ہائے رے لطف اسیری کا

?محمد اعظم ندوی
21/ ربیع الآخر 1441ھ مطابق19/ دسمبر 2019ء بروز جمعرات جب ہم نمائش گراؤنڈ، نام پلی، حیدرآباد میں سی اے اے اور این آر سی کے سیاہ قوانین کے خلاف منعقد ہونے والے احتجاجی اجلاس میں جارہے تھے، ابھی مقام اجلاس پہ پہنچے بھی نہیں تھے، شیزان ہوٹل کے پاس تھے کہ پولیس نے ہمیں گرفتار کیا، اور اس کھلی گاڑی پہ لوڈ کیا جس پر نو پارکنگ زون سے بائکس لوڈ کی جاتی ہیں، ہم نے پوچھا کہ آخر کیوں؟ لیکن ایک پولیس والے نے بھی کوئی جواب نہ دیا، دیکھتے دیکھتے ہماری گاڑی پہ 27 لوگوں کو بے جرم وخطا اپلوڈ کرلیا گیا، جس میں ایک غیر مسلم بھائی بھی تھے، ان نو گرفتاروں میں چار ہمارے المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد کے اساتذہ تھے: مولانا احمد نور عینی، مولانا محبوب قاسمی، مولانا انظر قاسمی اور یہ خاکسار، مولانا اشرف علی قاسمی، مولانا نوشاد اختر ندوی اور مولانا ناظر انور قاسمی اور بہت سے طلبہ بھی ہمارے ساتھ گئے تھے لیکن ہم سے پیچھے تھے، ہم نے انہیں فون کرکے خطرہ کے نشان سے پہلے روک دیا تھا،
ہماری گاڑی پہ معہد کے چار طلبہ حماد علی مدہوبنی، عادل جونپوری،عفان ممبئی اور عامر گجراتی بھی تھے، ایک دوسری گاڑی میں معہد کے مزید سات طلبہ تھے: جہانگیر اڈیشہ، امیر حمزہ ممبئ، محمد افضل سنت کبیر نگری، محمد شاہد چمپارنی، خورشید دہلوی، انعام الحسن کلکتوی اور عبد الحق کلکتوی جس کی اطلاع ہمیں بعد میں ملی، کچھ وہ بھی تھے جو اپنے کسی کام سے گذر رہے تھے، اور دام صیاد میں آئے۔

شروع میں تو سب ایک دوسرے کو حیرت واستعجاب کی نظروں سے دیکھ رہے تھے کہ یہ ہو کیا رہا ہے، لیکن دلچسپ ہے کہ کسی چہرہ پہ خوف کے آثار نہ تھے، حیرانی ضرور تھی، ہم نے بعض منتظمین کو فون کر کے استفسار کیا کہ یہ کیا بلا ہے، انہوں نے فکر مندی کا اظہار کیا، پھر فون کرکے بتایا کہ آپ لوگوں سے پہلے کئی گاڑیاں جا چکی ہیں، اور سب سے پہلے تو امیر جماعت اسلامی، حلقہ تلنگانہ واڈیشہ محترم جناب حامد محمد خاں جا چکے ہیں، پھر ہمیں ان کی ویڈیو بھی ملی، ہم نے بھی فورا ایک ویڈیو تیار کرکے وائرل کیا، جس کو دیکھ کر فون پر فون آنے لگے، ڈٹین کیا جائے تو کیا کرنا چاہیئے ایسی ہدایتیں بھی آنے لگیں، بعض با اثر لوگوں نے کہا: وہ کہاں لے جاتے ہیں، معلوم ہوجائے تو ہم فورا پہونچتے ہیں، دو پولیس اہلکار گم صم کھڑے تھے، لاکھ راز ونیاز کی کوشش کی کہ بھائی! ہمیں کیوں اور کہاں لے جارہے ہو؟ اور کس چارج میں لے جارہے ہو؟ وہ بس غور سے دیکھتے اور لب بہ بند نظریں پھیر لیتے، میرے ایک ساتھی نے جھانک کر ڈرائیور سے پوچھا: بھائی! گاڑی کہاں جائے گی؟ اس نے کہا: کارخانہ بوئن پلی پولیس اسٹیشن، ہم نے اپنے لوگوں کو یہ اطلاع دے دی۔
اب ہم نے آیت کریمہ کا ورد دل ہی دل میں شروع کیا، اور معلوم نہیں کون کیا پڑھ رہا تھا، اسی بیچ بعض طلبہ نے بتایا کہ ہم تو آپ لوگوں کو دیکھ کر ادھر بڑھے کہ شاید مقام اجلاس کی طرف اس موٹر سے لے جایا جارہا ہے، اس لیے بڑھے آئے، اور خود گرفتاری کی سعادت حاصل کی، ہمیں یہ سن کر ہنسی آگئی کہ:
اسدبسمل ہے کس انداز کا قاتل سے کہتا ہے
کہ مشقِ ناز کر، خونِ دو عالم میری گردن پر

