جمعیت علماء (م) کے تمام ذمہ داران اور تمام اضلاع کے صدر/ سکریٹری حضرات کی خدمت میں

نوٹ: تمام حضرات کوشش کریں کہ یہ خط اور عاجزانہ پیغام پورے ملک کے جمعیت علماء کے صوبائ/ضلعی ذمہ داران تک انفرادی طور پر یا گروپس کے ذریعہ ضرور پہنچ جائے۔
_________________________

سید احمد اُنیس ندوی

جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ آپ کی ملکی قیادت نے آپ کو مؤرخہ 13 دسمبر بروز جمعہ سٹیزن شپ امینڈمنٹ بِل کی مخالفت میں احتجاج کرنے کا حکم دیا ہے, اس کے علاوہ مولانا محمود مدنی صاحب کا ایک انٹرویو بھی وائرل ہوا ہے جس میں وہ اس بِل کی مخالفت پر لب کشائ کی زحمت فرماتے نظر آ رہے ہیں۔

حضرات ! اس بِل اور اس قانون کی صحیح طرز پر مخالفت کا وقت اب نکل چکا ہے, سیاسی پارٹیوں سے لابنگ اور عوامی طاقت کے ساتھ میڈیا میں اپنے موقف کی مدلل اور پرزور وضاحت یہ وہ کام تھے جن کے ذریعہ پارلیمنٹ میں بِل پیش ہونے سے قبل تمام سیاسی جماعتوں پر دباؤ بنایا جا سکتا تھا, سنجیدہ لابنگ کی جا سکتی تھی۔ ملت کے ہزاروں نوجوان سوشل میڈیا پر گہار لگاتے رہے, گزارش کرتے رہے لیکن ہماری قیادت نے ذرا بھی سنجیدگی نہیں دکھائ, کسی کی آواز پر کان نہیں دھرے, بلکہ مولانا محمود مدنی صاحب تو ماضی میں پرزور طریقے پر یہ کہتے رہے کہ ہم کو نہ NRC سے تکلیف ہے نہ CAB سے, بلکہ آسام کے حالات سے بلاواسطہ واقف ہونے کے باوجود وہ NRC کرانے کی دعوت دیتے رہے, اور ابھی بھی جب نوجوانوں نے ان کو بڑا مان کر ان سے بار بار گزارش کی تب بھی مولانا نے یہ کہہ کر بات کا رُخ موڑ دیا کہ میری رائے اس مسئلے میں سب سے الگ ہے۔

اب جب کہ ہر طرف سے لعن طعن ہوا اور "مناسب وقت” بھی گزر گیا تو اب مولانا نے "خالص سیاسی” انداز سے اپنی تنظیم کو "احتجاج” کرنے کا آرڈر جاری فرمایا اور سب سے اُس احتجاج کے فوٹو طلب کئے, سب جانتے ہیں کہ اب یہ احتجاج بے مطلب ہے, اور اس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں۔ جو اصل وقت تھا اُس وقت مولانا یا تو CAB کی حمایت میں رہے یا حیرت انگیز خاموشی اختیار کر لی, اور اُس سے زیادہ حیرتناک پہلو یہ رہا کہ اُن کی جمعیت (م) کی ضلعی تنظیمیں بھی خاموشی اختیار کئے رہیں سوائے فیروزآباد, کاسگنج اور چند ایک علاقوں کی تنظیموں کے علاوہ۔

اب ایسے وقت میں جب آپ حضرات 13 دسمبر بروز جمعہ کو اپنی قیادت کی فرماں برداری میں احتجاج کریں گے تو یقین جانئے عوام الناس کا اعتماد آپ پر بحال ہونے کے بجائے اور زیادہ کمزور ہو جائے گا۔ آپ کو اگر میری بات پر یقین نا ہو تو مہربانی فرما کر آپ جس علاقے کے بھی ہوں وہاں کے باشعور ذمہ داران سے لے کر عوام الناس تک کسی سے بھی اس موضوع پر بات کر کے اپنا ایکشن پلان اُن کو بتا کر دیکھئے, وہ یہی کہیں گے کہ اب کیا حاصل ؟ اور یقین نا ہو تو سوشل میڈیا پر ان پوسٹ اور پیجز کے کمنٹس دیکھئے جہاں اس احتجاج کی اپیل کو نشر کیا گیا ہے, بات دو دو چار کی طرح صاف ہو جائے گی۔

