آنکھ سب کچھ دیکھتی ہے اور زباں خاموش ہے

مفتی محمد اعظم الندوی
استاذ : المعہد العالی الاسلامی حیدر آباد
ہندوستان وہ خوش نصیب ملک ہے جہاں دیدہ ور علماء کبھی قوم کو چین سے سونے نہیں دیتے، ان کو ہمیشہ حرارت وسوز سے گرم رکھتے ہیں، ہم نے بچپن سے فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنیؒ کو سنا تھا، سیلاب امڈتا تھا ان کی آمد پر، لوگ دو رویہ کھڑے ہوکر ان پر پھول برساتے تھے، پھر ندوہ آکر مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کا کروفر دیکھا، وہ ان کاصمصام الاسلام اور فتوح الشام کا تذکرہ کرنا، وہ القراءة الراشدة اور قصص النبیین کی عبارتوں میں جابجا انبیاء اور صحابہ کےجانثارانہ تذکرہ سے اشاروں اشاروں میں بچوں میں حق کی حمایت اور ظلم کی مخالفت کا جذبہ پروان چڑھانا، بورڈ اور پیام انسانیت کے اسٹیج سے اپنی تقریروں میں طویل مدتی پلان بتانا اور انسانی خمیر کو جگانا، ان کی "ماذا خسر” کی عبارتیں سینوں کو جوش سے بھر دیتی تھیں، خدا کی قسم ان کی رگوں میں علی بن ابی طالب، خالد بن ولید، طارق بن زیاد اورصلاح الدین ایوبی کا خون دوڑتا تھا، ان کا دماغ اندلس کے امیر موسیٰ بن ابی غسان کی طرح روشن اور فروزاں تھا، ان کا عزم محمد الفاتح کی یاد دلاتا تھا، ان کا دل شاہ عبد العزیز، سید احمد شہید اور اسماعیل شہید کی سلگائی ہوئی آگ سے بھرا ہوا تھا، اس کی چنگاریاں ان کے قلم سے نکلتی تھیں اور وہ چاہتے تھے کہ یہ آگ سینہ میں دبی رہے، جب کبھی ضرورت ہو وہ پورے وجود کو گرماتی رہے، سلگاتی رہے اور وقت آئے تو شعلۂ جوالہ بن جائے، ان کی تحریروں کو ہم مواد کے لیے نہیں، مفاد کے لیے نہیں اسی آتش سوزاں کو جلانے کے لیے پڑھتے ہیں، میری زندگی میں اگر ان کی کتابوں کا مطالعہ شامل نہ ہوتا تو میں زمانہ کی گرد میں چھپ گیا ہوتا، میرا نفَس ڈوب گیا ہوتا اور ہنگامۂ حیات میں کہیں کھوگیا ہوتا۔
یہ جذبہ ہمیں اندر سے زندہ رکھتا ہے، بہت ضروری ہے کہ ہم اندر سےمرنے نہ پائیں، جب کبھی مرنے لگیں ابوالحسن علی ندویؒ کی وہ تحریریں پڑھیے جن میں یورش تاتار میں وہ شیخ جمال الدین اور شیخ رشید الدین کا کردار بتاتے ہیں، کچھ نہیں تو آپ کاروان مدینہ میں ان کے ابتدائی مطالعۂ سیرت کی داستان پڑھئے، کاروان زندگی پڑھ لیجئے وہ مرد مؤمن کبھی امت، انسانیت اور ملک کی سیکولر شبیہ کی بات کرنے سے غافل نہیں رہا، شکریہ صد بار شکریہ ہمارے دلوں میں زندہ قائد علی میاں ندوی:
ترے بحر بخشش ولطف سے جو کبھی ہوئی تھی عطا مجھے
مرے دل میں ہے وہی تشنگی مری روح میں ہے وہی جلن
آج اچانک نہیں، رفتہ رفتہ زمانہ نے ہمیں ایک ایسے دوراہے پر لا کھڑا کردیا ہے کہ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن، ہم مؤدبانہ کہتے ہیں: ہمیں ہمارے بزرگوں سے کوئی شکایت نہیں، انہوں نے اس میدان میں ہڈیاں گھلادیں، بال سفید کرلئے، اور اپنی پوری توانائی لگادی ہے، اور ہم نے دیکھا انہوں نے جب آواز دی، قوم نے لبیک کہا، شکایت یہ ہے کہ موجودہ سیاہ قانون کےبعد قوم کا ضمیر جاگ گیا ہے، اور ان کا جاگا ہے جو زیادہ آپ کے جلسوں اور کانفرنسوں میں آتے بھی نہیں، ہم مدارس کے لوگ آپ کے جلسوں میں پلے بڑھے ہیں، ان کے اندر جذبات ہیں، یہ اسی وقت جمع ہوں گے جب آپ جمع کریں گے، اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ آپ کے بغیر یہ سب شاعری کی وہ بحر ہے جس میں پانی نہیں اور پانی ہے تو موج نہیں، طوفان نہیں۔
