شہریت قانون: حکومت کو عوام کی بات سننی ہی ہوگی

تحریر: بال مکند
ترجمہ : نازش ہما قاسمی
شہریت قانون 2019 (سی اے اے) پر ملک بھر میں جو گفتگو ہورہی ہے اس میں ایک سوال بار بار پوچھا جارہا ہے ’جب تمہارا اس قانون سے کوئی لینا دینا نہیں ہے تو تم اسے لے کر سڑکوں پر کیوں اتر رہے ہو‘؟ یہ سوال صرف برسراقتدار پارٹی کے لیڈران ہی نہیں، ٹی وی چینلوں کے اینکر بھی عام لوگوں سے پوچھ رہے ہیں، یہ کوئی عام سوال نہیں ہے ایکٹ کے مطابق پاکستان، بنگلہ دیش، اور افغانستان سے بناکسی قانونی کاغدات کے ۳۱ دسمبر ۲۰۱۴ سے قبل جو ہندو، سکھ،جین، بودھ، پارسی اور عیسائی ہندوستان آچکے ہیں، انہیں یہاں کی شہریت دی جائے گی، اس میں مسلمانوں کا ذکر نہیں ہے، قانون میں صرف باہر سے آنے والوں کے بارے میں ایک پالیسی مرتب کی گئی ہے، ملک کے ہندو یا مسلمانوں کے بارے میں کچھ نہیں کیاگیا ہے، نوجوانوں کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے، لیکن نوجوان طلباء اور مسلمان اس قانون کی مخالفت میں سب سے آگے ہیں، اس لیے پوچھا جارہا ہے کہ جب ان کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے تو سڑکوں پر کیوں اترآئے ہیں؟
مان لیجئے کہ کسی شخص کے پاس کوئی بہن نہیں ہے، بیوی کی وفات ہوچکی ہے، دو بیٹے ہیں جو امریکہ میں رہتے ہیں، یعنی خاندان میں کوئی خاتون نہیں ہے ایسے میں پڑوس میں اگر کسی کا ریپ ہوجائے، یا سڑک پر کچھ منچلے کسی لڑکی کو چھیڑ رہے ہیں تو انہیں دخل دیناچاہئے یا نہیں؟ کوئی شخص یوپی سے آکر دہلی میں رکشہ چلاتا ہے، اتنی کمائی نہیں ہے کہ انکم ٹیکس ریٹرن بھرے؛ اس لیے ان کے پیسوں سے کسی افسر کو تنخواہ نہیں دی جاتی، اگر وہ کسی پٹرول پمپ والوں کو اہلکاران کی ملی بھگت سے ملاوٹ کرتے دیکھے تو اسے مخالفت کرنی چاہئے یا نہیں؟ وہ تو پٹرول بھی نہیں استعمال کرتا، شاید رکشہ کالائسنس بھی نہ ہو، کوئی شہری جی ایم سیڈس اور کوئی دیہاتی ریلوے کو پرائیوٹ کمپنی کو دئے جانے پر سوال اُٹھا سکتا ہے یا نہیں؟
ظاہر ہے ’لینے دینے‘ پر کیاگیا سوال خطرناک ہے اور جمہوریت کی جڑ کو کاٹنے والا ہے، ملک سے متعلق ہرمعلومات پر اس کے ہر شہری کا حق ہے، انہیں ہر بات پوچھنے، جاننے اور اس پر اپنا تبصرہ کرنے کا حق ہے، اس لیے حکومت جب شہریوں کو کوئی جانکاری دیتی ہے تو وہ کوئی احسان نہیں کرتی، شہری ہی اسے یہ حق دیتے ہیں کہ سماج کے وسیع مفادات کو دھیان میں رکھتےہوئے وہ دفاع،غیر ملکی یا سرکاری خفیہ ایکٹ کے تحت کچھ معاملوں کو خفیہ رکھے۔ ہمیں جمہوری حکومت کے اس بنیادی تھیوری کو سمجھنا ہوگا، لیکن بدقسمتی سے اب تو عدالتی بینچوں سے بھی پوچھا جانے لگا ہے کہ جس معاملے سے تمہارا کوئی واسطہ نہیں ہے اس پر تم آر ٹی آئی کا استعمال کیوں کررہے ہو؟