اسی بیچ کسی نے زور دار آواز میں کہا: انقلاب، بس کیا تھا، سب بول پڑے: زندہ باد، زندہ باد، اسی طرح امت شاہ ڈاؤن ڈاؤن، نریندر مودی ہائے ہائے، این آر سی واپس لو، سی اے اے واپس لو، تم پولیس بلاؤ، آزادی۔۔۔جیسے نعروں سے آس پاس کی فضائیں گونج اٹھیں، اور اگر ہم تھک کر خاموش ہوتے، تو آس پاس سڑکوں سے گزرتے ہوئے موٹر سوار یہ آواز لگاتے ہوئے گزتے: انقلاب اور آزادی، اور پھر ہم آواز میں آواز ملا لیتے، خاص طور سے ریڈ سگنل پہ جب بھی گاڑی کھڑی ہوتی، ہمارا نعرۂ مستانہ شروع ہوجاتا، یہ دس کلو میٹر کا فاصلہ تھا، جو تسبیح ومناجات اور تکبیر مسلسل میں گزرا، جب یہ قافلۂ سخت جاں کارخانہ پولس اسٹیشن پہنچا اور آوازیں تھمیں تو پولیس والوں نے راستہ چھوڑا، کچھ لوگ گاڑی سے اترے بھی، اور پورا موقع تھا کہ بے کار کی جھنجھٹ سے دو چار لوگ ادھر ادھر ہوجائیں تو کوئی دیکھنے والا نہیں تھا، لیکن سب لوگ پھر سوار ہوگئے، سننے کو ملا کہ ایک صاحب نے دائیں بائیں دیکھ کر اپنا کام کرلیا تھا، وہاں کے ذمہ دار نے کہا کہ ہمیں آپ کو قبول کرنے کا آرڈر نہیں، اسی درمیان ہمیں مختار نامی تھانہ انچارج نے سلام کیا، گویا یہ پر امن استقبال تھا اور بتایا کہ کارخانہ بوئن پلی پولس اسٹیشن کی ایک نئی عمارت زیر تعمیر ہے، وہاں چلنا ہے، ہمیں وہاں لے جایا گیا، تھوڑی دیر میں ہم وہاں پہنچے اور بے خطر کود پڑے، لیکن یہاں نہ عشق کی آزمائش تھی نہ آتش نمرود، نگاہوں کے سامنے زیر تعمیر عالیشان سہ منزلہ پولس اسٹیشن کی عمارت تھی جو کوئی تین ستارہ ہوٹل معلوم ہورہی تھی، ہمیں وہاں دوسری منزل پہ لے جایا گیا، کرسیاں صاف کرکے بچھائی گئیں، اور ہم تمام اسیران راہ وفا سے تشریف رکھنے کی درخواست کی گئی، ایک نوجوان پولیس اہلکار کو مختار بھائی نے آرڈر کیا کہ رجسٹر میں سب کی تفصیلات لکھ لیں، اس کو باری باری ہم سب نے نام، والد کا نام، پتہ، مشغولیت اور فون نمبر بتائے، اور یہ مرحلہ جب آسانی سے گذر گیا تو ہم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر زبان حال سے اس طرح اپنا حال بیان کیا کہ:
نے تیر کماں میں ہے نہ صیاد کمیں میں
گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے

