راجیہ سبھا کی کاروائی اور عبرت _!

محمد صابر حسین ندوی
[email protected]
7987972043
11/12/2019
ایوان زیریں میں سیٹیزن شپ امینڈمنٹ بل پاس کردیا گیا اور پھر آج (۱۱/۱۲/۲۰۱۹) ایوان بالا میں زیر غور ہے؛ بلکہ اگر یوں مانیں کہ وہاں سے بھی اسے پاس کردیا گیا، جو آج نہیں تو کل عین ممکن ہے؛ لیکن یہاں پر آج کی کارروائی پر غور کرنا چاہئے، جنہوں نے راجیہ سبھا کی بحث سنی اور دونوں گروہوں کا رویہ دیکھا، اس سے صاف اندازہ کیا جا سکتا ہے؛ کہ مسلمانوں کی اس بے بسی اور بے کسی کی ذمہ دار ان کے نام نہاد قائد ہیں، سیکولرزم کے حمایتی اور محب وطن ہیں، آئین کی حفاظت اور گنگا جمنی تہذیب کا ڈھنڈورا پیٹنے والے صاحب وجاہت لوگ ہیں، یہ انہیں کا جرم ہے جسے آج معصوم مسلمان بھگت رہے ہیں، اپنے وجود کو تڑپ رہے ہیں، اپنی پہچان کو ترس رہے ہیں، دوسرے درجہ کے شہری بلکہ اب صحیح تعبیر یہ ہے؛ کہ گھس پیٹھئے بن گئے ہیں، جنہوں نے ممبران کی گفتگو سنی ہو، انہیں اسے قبول کرنے میں کوئی باک نہ ہوگا_ امت شاہ کا جارحانہ انداز اور حزب مخالف کی جانب سے تسلی بھرے و منت و سماجت کا انداز قابل غور تھا، بات بات پر مسلمانوں کو خوف زدہ بتایا گیا، انہیں بے حد مجبور اور مقہور کہا گیا، مگر خدا کا شکر ہے کہ کپل سبل نے یہ اعلان کردیا کہ مسلمان کسی سے ڈرتے نہیں؛ وہ تو آئین کی قدر کرتے ہیں_ دریں اثنا وہ لمحہ بھی آیا جب ایک ممبر نے مسلمانوں کی حب الوطنی کا ثبوت دیتے ہوئے حقیقت حال کا اظہار کردیا، اُنہوں نے کہا: ہم نے کشمیر سے دفعہ ۳۷۰ ہٹائی مسلمانوں نے کچھ نہیں کیا، تین طلاق بل پاس کردیا انہیں کوئی فرق نہ پڑا_ بابری مسجد کا فیصلہ ہماری حمایت میں ہوگیا وہ سب خموش رہے۔ اس دیس کا مسلمان ملک کا وفادار ہے۔ وہ ملک کے حق کی بات کرتا ہے، دیش کے نفع کی سوچتا ہے، اپنے مفادات کو پیچھے رکھتا ہے_ یہ باتیں اگرچہ معمولی نظر آتی ہیں، اور بعض پہلوؤں سے مسلمانوں کی داد رسی کا اندازہ ہوتا ہے۔
مگر اس سکہ کا ایک دوسرا پہلو ہے اور وہی اس کی حقیقت ہے، وہ باتوں باتوں میں دراصل یہ کہہ گئے؛ کہ مسلمانو کے ساتھ جو بھی رویہ رکھا جائے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا، انہیں ڈیٹینشن کیمپ میں ڈال دیا جائے، اپنی شہریت ثابت کرنے کیلئے در در بھٹکنے کیلئے چھوڑ دیا جائے، وہ کچھ نہیں کہیں گے، وہ ہمیشہ کی طرح تماشہ دیکھتے رہیں گے، ان کی آنکھیں پتھرا گئی ہیں، وہ اندھے بہرے اور گونگے ہوگئے ہیں، انہیں حق و باطل سے کوئی سروکار نہیں، ان کے قائدین صرف تسبیح خوانی کے روادار ہیں، وہ مسجدوں میں سجدہ کرلینے کو ہی کافی سمجھتے ہیں، خانقاہوں میں بیٹھ جانے اور اپنا ایک خاص جزیرہ بنا کر صوفی ازم کے نشہ میں مگن ہوجانے کو ہی دین مانتے ہیں، انہیں دھکے مار کر بھگا دیجئے، ملک بدر کر دیجئے_ وہ کچھ نہیں کہیں گے، آج بھی انہیں سانپ سونگھ گیا ہے، حتی کہ وہ لوگ جنہیں اس بل سے کوئی خاص مطلب نہیں، جو سرکاری مراعات پاچکے ہیں؛ لیکن انسانیت کی خاطر اور ملک کی محبت میں سڑکوں پر ہیں، آوازیں بلند کر رہے ہیں، گوہاٹی جل رہا ہے، منی پور، میزورم اور آسام میں حالات سنگین ہیں، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی جیسے ادارے آئین کو بچانے میں مصروف ہیں، مگر مسلمانوں کی صف اول غائب ہے، یقینا راجیہ سبھا کی بحث مسلمانوں کیلئے عبرت ہے، ان کے ماضی اور حال کا آئینہ ہے، ان کے گناہوں کا عکس ہے، ان کے مٹتے وجود اور اپنوں کی غداری اور بے وفائی کی داستان ہے۔
Comments are closed.