اگر آپ کے بغیر ہماری آواز میں اتنی طاقت ہوتی تو ہم کیوں آپ سے فریاد کرتے، کیا آپ نہیں سمجھتے کہ پورے ملک میں احتجاج کی یہ لگی ہوئی آگ کہیں سازشوں سے دبائی جارہی ہے تو کہیں کرفیو کے ڈرسے، کہیں کچھ لوگوں کے زخمی ہونے کے ڈر سے، بعض لوگ یہ بیان جاری کرنے لگے ہیں کہ اکابرین کے اشاروں کے بغیر تم نکلوگے تو یہی حال ہوگا، یہ منافقانہ طرز عمل ہے کہ کامرانی ملے تو غنیمت میں حصہ لینے دوڑے آئیں اور ناکامی ہو تو کہیں ہم نے کہا تھا جان دینے نہ جاؤ، اب خود بھگت لو۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ لوگ سوشل میڈیا پر لکھنے والوں کو لعن طعن کررہے ہیں کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور ندوہ کے طلبہ کو ہمارے نعروں نے نقصان پہنچایا، حقیقت یہ ہے کہ ان کی للکار اور پکار نے ہمیں کھڑا کیا، پولس نے جو بربریت ان کے ساتھ کی اس کی دین ہے کہ آج پورا ہندوستان ہمارے ساتھ کھڑا ہے اور ہماری آواز سے آواز ملا رہا ہے، اور ہم اس آواز کو دبا دینا چاہتے ہیں، احتجاج کا مطلب تشدد کرنا نہیں ہوتا نہ کوئی کررہا ہے، ہم سہمے ہوئے کیوں ہیں؟ ہم نے اپنی ذمہ داریاں نہ سمجھیں تو کھیل خراب ہوسکتا ہے جو شر پسند عناصر کا مشن ہے۔
اس قانون کو واپس لینے کی پرزور مانگ کو اسلامائزیشن اور تشدد سے بچاتے ہوئے اگر جاری نہ رکھا گیا، آج اگر اور کسی دوسری چوٹ اور ضرب کاری کا انتظار کیا گیا کہ پھر نکلیں گے تو اب کوئی موقعہ نہیں آئے گا، این آر سی کے زمانہ میں خدا نخواستہ کچھ مسلمان مرتد ہوں گے، کچھ منافق بن جائیں گے، کچھ اور ملک چھوڑ کر بھاگ جائیں گے، غریب مسلمان کیمپوں میں بے موت مارے جائیں گے، یہ سب ہمارے اکابر ہم سے ہزار گنا جانتے ہیں اور علی بصیرۃ مانتے ہیں، ہم نے ان کی تقریروں، تحریروں میں بارہا اس کے اشارے دیکھے ہیں اور باربار قوم مسلم کو جاگ جانے اور باشعور بن جانے کا شارہ پایا ہے، پائیدار راستہ اب بھی دعوت الی اللہ اور خدمت خلق کا ہے لیکن جو ہنگامی صورت حال پیدا ہوگئی ہے اس میں آواز سے آواز ملانا، اور ان پر امن احتجاجات کو منظم کرنا اور ان کو تقویت دیتے رہنا جیسا کہ ماشاء اللہ اب بعض صف اول اور صف دوم کے علماء نے اپنے بیانات سے کیا ہے، لیکن ابھی بھی شرما حضوری کی کیفیت کے ساتھ اور الزام سے بچنے کے لیے بے دلی سے کہا گیا ہے جو کچھ کہا گیا ہے، اگر یہ آوازیں جاری رہیں تو ہم ملک کو بچانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں ورنہ ہمیں ہندوستان کا مستقبل اندھیروں میں ڈوبتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
Comments are closed.