جب یہ ضابطہ کی کاروائی پوری ہوئی تو ہم نے نماز کے لیے جگہ معلوم کی، مختار بھائی نے کہا: ابھی یہاں پانی نہیں، طہارت خانے نہیں، اور دوسری سہولیات بھی نہیں، اب ہم کوئی اور راستہ نماز کے لیے سوچ ہی رہے تھے کہ انہوں نے شطرنجیاں منگوالیں، ان کو بچھوایا، وضو کے لیے ڈرم میں پانی کا نظم کروایا، سب نے وضو کیا، سنتیں پڑھیں، میرے فاضل دوست مولانا احمد نور عینی نے نماز ظہر کی امامت کی، اور اس کے بعد الحاح وزاری کے ساتھ طویل دعا کرائی، طائف کی دعا بھی کی، ایک سماں بندھ گیا، اور ہم سب نے کھل کر خشوع خضوع کی کیفیت کے ساتھ آمین آمین کی صداؤں سے اپنے دلوں کو تسکین دی، اور اس شعر کا حقیقی لطف پایا کہ:
گو میں رہا رہینِ ستم ہائے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا
ہمارے جو فون آتے ہی ضبط کیے گئے تھے، یکے بعد دیگرے لوگ لیتے رہے، پولیس والوں نے چشم پوشی سے کام لیا، اور منع نہیں کیا، نماز کے وقت بھی وہ دور سے دیکھتے رہے، ہمیں کسی بات کے لیے منع نہیں کیا، پھر مختار بھائی نے ہمیں اسی منزل کی دوسری جانب ظہرانہ کے لیے بلایا، لذیذ اور معیاری ساؤتھ انڈین کھانے کا نظم تھا، وافر مقدار میں اور بڑے اعزاز سے پیش کیا گیا، سب لوگ شکم سیر ہوئے، پولیس والوں نے اچھی سروس دی، ہم نے سرکار کا نمک نعمت غیر مترقبہ سمجھ کر کھایا، پولیس والوں کو اس طرح بچھتے ہوئے دیکھ کر مجھے احمد فراز یاد آئے:
اب اسے لوگ سمجھتے ہیں گرفتار مرا
سخت نادم ہے مجھے دام میں لانے والا

پھر کچھ دیر ہم وہیں جہاں نماز پڑھی تھی بیٹھے رہے، کچھ قیلولہ کے ہاتھوں مجبور ایسے بھی تھے جنہوں نے نیم دراز ہوکر دو گھڑی کو آنکھیں بند کیں، اسی درمیان سرکل انسپکٹر کے آنے کی اطلاع ملی، اور کہا گیا کہ آپ لوگ جلدی جلدی اپنے فون چھپالیں، سرکل صاحب مسکراتے ہوئے تیز قدموں کے ساتھ ہمارے درمیان آکھڑے ہوئے، آتے ہی پوچھا: آپ لوگ ٹھیک ہیں؟ دو تین دن یہیں رہیں، میں سب انتظام کر دیتا ہوں، سب لوگ ہنس پڑے، ایک صاحب نے کہا: سر! ہمیں کیوں گرفتار کیا گیا؟ انسپکٹر نے کہا: اب یہ سوال میڈیا اور سوشل میڈیا میں اٹھائیں، ہم حکم کے بندے ہیں، آپ جاسکتے ہیں، ہمارے ایک ساتھی نے پولیس والوں کا شکریہ ادا کیا کہ آپ لوگوں نے کاپریٹ کیا، ان میں سے ایک نے جواب دیا کہ نہیں: آپ نے کاپریٹ کیا، یہاں آنے والے خاموشی سے نہیں بیٹھتے، ہم اس پر آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں، ہم پولیس اسٹیشن کے صدر دروازہ پہ آئے تو دو پولیس والوں نے جو انسپکٹر کے ساتھ آئے تھے اور ہمارے مقام ومرتبہ سے واقف نہ تھے ہمیں روکا کہ ہم پہلے اوپر جا کر سر سے کنفرم کرلیں، پھر آپ جاسکتے ہیں، اتنے میں سر بھی آگئے، سب نے ان کے ساتھ سیلفی لی، اور اس قید بے مشقت کے چار پانچ گھنٹے گزار کر سروں میں سودائے جنوں سمائے اس عزم کے ساتھ اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے کہ:
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا

ادھر جب ہم معہد آئے تو اساتذہ وطلبہ نے بہت ہی حوصلہ بخش استقبال کیا اور آفریں کی صدائیں کانوں میں آئیں، مولانا شاہد علی قاسمی صاحب نے بتایا کہ ظہر میں ہماری رہائی کے لیے آیت کریمہ پڑھی گئی اور دعائیں کی گئیں، مولانا اشرف علی قاسمی صاحب نے بتایا کہ ہم نے معہد کے ٹرسٹیز اور جماعت اسلامی کے ذمہ داروں سے رابطہ کیا کہ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہ اس وقت جنوبی افریقہ میں ہیں، ہمارے چند اساتذہ اور کئی طلبہ پولیس حراست میں ہیں، تو انہوں نے تعاون کا تیقن دیا، مولانا محمد عمر عابدین قاسمی مدنی نے بیرون ہند سے مبارکباد بھیجی، جو لوگ گئے تھے لیکن گرفتار نہیں ہوئے تھے وہ اب افسوس کا اظہار کررہے تھے کہ ہم اس سعادت سے محروم رہے، غرض ہر ایک نے حوصلہ بڑھایا، اور ہماری خطر پسندی کی داد دی، ان شاء اللہ یہ کارواں کاروان ایمان وعزیمت ثابت ہوگا اور اس انقلاب کی کامیابی کے لیے قربانیوں سے دریغ نہیں کرے گا:
خطر پسند طبیعت کو سازگار نہیں
وہ گلستاں کہ جہاں گھات میں نہ ہو صیاد

آج جب ہم اس مضمون کو مکمل کررہے ہیں اس واقعہ کو ایک ہفتہ کا عرصہ گذر چکا ہے، اور بالکل اندازہ نہیں تھا کہ اس ہفتہ میں یوپی اور بعض دوسری ریاستوں میں مسلمانوں پر اس قدر عرصۂ حیات تنگ کیا جانے لگا، درون خانہ پردہ نشینوں کی عزتوں سے کھلواڑ کیا جائے گا، مسلمانوں کی جائیدادیں قرق کی جائیں گی، دوکان ومکان پر قبضہ کیا جائے گا، اور وہ سب دوہرایا جائے گا جو یہودیوں کو بسانے کے لیے ارض فلسطین پہ کیا گیا، مسئلہ کو حل کرنے کی بجائے آر ایس ایس کی طرف سے شکتی پردرشن کیا جائے گا، اب ایسے میں ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے مزاحمت کے سوا کیا کوئی اور راستہ رہ جاتا ہے؟ کیا صرف کاغذات ٹھیک کرالینے کی بات کرنا سادہ لوحی نہیں ہوگی؟ کیا شہیدوں کا خون رائیگاں جائے گا؟ کیا عام برادرانِ وطن کی طرف سے ملک کے تاراج ہونے کے جس خوف کا اظہار کیا جارہا ہے اس کو سنجیدگی سے لیا جائے گا؟ کیا ہم جان ومال کی مزید قربانیوں کا عزم کرسکیں گے؟ یا وھن کے شکار ہوکر ذلت وپستی پر راضی رہیں گے؟ یا ہمیں یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ ہم غریبوں اور مزدوروں کو ہی یہ لڑائی لڑنی ہے، اصحاب بصیرت اور ارباب ثروت گوشۂ عافیت ڈھونڈ لیں گے؟ اگر ایسا ہے تو مردان حر اٹھیں اور اپنے حصے کا کام کرجائیں:
ہزار کام ہیں مردانِ حر کو دنیا میں
انہیں کے ذوقِ عمل سے ہیں امتوں کے نظام

Comments are closed.