مولانا محمود مدنی صاحب و دیگر ملکی قائدین جس سطح کے لوگ ہیں اُن کو ایسی مخالفتوں سے ذرہ برابر فرق پڑنے والا نہیں ہے, مگر آپ لوگ بڑی قربانیوں اور مجاہدوں کے بعد معاشرے میں ایک باعزت اور پروقار مقام بناتے ہیں, محض تنظیم کی اطاعت کی خاطر اپنے اُس عالی مقام کے وقار کو مجروح مت کیجئے, اس وقت آپ سب سے میری گزارش ہے کہ اپنے ضلع کے جمعیۃ کے لیٹر پیڈ پر تمام عہدیداران کے دستخطوں کے ساتھ اعلی قیادت کو یہ صاف لکھ کر دے دیجئے کہ ہم بہت عرصے سے آپ کے اشارے منتظر رہے, آپ نے جب صحیح موقعہ تھا تب ہم کو کوئ حکم نہیں دیا, اب ملک بھر میں ہو رہے لعن طعن سے عاجز ہو کر یہ ” سیاسی احتجاج” کیوں ؟ اور ہم کیوں اس کی وجہ سے اپنے علاقے میں اپنا وقار مجروح کریں ؟ ہم دیگر لوگوں کی طرح اب بھی "خاموشی” کو ترجیح دیں گے لیکن اس "بے وقت” کے "سیاسی احتجاج” کے لئے آپ کی اندھی تقلید کر کے اپنے مقام پر آنچ نہیں دیں گے۔

یقین جانیے اگر پچاس اضلاع کے بھی ذمہ داران نے یہ قدم اٹھا لیا تو ساری قیادتیں سوچنے پر مجبور ہو جائیں گی اور سب کو احساس ہو جائے گا کہ ہماری تنظیم ہو یا تحریک , ابھی سارے ذمہ داران اور کارکنان آنکھ بند کر کے تقلید کرنے والے نہیں ہیں بلکہ وہ خود اپنی آنکھیں کھول کر بصیرت کے ساتھ فیصلہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ سب نے متحد ہو کر یہ کام کر لیا اور باقاعدہ لکھ کر اس "سیاسی احتجاج” پر اپنا "احتجاج” درج کرا دیا اور اُس کی باقاعدہ مخالفت کر دی تو ان شاء اللہ عوام الناس کا اعتماد بھی آپ کو ملے گا اور ملت کے حق میں یہ ایک منصفانہ عمل ہوگا, رہی بات کہ آپ کا عہدہ چلا جائے گا تو یہ طے ہے کہ اگر بڑے پیمانے پر اضلاع کی جمعیتوں نے ایسا کیا تو کچھ نہیں ہوگا, اور اُس سے آگے بڑھ کر کہ تنظیموں اور تحریکوں کے عہدے اور اُن کے مراکز ” دین متین” یا ” اسلامی حمیت” کی خاطر قربان ہو جائیں تو یہ دارین کی سعادت ہے کوئ محرومی نہیں۔

ہم دعا کرتے ہیں کہ آج سے ہی اس جرأت مندانہ فیصلہ کے لئے آپ سب پورے خلوص کے ساتھ غور فرمائیں گے, اور پوری ملت کو یہ پیغام دیں گے کہ ہم ملت کے ساتھ سیاسی کھیل کھیلنے کے بجائے اور تنظیموں کی آنکھ بند کر کے تقلید کرنے کے بجائے کھلی آنکھوں اپنا فیصلہ خود لینے کی لیاقت رکھتے ہیں۔

ان ارید الا الاصلاح ما استطعت۔ و ما توفیقی الا باللہ ۔ علیه توکلت و الیه انیب ۔

*سید احمد اُنیس ندوی

Comments are closed.