زادی محترمہ قریشہ آپا سے آپکا عقد مسعود ہوا،

اور آپ اپنی اہلیہ محترمہ کے ساتھ شہر فتحپور کے محلہ خیلدار میں کرایہ کے مکان میں سکونت پذیر ہوگئے اور وقتاً فوقتاً اپنے وطن ہتھورا باندہ جانا ہوتا تھا آپ اپنے تقوی طہارت علمی تفوق سادہ مزاجی اور انکساری کی بنیاد پر شہر فتحپور اور اسکے قرب وجوار میں انتہائی مقبول و محبوب تھے علاقہ کے بچوں کے اور اپنے شاگردوں کے توسط سے آپکے راوبط فتحپور، کانپور ،الہ آباد، باندہ کے لوگوں سے انتہائی قریبی و خوش گوار تھے اور آپ نے مدرسہ اسلامیہ فتحپور کو ہی اپنا مستقر بنا لیا تھا لیکن 1947میں ملک کی آزادی اور اسکے بعد بٹوارہ کے نتیجہ میں ملک کےمختلف علاقوں میں شدہی کرن اور بالجبر ارتداد پر مجبور کئے جانے کی جو مہم چھڑی ہوئی تھی اور بہت سے بد دین قسم کے علاقے اسکا شکار بھی ہو رہے تھے اسی قسم کے چند واقعات آپکے وطن ضلع باندہ میں 1949میں پیش آئے چنانچہ باندہ شہر کے مشرقی جانب اترا تحصیل کی بعض بستیوں میں کچھ لوگوں کے مرتد ہونے کی اطلاع علاقے کے کسی ہندی اخبار میں چھپی اور حضرت مولانا صدیق احمد صاحب کے کانوں تک یہ اطلاع پہونچی، اس واقعہ نے آ پکو جنجھوڑ کر رکھ دیا آپ مدرسہ سے باہر نکل کر شہر کی بازار میں تشریف لائے اور اخبار کی نیوز کو بذات خود پڑھا اسکے بعد مدرسہ واپس آکر آپ نے ایک درخواست ان الفاظ میں تحریر فرمائی، کہ میں بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر کچھ دنوں کیلئے اپنے وطن جانا چاہتا ہوں اور ضلع باندہ کی جو بستیاں اس فتنہ ارتداد کا شکار ہوئی تھیں وہاں کے لوگوں سے ملکر انکو آخرت کا خوف دلایا اور انکو واپس اسلام پر جمے رہنے کیلئے آمادہ کر لیا الحمدللہ آپکی کوششوں اور دعاؤں کے نتیجہ میں اس وقت کسی کے مرتد ہونے کا کوئی ایک واقعہ بھی پیش نہیں آیا پھر آپ نے سفر حج کا ارادہ کیا اور حج سے فراغت کے بعد روضہ اقدس پر جاکر طویل مراقبہ کے ذریعے اپنے لئے رہبری چاہی جہاں انکو اپنے علاقے میں رہکر ہی کام کرنے کا اشارہ ملا چنانچہ آپ نے سفر حج سے واپسی کے بعد 1950میں مدرسہ اسلامیہ فتحپور کی تدریسی خدمات سے مکمل استعفی دیکر اپنے وطن باندہ میں کام کرنے کا ہی فیصلہ کیا، کہاں تو آپ مدرسہ اسلامیہ فتحپور کے اعلی درجات کےمقبول ترین و محبوب ترین استاذ تھے اور اپنی اہلیہ محترمہ کے ساتھ مدرسہ کے قریب رہکر پوری یکسوئی کیساتھ علمی مشاغل میں منہمک تھے جہاں آپ کو ہر طرح کی سہولت و مراعات حاصل تھیں لیکن علاقے کی بد دینی وفتنہ ارتداد نے آ پکو ایسا بیقرار کر دیا کہ آپ مدرسہ کی تدریسی خدمات سے مکمل سبکدوش ہوکر اپنے علاقے کی غریب بستیوں میں جنگل جھاڑیوں کے بیچ پیدل چل کر امت کے دین وایمان کے تحفظ وبقاء کیلئے رات ودن کڑھنے لگے بے سروسامانی کا یہ عالم تھا دس دس میل پیدل سفر کرکے جب کسی بستی میں پہونچتے اور نماز کے بعد بستی والوں سے رکنے کی درخواست کرتے تو بسا اوقات ایسا بھی ہوتا کہ ایک بندہ بھی نہ رکتا اور کوئی یہ پوچھنے کو تیار بھی نہ ہوتا کہ مولوی صاحب آپ کہاں سے آئے ہیں اور کہاں جائیں گے حتی کہ بسا اوقات بلا کچھ کھائے پئے اس بستی سے الٹے پاؤں لوٹنا پڑتا، حضرت مولانا صدیق صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مدرسہ اسلامیہ فتحپور کی تدریس کو خیر باد کہکر ضلع باندہ کے مسلمانوں کی غریب بستیوں کے کھیت کھلیان اور جنگل جھاڑیوں میں اپنے آپ کو کھپا نے کا فیصلہ صرف اور صرف اللہ کی رضا کیلئے کیا تھا اس سلسلے میں حضرت والا سے ناچیز نے خود استفسار کرکے پورے حالات اپنے کانوں سے خود سنے ہیں حضرت والا کے الفاظ ہیں کہ میں نے اپنے آپ سے کہا کہ صدیق احمد ایک طرف عزت و شہرت اور سہولت کی حصولیابی ہے اور دوسری جانب بے سروسامانی اور گمنامی میں مارا مارا پھرنا ہے لیکن اگر روز قیامت میرے خدا نے مجھ سے یہ سوال کر لیا کہ تمہارے علاقے میں ارتداد پھیل رہا تھا اور تم عیش و عشرت کی زندگی میں مست تھے تومیں اپنے خدا کو کیا جواب دونگا بس یہی وہ چیز تھی جس نے حضرت مولانا صدیق احمد صاحب باندوی نور اللہ مرقدہ کو اس انقلابی قدم کے اٹھانے پر آ مادہ کیا تھا جسکے بعد آپ نے نہ رات کو رات سمجھا اور نہ دن کو دن اور اپنے علاقے کی بد دینی وجہالت کو دور کرنے کیلئے وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں جنکا تصور تک ہم چھوٹوں کے لئے ناممکن ہے.

(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.