ایک ایسی ذہنیت پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس میں کوئی شہری صرف اتنا ہی پوچھ سکتا اور جان سکتا ہے اور صرف ان ہی معاملوں پر تبصرہ کرسکتا ہے جس سے ان کا سیدھا تعلق ہے باقی تمام اطلاعات ، سارے فیصلےحکومت کے قبضے میں ہوں گے اور وہی طے کریں گے کہ کس شہری کا سیدھا واسطہ کن کن معاملوں سے ہے، حکومت اپنے لیے شہری کو نہیں منتخب کرتی، شہری اپنے لیے حکومت منتخب کرتے ہیں حکومت کو یہ طے کرنا کا حق نہیں ہے کہ فلاں فلاں لوگ ہمارے شہری بن جائو اور ہمیں ووٹ دو۔ اس کے برعکس عوام حکومت کو مجاز بناتی ہے کہ فلاں فلاں کو بھی مساوی شہریت دی جائے۔
سی اے اے کو لے کر جو شہری سڑکوں پر اتر رہے ہیں، کم سے کم انہیں تو یہ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ یہ قانون کیوں بنایاگیا ہے اور اس کی بنیاد کیا ہے، حکومت کہتی ہے انسانی ہمدردی اس کی بنیاد ہے مذہبی ظلم وستم سہنے والے ہندو ں کےلیے بنا ہے، سڑک پر اترنے والے لوگ سمجھ نہیں پارہے ہیں کہ پاکستانی ہندوئوں کی اذیت مہاجر مسلمانوں کی اذیت سے الگ کیسے ہے؟ یا پھر سری لنکا کے ہندوئوں اور بنگلہ دیش کے ہندوئوں کی اذیتوں میں کیا فرق ہے؟ شادی کےلیے بارات کو لے کر نکلے جس دلت کو اپنے ملک کی ریاستوں میں گھوڑی سے اتار کر پیٹا جاتا ہے اس کی اذیت ان سب کی اذیتوں سے کس معنی میں الگ ہے؟ اور سمستی پور سے ہجرت کرکے ممبئی کے فٹ پاتھوں پر بھیک مانگنے والے اور افغانستان سے ہجرت کرکے کچھ میں حمالی کررہے ہیں پناہ گزینوں کی معاشی اور مذہبی اذیت کے بیچ کیسے بھید بھاؤ کیا جائے گا؟
یہ بات صرف سڑکوں پر مظاہرہ کرنے والوں کی نہیں، جھارکھنڈ ووٹروں کو بھی سمجھ میں نہیں آیا، دھیان رہے کہ وہاں تقریباً 68 فیصد آبادی ہندی ہے ریاست پہلے ہی ہندو رنگ میں رنگ چکی ہے، مذہبی بنیاد پر ماب لنچنگ جیسی واردات وہاں مسلسل خبروں میں رہی ہے پھر بھی جھارکھنڈ کے ووٹروں نے اس قانون کو اہمیت نہیں دی، اس قانون کو لے کر ملک میں پولررائزیشن جھارکھنڈ میں ووٹنگ سے قبل ہی شروع ہوگئی تھی لیکن ان کے سارے ووٹ نہیں ملے۔
ملک میں جمہوریت کی موجودہ صورت حال یہی ہے لیکن اگلی دہائی میں اس کی سمت بدلنے والی ہے، عوام کی اور عوام کےلیے چنے جانے کا معنی وسیع ہوگا۔ جمہوریت پر مبنی نہیں رہ سکے گا اسے لوگوں پر مبنی رہنا ہوگا۔ ڈیموکریسی اپنے آپ کو نئے سرے سے متعین کرے گی وہ صرف ووٹ کھینچنے والے لالی پاپ سے باہر نکلے گی، لیڈران قابل احترام نہیں ہوں گے عوام قابل احترام ہوجائیں گے حکومتیں آئیں گی، جائیں گی لیکن انہیں یہ تسلیم کرکے چلنا ہوگا کہ شہری ان کی کسی بھی اسکیم پر سوال پوچھ سکتے ہیں، اسے روک سکتے ہیں، یا کسی خصوصی اسکیم پر عمل درآمد کا مطالبہ کرسکتے ہیں ۔ جمہوریت پسند ممالک پر اس تبدیلی کےلیے عالمی دباؤ ہوگا۔

Comments are closed.