دل سے دل تک… چائے نواز چوزے

ارقم امیر سندھی
المعلم بمدینۃ العلوم گاگریا
سردی کا جان فشاں موسم، لمبی راتوں اور حسین دنوں میں بھلا یہ ہرطرف چرچراہٹ کیسی؟ جس طرح بارش کے دل پذیر موسم اور حسین بہاروں میں برساتی مینڈک رنگ میں بھنگ ڈالنے پہنچ جاتے ہیں۔ یہی سب اب ان حسین راتوں میں بھی ہونے لگاہے۔ چائے نواز چوزے پروں سے نکل آئے ہیں اور ہرطرف چوں چوں چیں چیں مچا رکھی ہے۔
افسوس تو تب ہوا جب چند اپنے لکھاری اور شاعر اپنی نظم ونثر کی جبیں پر اس کی کالک ملنے لگے ہیں۔ انہیں کوئی سمجھائے مرحوم آزاد نے، سوز عشق ساز حسن۔؏
خمار بادہ، خرام آہو، نگاہ نرگس، نوائے بلبل
سے محروم بچونگڑوں کو چائے کی گڑیا تھمائی تھی۔ افسوس اس افسانے کو مہربان حقیقت سمجھ بیٹھے اور شروع ہوگئے۔ دسمبر نکلتے ہی ممکن ہے اس کالی کلوٹی، منہ بسورتی چڑیل کا زور کم ہو۔ جان چھوٹنا تو اب مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔
چائے پانی کے بعد سب سے زیادہ پیا جانے والا مشروب ہے۔ حضرت انسان روز اول سے پانی کے ساتھ دیگر مشروبات کا عادی رہاہے۔ لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ وہ پتا جسے دنیا کا کوئی کیڑا نہیں کھاتا۔ مگر ابن آدم اس کا عادی ہی نہیں بلکہ رسیا ہوچکا ہے۔ ہے نا عجیب بات! حکماء حضرات کا کہنا ہے کہ چالیس کلو دودھ میں صرف ایک چمچ چائے ڈال دی جائے تو وہ صرف دس منٹ میں اس کا کیلشیم ختم کرکے رکھ دے گی۔
اس زمانے میں تو چائے مسخ ہوکر رہ گئی ہے۔ مصنوعی چینی جسے زہر کا نام دیں تو واللہ نہ انصافی نہ ہوگی۔ مصنوعی چائے کی پتی اور لکڑی کا برادہ اس میں ملائے گئے مختلف کیمیکلز اور رنگ۔ ڈبوں میں موجود بیماریوں کی جڑ مصنوعی دودھ۔ ان اجزاء سے تیار شدہ شئی کو چائے کہنا چاہیے یا زہر ہلاہل؟ آپ! کسی اور سے نہیں بلکہ اپنے ضمیر سے پوچھ لیں۔ جبکہ مرحوم آزاد اپنے زمانے میں رائج چائے سے مطمئن نہ تھے۔ وہ خاص اہتمام سے چینی چائے منگواتے اور پیتے۔ گر آج کی چائے دیکھ لیتے تو یقینا چائے پر لکھنے سے قبل ہی تڑپ تڑپ کر اللہ کو پیارے ہو جاتے۔
ایڑی تا سر چائے میں غرق احباب کو کریدا جائے تو معلوم ہوگا ابتدا میں انہوں نے چائے نوشی اس لیے شروع کی کہ چائے میٹھی ہوا کرتی ہے بس۔ پھر چائے میں موجود کیفین و دیگر کیمیکز نے وقتی چستی فراہم کی اور اندر کے نظام کو درہم برہم کرکے رکھ دیا۔ رفتہ رفتہ چائے کی گرفت اتنی مضبوط ہوگئی کہ وہ بس اسی کے ہوکر رہ گئے۔ اب اس سے جان چھڑانا ان کے بس میں نہ رہا۔ باقی سرور، مستی، نشاط اور تازگی والی باتیں سب بنائی ہوئی اور فرضی ہیں۔
