جمعہ نامہ: اگرچہ زور ہواؤں نے ڈال رکھا ہے ، مگر چراغ نے لو کو سنبھال رکھا ہے

ڈاکٹر سلیم خان
آج کے طلباء کل کے رہنما ہیں ۔ آزادی کی تحریک میں حصہ لینے والوں نے ایمرجنسی تک سیاست میں اہم کردار کیا ۔ ایمرجنسی کے خلاف جئے پرکاش نارائن کے ’پورن سوراج‘( مکمل خودمختاری) کی دعوت پر یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے جن طلباء نے لبیک کہاان کی بڑی تعداد فی الحال علاقائی جماعتوں اور بی جے پی میں شامل ہے۔ سیاسی افق پر جگمگانے والے بیشتر ستاروں اپنے کالج کی زندگی میں کسی نہ کسی تحریک سے منسلک ہوئے تھے۔ شہریت قانون کے خلاف سارے ملک کی دانشگاہوں میں احتجاج تیسرے نسل کے رہنماوں کا پیش خیمہ ہے۔ یہ حسنِ اتفاق ہے کہ اس تحریک کا باحجاب چہرہ عائشہ اور لدیدہ ہیں۔ ان کا ویڈیو وائرل ہواتورویش کمار نے پرائم ٹائم میں بلایا اور کمال خود اعتمادی کے ساتھ انہوں نےاپنا موقف رکھا۔
برکھا دت سے بات کرتے ہوئے لدیدہ نے کہا کہ ہمیں کسی کا خوف نہیں ہے ۔ہم اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے ۔ عائشہ کا کہنا تھا ’’ہم اپنے آس پاس موجود لوگوں کے تحفظ کے لیے آواز اٹھاتے رہیں گے۔ ہم ڈرنے والے نہیں ہیں۔ ہم صرف اپنے حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اگر ہم اب کھڑے نہیں ہوئے تو کب کھڑے ہوں گے۔‘‘ اس مزاحمت کا خوش آئند پہلو یہ بھی ہے کہ ان طالبات کا پورا خاندان ان کے ساتھ ہے۔ عائشہ کا شوہر رحمن ایک آزاد صحافی ہے اور اس تحریک میں پولس کے تشدد کا مقابلہ کرچکا ہے۔ لدیدہ نے نامہ نگاروں بتایا کہ اس کے والدین انصاف کی جنگ میں ہمیشہ اس کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔ ان دونوں طالبات نے اپنے جرأتمندانہ اقدام سے مسلم خواتین کو مظلوم اور مسلمان معاشرے کو پسماندہ قرار دینے والے اسلام کے مخالفین کا قافیہ تنگ کردیا۔
جامعہ ملیہ کے شعلے پدوّ چیری یونیورسٹی پہنچے توہاں ماس کمیونیکیشن کی باحجاب طالبہ رابعہ عبدالرحیم نے احتجاجاً اپنا گولڈ میڈل لینے سے انکار کر کے تاریخ رقم کردی ۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے رابعہ کو مدعو کیا اور تقریب گاہ میں نشست مختص کر کے کانووکیشن کا لباس بھی دیا ۔ صدر مملکت رام ناتھ کووند نے وہاں موجود طلبہ کو اسناد تقسیم کیے لیکن شعبہ ابلاغیات کی گولڈ میڈلسٹ رابعہ عبدالرحیم کو ان کی آ مد سے قبل باہر بلالیا گیا اور صدر کے جانے کے بعد ہی اندر جانے کی اجازت دی گئی۔ کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ملک کا صدر ایک بے ضرر طالبہ سے ڈر گیا؟ اس سانحہ سے رابعہ بددل نہیں ہوئی بلکہ اس نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’’ اس نے مجھے ہمت دی کہ میں فیصلہ کر سکوں۔ میں نے اپنا گولڈ میڈل مسترد کر دیا اور صرف سند قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔میں نے یہ قدم صرف اس لیے نہیں اٹھایا کہ مجھے وہاں سے نکال دیا گیا اور نامعلوم وجوہات کی بنا پر میرے خلاف امتیازی سلوک کیا گیا بلکہ میں نے شہریت کے ترمیمی قانون، این آر سی اور طلبہ پر پولیس کے مظالم کی مخالفت کرنے والے طلبہ کے ساتھ یکجہتی میں ایسا کیا ہے‘‘۔
رابعہ کی دلیری نے ایک اور طالب علم ارون کمار کے لیے مہمیز کا کام کی اس نے صدر کے ہاتھوں سے ڈگری نہ لینے کا ازخود فیصلہ اس لیے کیا کیونکہ انہوں نےشہریت قانون پر دستخط کیے ہیں ۔بشریات میں پی ایچ ڈی کے گولڈ میڈل کی مستحق میگالہ نے کہا ’میں یونیورسٹی ٹاپر ہوں لیکن میرا دل اس بات پر راضی نہیں کہ میں یہ اعزاز ایسے وقت حاصل کروں جب ملک میں آئین متاثر ہو رہا ہے۔ یہ اعزاز کی بات ہے کہ آپ وہ لباس پہنیں، سٹیج پر جائیں اور صدر مملکت سے میڈل حاصل کریں لیکن ہم نے اس کا بائیکاٹ کیا ہے۔‘ اب یہ معاملہ بنگال کی جادو پور یونیورسٹی میں بھی پہنچ گیا جہاں بین لاقوامی تعلقات میں ایم اے کی طالبہ دیب اسمتا نے طلائی تمغہ لینے کے بعد شہریت قانون کو سب سے سامنے پھاڑ کر پھینک دیا اور انقلاب زندہ باد کے بعد ’کاغذ نہیں دکھائیں گے‘ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے جامعہ کے طلباء پر پولس تشدد کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ۔دیب اسمتا نے مودی حکومت کے غیر انسانی فطرت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس طرح عدل کے چراغ سے انصاف کے کئی چراغ روشن ہوگئے اور ظلم کی تاریکی چھٹنے لگی ۔

Comments are closed.