دنیا بھر میں تشویش ناک حد تک بڑھتی ہوئی بیماریوں کے دیگر اسباب میں سے ایک سبب چائے ہے۔ اس کے نقصانات پر شائع ہوئی رپورٹیں آپ کھنگا لیں تو آپ بھی پکار اٹھیں کہ یہی ام الامراض ہے۔ برطانوی ماہرین کا کہنا ہے کہ زیادہ گرم چائے پینے سے کینسر کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ چائے کے زیادہ استعمال سے مثانے کا کینسر، ہڈیوں اور پٹھوں کی کمزوری، جریان، کثرت احتلام، خفقان، جگر کی خرابی، قبض، معدے کی خرابی، دل کی بیماریوں کے خطرات، آنتوں میں سوزش، چہرے کازرد اور بے رونق ہونا، موڈ میں اتار چڑھاؤ، چڑ چڑاپن، ذہنی تناؤ، نیند نہ آنا، سر درد، اور پیشاب کا بار بار آنا جیسی خطرناک بیماریاں ہو سکتی ہیں۔
آپ اس کی کثافت کا اندازہ بس اس سے لگائیں، جب اسے سفید، لطیف دودھ کے ساتھ ملایا جاتاہے تو اس کا بھی حلیہ بگاڑ دیتی ہے۔ پھر وہی سوال سر اٹھاتا ہے کہ جب چائے اس قدر مضر، غیر مفید اور زہر قاتل ہے۔ تو پھر سب اس پر فدا کیوں ہیں؟ در اصل میڈیا کے پرو پیگنڈے کا نتیجہ اور برین واش کا ثمرہ ہے۔ اشتہار پہ اشتہار، چائے کے فوائد پر بڑا چڑھاکر جھوٹی رپورٹوں نے لوگوں کے ذہنوں کو پلٹ کر رکھ دیا ہے۔
اس کی برائی کے لیے یہی کافی ہے کہ اس کو یہاں تن کا گورا من کا کالا انگریز لایا تھا۔ خیر ہماری چائے سے ناچاقی موروثی ہے، دادا مرحوم بھی چائے نوشی کی لت سے پاک تھے۔ جب چائے کا اول اول منہ زور طوفان اٹھا ہر فرد بشر کو اس نے اپنی لپیٹ میں لیا، اس وقت ایک ایسا حادثہ پیش آیا، جس نے پورے قبیلے کو ہلاکر رکھ دیا۔ اس وقت نانا خان محمد اور قبیلہ کے دیگر سرداروں نے چائے کے خلاف جرگہ بلاکر مکمل اتفاق سے بائیکاٹ کیا۔ اور چائے کو اوندھے منہ گہرے گڑھے میں پھنیک دیا۔ بحمد اللہ آج تک چائے اپنا پرانا جنونی مقام نہ پاسکی، ناناجی کے قریبی واقف ہوں گے کہ آج تک وہ چائے سے ویسا ہی بیر رکھتے ہیں۔
کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ ہم اس زہریلے، آلودہ اور غیر فطری دور میں فطرت کی طرف لوٹنے کی کوشش کریں۔ غذائیت، صحت اور وٹامن سے بھر پور فطری مشروبات کی طرف لوٹ آئیں۔ دودھ، دہی، لسی کو اپنائیں۔ اور اپنی زندگی کو خوشحال بنائیں۔ ورنہ بائلر مرغیوں کی طرح بیماریوں کا معجون مرکب بن کر رہ جائیں گے۔ ہم ان احباب سے بھی دست بستہ عرض کرتے ہیں۔ جن کا ذوق سلیم، مزاج و مذاق گرم گرم چائے سے جل کر راکھ ہوچکا ہے۔ انہیں چائے کے سواہ کچھ نہیں سوجھتا۔ آپ اپنے لیے نہ سہی اپنے معصوم بچوں کی خاطر اسے چھوڑ دیں۔ ایک دم نہیں چھوڑ سکتے تو تدریجا چھوڑنے کی جان توڑ کوشش کریں۔ آئیں آج پختہ عہد کرکے اس کالی کلوٹی، منہ بسورتی ڈائن سے جان چھڑائیں، بلکہ تین طلاق دیکر ہمیشہ کے لیے نجات پائیں۔ آپ بے فکر رہیں حکومت بھی اس طلاق پر ایکشن نہیں لے سکے گی۔ پھر سے درخواست ہے کہ خدا کے لیے خود کو اور اپنے بچوں کو اس سے دور رکھیں۔ صحت سے بھرپور زندگی پائیں۔
Comments are closed.